بدھ، 12 جون، 2019

کاٹالونیا کے انسانی معیار اور اعلیٰ جمالیاتی تجربات کا مابعدالطبیعاتی پہلو

(تصویر بشکریہ گارجین ویب گاہ)

 اونچائی، حیرانی ،وجدان، شدت جذبات،حتی کہ حسی تلذذ کاہر انتہائی نوعیت تجربہ اپنی اصل میں مابعدالطبیعاتی ہی ہے ۔۔سپین کا ایک صوبہ ہے کاٹالونیا، جہاں کے رہائشی پچھلے کچھ عرصہ سے سپین سے علیحدگی چاہ رہے ہیں ، اپنی تہذیب اور دیگر مختلف اسباب کی وجہ سے، انہوں نے حکومت سازی بھی کی ، لیکن سپین کی حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا، ان کے ہاں ایک روایت ہے کہ ہزاروں لوگ ایک دوسرے کے کندھوں پہ سوار ہو کر انسانی مینار سا بناتے ہیں ، اسی سے ملتی جلتی روایت ہندوستان میں بھی ہے ۔ بچوں، عورتوں اور بڑوں کا اس حوالے سے جذباتی تعلق اور کامیابی سے مینار بنا پانے پہ خوشی کا اظہار محض ثقافت سے تعلق کی کہانی نہیں سناتا، بلکہ انسانی تجربات میں سے اعلیٰ جذبات اور تسکین کے بالاتر مصادر کا مابعدالطبیعاتی ہونا ہی بتاتا ہے ۔

The Hour of Lynching ... بھارت میں گاؤ رکھشا کے نام پہ مسلم کشی

(تصویر بشکریہ بی بی سی ویب سائٹ)

شرلے ابراہام اور امیت مدھیشیا نامی دو بھارتی نوجوانوں کی بنائی اس ڈاکیومینٹری "دی آور آف لنچنگ"سے مذہبی نفرت کے گرد گھومتی بھارتی سیاست، مسلمانوں کی حالت زار، جدید و قدیم کی کشمکش میں ڈولتی اور متزلزل مسلم نوجوان آبادی، ماضی قریب میں مذاہب سے بیزاری کی عالمی لہر کے نتیجے میں سوشلسٹ پارٹیوں اور نظریات کی طرف جھکاؤ ۔۔۔سب آشکارا ہو جاتا ہے ۔

ایک نوجوان دیہاتی مسلمان بھارتی حکمران پارٹی بی جے پی کے لاٹھیالوں اور تلوار بردار غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ایک گائے اسمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جبکہ بی جے پی کے غنڈے گائے امی کی حفاظت کا دینی فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ بی جے پی کا مقامی ایم پی اے اور کونسلر ٹائپ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ، جبکہ راکبر خان نامی مسمل نوجوان کی بیوہ، جوان بچی اور چھوٹے نوعمر بچوں کی حالت زار ۔۔۔سب اس مختصر ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا ہے۔۔بنانے والے بھی ہندو ہیں ، غالباً یہ نوجوان کنہیا کمار جیسے یونیورسٹی سوشلسٹوں سے متاثر ہیں۔ 
درج ذیل لنک پہ ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے ۔

