حکیم الامتؒ نے کہا تھا:
سرِ خاکِ شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ مِلّتِ ما سازگار آمد
“بیا تا گُل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرحِ دیگر اندازیم”
اور "آوازِ دوست" والے مختار مسعود صاحب نے لکھا تھا :
"میں نے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کو کئی برس بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جتنی سیاہی جنگ کے بادلوں میں ہوتی ہے آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ جنگ کے اندھیرے گھپ اندھیرے ہوتے ہیں۔ لیکن جتنی تیز اور خیرہ کرنے والی سفید روشنی سخت آزمائش کے دنوں میں زندہ قوموں اور با کردار افراد کے طرزِ عمل سے پیدا ہوتی ہے آپ اس کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ روشنی جب اتنی روشن ہو جائے کہ آپ اسے دیکھ بھی نہ سکیں تو اسے نور کہتے ہیں۔ ”"
یہ فقیر کیا عرض کر سکتا ہے ۔۔۔آج صبح لکھا تھا:
"دادا نے نام ہی کرنل شیر خان رکھا... کیپٹن اللہ کی توفیق سے خود بنے... ٹریننگ ہو یا فیصلے کا کارزار، یا عین معرکہ کا مقام... جہاں زن سے آتی آگ آر پار ہوتی ہے ــــــــــ کپتان نے اپنے دین، نام، روایت اور ان سب پہ قربان ہونے کے جذبے کو کہیں کمر نہیں دکھائی.... کارگل کا وہ محاذ، جہاں خدا جانے کس نے لفظ "بزدلی " کو نئے معنی بہم پہنچائے اور کس نے "شجاعت" کو یہ تمغے عطا کیے... بہت سے گمنام سپاہیوں کا یہ ابدی مسکن ، جن کے نام کے بس لوک گیت ہوں گے اور کارگل کی چوٹیوں پہ صدیوں سے ٹکراتی ہوا کے نغمے... اور ہاں، ان شاءاللہ ان کے رب کی رضا... جس کے لیے وہ نرم گرم بستروں سے نکل کر ایک شام چل دیے تھے ــــــــ انہی کے درمیان کپتان شیر خان کو بہادری کا استعارہ ہونا تھا.... جسے مثالیے کی تجسیمِ نو کرنا تھی.... اکیس سپاہیوں ، جن میں سے اکثر زخمی تھے اور پہاڑی کے نچلے حصے میں ، وہ خود پہ حملے کے صرف سات گھنٹۓ بعد جوابی حملے کے لیے پانچ سو کی نفری والی آٹھ سکھ رجمنٹ ، جسے بلندی کا فائدہ بھی حاصل تھا، حملہ آور ہوا ۔۔۔چیک پوسٹ واپس لی ۔۔۔پر رکا نہیں ، تن تنہا دشمن کا پیچھا کیا ، کہنے لگا ، رات کو تم للکارتے تھے کہ آخری دفعہ کلمہ پڑھ لو، یہ لو میں اکیلا تمہیں سکھانے آیا ہوں کہ میدان کیسے سجایا جاتا ہے اور چٹے دن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ پڑھتے ہوئے دشمن کے مورچے میں، اس کا پیچھا کرتے ہوئے ، سینے پر گولی کھائی جاتی ہے ۔۔۔شیر خان ، جس کے داد ا بھی کشمیر کی سینتالیس والی تحریک آزادی کا حصہ رہے تھے ۔۔۔ دشمن نے اس کا جسدِ خاکی بعد از شہادت واپس کرتے ہوئے کہا کہ....یہ جوان دلاوروں کے لشکر سے ہے... اسے اس کا حق ملنا چاہیے... یقیناً اس کا اشارہ تمغہ و تحسین کی طرف تھا.... سو "نشان حیدر" عطا ہوا... مگر اسے کیا خبر تھی کہ یہ خون جس کے لیے گرا ہے، وہ کتنا یاد رکھنے والا قدردان ہے.... عمر رضی اللہ عنہ کو قاصد نے آ کر بتایا، فلاں بھی شہید ہوااور فلاں بھی.... اس کے علاوہ بہت سے ایسے ہیں، جنہیں امیر المومنین نہیں جانتے... جواب میں رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ، زہد و حکم کے اس جامع حاکم نے کہا... کہ عمر کو خبر ہو یا نہ ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے... جس کے لیے ان بے ناموں نے جان دی ہے.... وہ انہیں خوب خوب جانتا ہے.... تمغہ تو قوم نے دیا... مگر آسمان پہ ہونے والی تقریبِ پذیرائی کی قدروقیمت ظاہر بین دشمن کیا جانے ...!!
آج کپتان کا یوم شہادت ہے.... آئیے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں:
کپتان پہ اللہ رب العزت بے شمار رحمتیں نازل فرمائیں
قبیلے کو ایسے دلاوروں کی صف کبھی خالی نہ ملے
اللہم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واجعلنا منہم برحمتک یا ارحم الراحمین"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں