اتوار، 13 اگست، 2017

جماعت الدعوۃ سیاست میں : کیوں، کب اور کیسے


بدھ، 2 اگست، 2017

افغانستان میں امریکہ کی نئی حکمت عملی

نائن الیون کے بعد افغانستان پہ امریکہ کی چڑھائی کو ڈیڑھ دہائی ہونے کو آئی ہے، مگر جنگ زدہ افغانستان کے باسیوں کو چین کا سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا۔ طالبان خود کو افغانستا ن کے جائز حکمران گردانتے ہیں اور بہت سے صوبوں میں ان کی غیر اعلانیہ حکومت بھی موجود ہے۔ دوسری طرف شمالی اتحاد ، سابق مجاہدین رہنماؤں 
اور کچھ پختون سرداروں، جنہیں امریکہ کی مدد حاصل ہے، کابل کے تخت پہ بیٹھے ہیں۔ گو کہ یہ حکومت اکثر و بیشتر کابل تک ہی محدود دکھائی دیتی ہے۔ 
دو سابق امریکی صدور ، بش جونیر اور بارک اوباما کے ادوار میں اس حوالے سے مختلف سٹریٹجیز اپنائی جا تی رہیں، جو کہ ابھی تک افگانستان میں امن لانے میں قریب قریب ناکام رہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے ۔ ماضی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کے کچھ ادوار قطر وغیرہ میں ہوئے ہیں ۔ حال ہی میں چین اور روس بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کے خواہشمند نظر آئے ہیں۔ اس پیچیدہ صورتحال میں نومنتخب امریکی صدر کی افغانستان سے متعلق پالیسی کا سب کو انتظار ہے۔ الجزیرہ کی اس مختصر رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کے سامنے تین آپشنز ہیں۔
 امن عمل کو آگے بڑھانا
 فوجیوں کی تعداد آگے بڑھانا
افغانستان سے فوری انخلاء
دیکھنا یہ ہے، کہ افغان حکومت، طالبان اور ہمسایہ طاقتوں کے درمیان یہ مشکل گیم کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
فلک شیر

جمعہ، 28 جولائی، 2017

شہباز شریف، شجرکاری اور ہم



چونکہ ہمارے اگلے متوقع وزیراعظم جناب میاں محمد شہباز شریف ہیں... تو ابھی سے ان کے استقبال کی تیاری کے سلسلہ

میں پوسٹوں کا آغاز کیا جا رہا ہے... تمام احباب،خواتین و حضرات و دیگر جات جوش و خروش سے مہم میں شرکت فرمائیں

😃

تفنن برطرف... پچھلے سال علی پور چٹھہ سے وزیر آباد جانے والے رستے پر سرکار کی طرف سے شجرکاری کی گئی

تھی.... آج عرصہ بعد انہیں دیکھا تو وہ جو کبھی ہوا کے جھونکے سے بھی گر جاتے تھے... آج قد آدم سے اوپر چلے گئے

ہیں... سنا ہے یہ سڑک ایک نو متعین اے سی نے اپنے گاؤں کے لیے بنوائی ہے... شاید درخت بھی اسی نے لگوائے ہوں....

بہرحال جس کسی نے بھی لگوائے ہوں... بتانا یہ مقصود ہے کہ تھوڑی سی محنت دہائیوں صدیوں تک کے لیے صدقہ جاریہ

اور خیر کا سبب بن جاتی ہے

اگست آن پہنچا ہے، بھائی نور الہدی شاہین کی گرین ٹیم کی مہم نے سوشل میڈیا پہ سب کو شجرکاری کا شوق دلایا.... اب 

بلاگر رمضان رفیق صاحب نے بھی بالخصوص اگست کے حوالے سے مہم شروع کی ہے ــــــــــــ آئیے خود کو اس خالص 

خوشی کا حقدار بنائیں.....حقیقی مسرت کے حصول کا وہ تجربہ جو کروڑوں لگا کر بھی نہیں ملتی....وہ مسرت جو اگلے 

اگست میں ان پودوں کو جوان دیکھ کر آپ کو ہو گی ان شاءاللہ.... اللہ تعالٰی توفیق دیں اور قبول کریں 

کراچی سے ہمارے مرشد، کمال کے شاعر اور بلاگر محمد احمد بھائی کے تازہ شعر ہیں، کہ :


دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سلوک 


مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک

آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک



منگل، 25 جولائی، 2017

مجھے میرے جنگل میں جانے دو

مجھے جنگل سے یہ کہہ کر شہر لایا گیا.... کہ وہاں روشنیاں ہیں... پکے رستے ہیں.... کتابیں ہیں... ان کتابوں میں کہانیاں 

ہیں... پریوں کی.....وہاں جنگل کا قانون نہیں.... عدل و انصاف کا بول بالا ہے....وہاں صاف مقطر پانی نلوں میں بہتا ہے اور 

طبیب کسی بھی دکھ درد کی دوا کرنے ہر وقت حاضر و موجود ہوتے ہیں... مخالف قبیلہ آن کی آن میں میرے گھر بار اجاڑ 

کے نہ رکھ پائے گا.... یہاں جنگلی جانوروں کا ہر وقت کا خوف اور گھاس پھونس کے گھروندے...... 

پر تم نے مجھے دیا کیا..... وہی خوف، بے امنی، اندھیرے..... میرا جنگل تم نے مجھ سے چھین لیا اور میری زندگی سے تم 

نے خوشی کے وعدے پر خوشی ہی نکال پھینکی ... وہ مسرت جو نیم برہنہ، ادھ بھرے پیٹ، مگر آزاد حیات میں تھی.... اس 

کے تم قاتل ہو..... تم نے مجنوں کو صحرا اور مچھلی کو پانی سے باہر نکال کر اسے رنگا رنگ نیون سائنز اور شیشے کے 

ڈبوں میں بند کر کے کیا بھلا کیا...... تم نے مجھ سے میری تازہ ہوا اور قناعت کی خو چھین لی..... میری سچی مسکراہٹ 

کہاں گئی.... اب تو میں نفرت اور محبت بھی خود پہ طاری کرتا ہوں.... ہاں ہوس ہے کہ خالص ہے تمہارے ان سیمنٹ سریے 

کے جنگلوں میں..... لطافت اور نرمی کا یہاں کیا کام.... تم نے مجھے کہاں لا پھینکا، جہاں تتلی اور گلہری کو دیکھتے رہنے 

جیسی لطیف تفریح پاگل پن ہے.... 

تمہیں شاید پتا ہی نہیں. کہ تم نے مجھے اشرف سے اسفل بنا ڈالا..... 

مجھے اپنے جنگل میں واپس جانے دو..... یہ روشنیاں،رستے اور ریاستیں.... تمہاری ہیں.... تم رکھو.... مجھے اپنے جنگل 

میں واپس جانے دو اور ان نوعمروں کی طرح ایک بار کھلکھلا کر ہنسنے دو....... 


فلک شیر


منگل، 11 اپریل، 2017

آپ کیوں لکھتے ہیں؟؟


مقصدیت ادیب کے لیے بنیادی تحریک بنتی ہے یا محض اپنے اندر چھپے متن کا وفور اسے مجبور کرتا ہے، کہ وہ لکھے اور اس پہ کوئی خاص رنگ نہ چھڑکے، اس کا بازو نہ مروڑے، یہ بحث پتا نہیں کب سے ہو رہی ہے اور امید ہے، جب تک لکھا جاتا رہے گا، یہ جاری رہے گی۔مجھے تو اس مختصر اظہاریے میں بلا کم و کاست اس حوالہ سے اپنا مشاہدہ اور نکتہ نظر بیان کرنا ہے۔

بچپن سے میں نے جو کچھ پڑھا، عمرو عیار سے لے کر ایکسٹو تک، نعیم اور عبداللہ کی تگ و تاز  سے لے کر راشد منہاس شہید کی قربانی تک، مسلکی لٹریچر سے سید مودودی تک، منڈیلا سے لے کر شیخ الحدیث ذکریا کی سوانح تک، البریلویہ سے لے کر بریلویوں کے جواب تک، خوابوں کی سائنسی حقیقت سے لے کر خواب دکھاتے شفیق الرحمان تک، کیمیا گر سے لے دریائے پیڈرا کے کنارے بیٹھ کر روتی دوشیزہ تک، توفیق رفعت سے لے کر ولی اور عباس تابش سے لے کر میر تک، خروج و ارجاء اور تسنن و تجدد سے تصوف اور طریقت تک۔اس سب میں چند ہی چیزیں مشترک تھیں ، جو ہر متن کی تہ میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی تھیں ۔