اتوار، 10 مارچ، 2019

مارچ میں عورت مارچ

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابا جی بچپن لڑکپن میں ناراض ہوتے تو بعض اوقات دنوں تک وہ غصے اور میں ڈر سے بات نہ کرتا ، لیکن باجی (والدہ) ناراض ہو جاتیں تو نیند نہ آتی، معافی تلافی کر کے ہی سکون آتا ، تو بھائی ہمارے تو دل پہ عورت کا سکہ چلتا ہے، یہ موزوں والی بیبیاں بے چاری اپنے تئیں جس "جہاد فیمینزم" پہ نکلی ہیں، یہ قطعی کوئی نئی بات نہیں ، بس بات اتنی سی ہے کہ الگ طرح کی زبان میں کمپوز کی گئی یک سطری عبارتیں انہیں "عام عورت" کے طور پہ پیش کر کے ہمارے معاشرتی دھارے میں دھارے کے رخ بہتے عامی کو مزید کنفیوز اور مائل بہ "مساوات" کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ وہ دوست جو ان "مجاہدات" اور ان کے ہینڈلرز کو اس کمپین میں "جائیداد کے حق" اور "تعلیم کے موقع" جیسے "جائز نعرے" استعمال کرنے کی تلقین کر رہے ہیں، ہمیں ان کی نیت پہ قطعی کوئی شک نہیں ، البتہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ انہیں پوری بصیرت سے یہ جان لینا چاہیے کہ اس گروہ کا مقصد خواتین کے حقوق وغیرہ نہیں ہیں، ان کا مقصد گھر کے قلعے کو مسمار کرنا ہے، گھر نام کا یہ قلعہ ابھی تک کسی نہ کسی حد تک موجود ہے، گہ کہ اس کی موجودہ استعداد و کارکردگی محدود ہے، مگر یہ ابھی کھڑا ہے، روایت سے جڑت اور خدائی سکیم میں مرد اور عورت کے درمیان تعلق کی آماجگاہ، جہاں سے آئیڈیلز مثل روح کی پھونکے جاتے ہیں ، دودھ میں پلائے جاتے ہیں، لقموں کے ساتھ خون کا حصہ بنائے جاتے ہیں ، حرام حلال کا درس ملتا ہے، اچھے برے کی تمیز سکھائی جاتی ہے، عدل اور ظلم کا فرق سکھایا جاتا ہے، الہی اور شیطانی طرز حیات کا فرق کسی نہ کسی حد تک شعور کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس قلعے کو اباحیت سے فتح کرنے کی کوشش کی گئی، جس نے بنیادیں کمزور ترین کر دی ہیں ، مگر ابھی مسمار نہیں ہوا، ہاں اس طرح کے مظاہرے اور ایسی عبارتیں اور ان پہ ہمارے "عام آدمی"، جو یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور چیزوں کو "خوب سمجھتا" ہے، کا اندر ہی اندر اور گاہے اظہار کے ساتھ خوش ہونا یہ بتاتا ہے کہ جسم کی روح کو جسم کے خلاف احتجاج و بیزاری پہ قائل کر کے کوچہ و بازار میں لا کھڑا کیا ہے
کتنی ہی احادیث رسولﷺ ہیں ، جن میں گھر کو بندے کا ایمان بچانے والا ٹول اور راحت کدہ اور دنیا و آخرت کی خیر کا مرکز بتایا گیا ہے، یہ ظالم ہم سے ہمارے گھر چھییننا چاہتے ہیں ، ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں ، عزت ماب و عفت ماب گروہ کو اپنے بھائیوں بیٹوں اور خاوندوں کے خلاف کھڑا کر کے
نصیحت بڑے لوگوں کا کام ہے ، انہیں ہی زیبا ہے ، میں تو محمدیوں میں سے ایک عام آدمی ہوں، جسے پورے شعور اور بصیرت سے قطعی یقین ہے کہ گھر ایک ہی صورت میں بچیں گے ، ورنہ سیلابِ بلا کس کس کا در نہ اکھاڑے گا، یہ شبِ سیاہ کون کون سے سورج آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی انہیں اوجھل نہ کرے گی، یہ سرخ ہوا کس کس قتل گاہ کا پتہ نہ دے گی اور ہم بس دیکھتے ہی رہیں گے، سنتے ہی رہیں گے، ہل بھی نہ پائیں گے ــــ اور بچنے کا وہ رستہ محمد ﷺ کا ہی رستہ ہے، محبت اخلاق اور اخلاص کا رستہ ـــــــ گھر محبت سے بنتے ہیں، وقت دینے بنتے ہیں ، محبت کا پودا روز آبیاری چاہتا ہے، صرف نصیحتوں کے ڈھیر اور ٹائم ٹیبل کے مطابق خاندان کو اپنی مرضی کا پابند دیکھنے کی مشینی انا کی خواہش محمدﷺ کا طریقہ نہیں، عائشہ و خدیجہ و فاطمہ و زینب رضی اللہ عنہما سے پیغمبر آفندی علیہ الصلوۃ والسلام کا برتاؤ، اٹھنا بیٹھنا، وقت دینا، ناز اٹھانا ، تعلیم کرنا اور اس سب کے ساتھ ، اس سب کے ذیعے اللہ، آخرت اور حقیقت سے متعلق راست فکری و عملی پہ ابھارنا، قائل و فاعل کرنا
اس کا کوئی نعم البدل نہیں ، سکول کا ناظرہ، قاری صاحب کی یاد کروای گئی سورتیں، دن میں درجن بھر نصیحتیں، اس کا نعم البدل نہیں ہیں
تھوڑے کو بہت جانیے ، اپنا حساب ہم خود کر سکتے ہیں ، چاہیں تو
یہ عرضداشت ان لوگوں کے لیے نہیں ، جو اسے حقوق اور آزادی کا معاملہ بتاتے ہیں، ان میں سے بہت سوں کو ہم نے سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک میں پڑھتے پڑھاتے دیکھا ہے اور ان کے "فیمینزم" سے بخوبی واقف ہیں
نہ ہی ان کے لیے، جو اسے دل سے "انسانیت" کا تقاضا سمھجتے ہیں ، ان کے لیے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں بصیرت عطا فرمائے
فلک شیر