1)تخلیقیت کی عطا شدہ صلاحیت کا اظہار۔مادہ خلق، جو القاء و الہام سے عبارت ہے ۔یہ سب کو عطا نہیں ہوتا، خواہ کوئی کسی نظریے سے کس قدر متاثر کیوں نہ ہو اور کسی منظر ، واقعے سے کسی مقدر اثر قبول کیوں نہ کرے۔ یہ جس کو ملتا ہے، وہی اس قابل ہوتا ہے ، کہ اسے چمکا لے ، اسے عدم سے وجود میں لانا میرے خیال میں کسی کے بس میں نہیں ۔ آپ شاعر، ادیب یا تخلیق کار ہیں یا نہیں ہیں ، درمیانی کوئی صورت نہیں ہوتی۔تو میرے خیال میں کوئی شخص تب ہی لکھ پاتا ہے، جب وہ اس مادہ سے کچھ نہ کچھ حصہ منطقہ غیب سے پاتا ہے ، جیسا کہ بہت سے ادباء و شعراء نے اس حوالہ سے اپنے تجربات اور خیالات کو پیش کیا ہے ۔ 

2)مقصدیت، یعنی کسی نظریے سے متاثر ہونا ۔جو حق سمجھنا، اس کی تبلیغ ۔ اس حوالے سے کس قدر لکھا گیا ہے ، ہم سب بخوبی واقف ہیں ۔ تمام مذہبی ، اصلاحی ، انقلابی لٹریچر اسی قبیل سے ہے۔ بلکہ وہ تمام لتریچر بھی ، جو یہ دعوا رکھتا ہے، کہ وہ محض تفریح کے لیے لکھا گیا ہے اور کسی خاص نظریہ کا پرچارک نہیں ہے ، وہ بھی کسی نہ کسی نظریہ حیات کے تابع ہی ہوتا ہے اور اس کا بے نظریہ بتایا جانا محض ایک غلط فہمی ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ سو ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے دونوں مدارس فکر دراصل ایک نطریے کے پیروکار ہیں ۔ایک کے ہاں مقصدیت کسی مذہب، نظریہ اخلاق یا روحانی تجربہ و اظہار سے پھوٹتی ہے ، تو دوسرے کے ہاں زندگی کے مادی پہلو کو زیادہ اہمیت دینے کا نظریہ طاقتور ہوتا ہے۔ ویسے صرف شہرت کا حصول بھی ایک مقصد ہے اور ایک نظریہ حیات کے تابع ہے اور اس کے لیے لکھنے والے بھی کم نہیں ہیں۔

3)مالی یافت۔ایک وقت تھا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، کہ کوئی شخص اپنا لفط بیچ سکتا ہے۔ لفظ ایک اونچی علامت تھی میرے ذہن میں ، جس کی حرمت اور تحریک پہ جان دی جا سکتی ہے ۔ جو سامنے کی حقیقتوں سے ماورا ، اعلیٰ اورخالص و لطیف حقیقتوں کے در کھولتا ہے ۔پھر پتہ چلا کہ روٹی کے دولقمے بہت بڑی حقیقت ہیں، جو آنکھ بند کرنے پہ مجبور بھی کر سکتے ہیں ۔پھر سمجھ آئی ہے، کہ یہ تو پیشہ بھی ہے ، سو حق لکھ کر بیچا بھی سکتا ہے، گو کم ہی کا حق بکتا ہے ، زیادہ اس سے "حق" ہی وصول کرتے ہیں۔ خیر لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتا ہے اور جب یہ ہوتا ہے، تو پھر بہت دفعہ قلم صرف وہ نہیں لکھتا، جو لکھنے والا کا ایمان و مقصد اور نظریہ ہوتا ہے ۔

4)معلوم انسانی مسائل، تعلقات، خدشات سے لے کر غیب کی پر کشش یا ڈرانے والے مظاہر کے درمیان پیش قدمی یا رجعت کا مسلسل سفر۔ لتریچر اسی سے عبارت ہے۔ 

تو کوئی کیوں لکھتا ہے ، مجھے لگتا ہے، کہ انہی مندرجہ بالا تحاریک کی انگیخت سے لکھا جاتا ہے۔اگر ہر تحریر کے پیچھے موجود مقاصد کی وین ڈایا گرام بنائی جائے ، تو ہر تحریر میں ان کی فیصد مختلف ہو گی، لیکن ہو گی یہی۔ یہ سب وجوہات بالعموم ان لوگوں کے لکھنے کی ہیں، کہ لکھنا جن کا مسئلہ ہے ۔

فلک شیر