جمعرات، 22 فروری، 2024

My two cents on elections in Pakistan


They (untouchables and their tout/ pet dynasties) are terrified. Badly terrified. Of whom?


Of common men and women, young boys and girls, peasants, labourers, students, Punjabis, Sindhis, Pashtuns, Balochs, Sunnis, Shias, minorities, ethnicities and at large Pakistanis..... They're terrified of new young leadership from humble families rising to power, lest they not become successful in enabling the layman to have his say in the day to day running of this country. 


So they did everything hand in hand to not let the Pakistanis say a collective NO to this cursed system in previous months. However 8th February proved a nightmare for them all, so they decided to change on paper, what people had done with their minds and hands on ballot paper. So they did what they did. 


Now they've installed those corrupt and merciless puppets in high seats, who were fed with people's trust by those who manage the KITCHEN after stealing from other's plate. 


What's next?


Simple!


Truth prevails and lie falls, this is what we are told by Allah SWT and His final messenger. We believe in them and feel proud, upright and high-chin for standing shoulder to shoulder with the truth and just truth. One day the truth; collective conscious of people of Pakistan longing and speaking for a Islamic welfare state, will prevail in sha Allah. 


Faiz sahib :


اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری

تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار

گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشۂ منبر

کڑکے ہیں بہت اہلِ حکم برسرِ دربار


چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام

چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت

اس عشق، نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل

ہر داغ ہے ، اس دل میں بجز داغِ ندامت


O people of Pakistan! have belief, stay truthful and thankful to Allah for letting you standing up for the truth. In sha Allah Pakistan will get out of these trenches of fear, oppression and treason. We must keep doing the right things, what needs to be done to make this country a great place for our next generations. 




اتوار، 16 اکتوبر، 2022

Africa and colonizers


 Perhaps Africa is the continent which suffered the most on the hands of colonizers in the previous centuries. Distribution of resources fairly among the masses, whether they are mineral, agricultural or even human ones, had always been a real issue for the collective conscious of any society/civilization. We have heard many scholars saying that a society can be judged by its treatment of its poor people or low income classes or those people who have lesser access to the power structure. We can say, this is very much same for the nations across the globe. It is very clear that at any point of time in the history there are some superpowers and others who are their allies and then there are those who stay on the borders of the pages of history; the downtrodden ones, the forgotten ones. We also know that nations and civilizations don't stay always at the top slots, things keep changing for the nations just like the powerful individuals. History is just the registering agent of all these happenings. So if we are to judge a civilization, a superpower; we will have to judge it by its treatment of those nations, groups and races, who were at those times under the their order. If you don't go too much far behind and just visit the previous 200 odd years of western colonizers record in this regard, especially keeping Africa in mind, do you know where we can rate them from one to 10 in any honest observation, compilation of the data and the correct conclusions? Their grades will be much lesser than many think. 

Britain, France, Germany, Portugal, Spain and Italy were the major colonizers during the era, which I earlier mentioned. One can check the records of the industrial growth, GDP, health facilities improvement, educational institutes development, recreational infrastructure development and the other civic facilities of colonizers and colonized ones. Just this comparison, keeping in mind that one was colonizer and the other was colonized, will bring the true picture and reasons of today’s situation of Africa before us. Some friend referred me a movie, actually a Netflix product, The boy who harnessed the wind, and the state of affairs off people of Africa just moved me so much after watching it. A year or two back, I watched some child soldier movies about African continent and that was really terrifying experience too. We today recognize Africa from famines, hunger, wars, ultimate corruption, lawlessness and every bad thing we can name, so a simple question, after spending hundreds of years over there what have France, Portugal, Spain, Germany and other colonizers left for them?


Third grade democracy, puppet dictators and emptied mining places!


Iqbal said about these thugs:


یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات


Falak Sher Cheema

16-10-2022

جمعرات، 11 نومبر، 2021

تصویر



کینیڈا کے شہر اونٹاریو کی اورینٹل مارکیٹ میں شام کے دھندلکے ایک خاتون داخل ہوتی ہے، نقوش سے جنوبی ایشیائی لگتی ہے۔ وہ بازار میں بظاہر کوئی خاص چیز خریدنے نہیں آئی، شاید اسی لیے گھومتے پھرتے،بوڑھے ترک دکاندار لطف الدین لطیف اوغلو کے ہاں جا رکی ہے، جس کے پاس کرنے کو ڈھیروں باتیں اور بیچنے کے لیے چیزوں کی کوئی مخصوص فہرست اور ترتیب نہیں؛ پرانی کتابیں، نئی تصویریں، ہندوستانی بیڑی ، ہوانا کے سگار، مولوی رومی کے رقص کناں درویشوں والے چغے، سلجوقی خود کی نقول، بچوں کے کھیل کود کی تلواریں اور ہاں....قہوے کا فنجان بھی حاضر رہتا۔ مقامی ترک انہیں لطف عم جان کہتے اور کبھی کبھی تو ترک قہوے کے شوقین گورے گوریاں بھی انہیں چچا بنانے آ پہنچتے....

 لطف عم جان: خانم آفندی، آپ کی کیا خدمت بجا لا سکتے ہیں ہم؟

خاتون: وہ مصوری کا نمونہ دکھائیے گا لطفاً!

 لطف عم جان: جی ضرور...یہ تصویر.... ہاں جی.... اسے ایک پاکستانی نژاد نوجوان نے بنایا ہے، عمر تو زیادہ نہیں ہے مگر مشق اور تخیل خوب ہیں۔ کبھی کبھار اپنی چیزیں ہمارے گوشہ مصوری میں رکھنے آتا ہے۔ 

خاتون: آہاں.... میں بھی پاکستان سے ہوں

 لطف عم جان: تو کیسی لگی آپ کو یہ؟

خاتون: (لمحہ بھر کو مسکرا کر) تصویریں تو پیاری ہی ہوتی ہیں، بنانے والے نے اتنی محنت جو کی ہوتی ہے..

 لطف عم جان: (بوڑھے ترک کی آنکھیں دور کہیں دیکھتی ہیں) میری ماں میرے باپ کو میرے چہرے پہ نہیں مارنے دیتی تھیں، کہتی تھیں کہ یہ تصویریں اللہ نے بنائی ہیں، ان پہ سخت ہاتھ کیسے لگا سکتے ہو تم... 

خاتون: (چونک کر) ایسے ..... سب مائیں ایسے ہوتی ہیں

 لطف عم جان: یہ تصویر ویسے مجھے بھی پسند ہے....ایک پہیہ ہے وقت کا ، افق پہ ابر و طائر گویا مل رہے ہیں...پہیے کی گردش سے پہاڑی راستے پر کم زیادہ نقوش ثبت ہو رہے ہیں۔ بہار کا پتہ نہیں چلتا، آ رہی ہے کہ جا رہی ہے۔ کنارے کنارے رنگ شوخ بھی ہیں کہیں کہیں، مگر کینوس کا وسط مائل بہ بے رنگی سا ہے.... مگر ایک بات واضح ہے ، وہ یہ کہ رنگ ہیں ایک دوسرے سے پورے ممتاز ....پر جیسے ساتھ رہ کر بھی جدا ہونے کا اعلان کرتے ہوئے...

خاتون: ہمم....

 لطف عم جان: آپ کا ذوق عمدہ دکھائی دے رہا ہے، خرید لیجیے، ڈرائینگ روم میں آویزاں کیجیے گا.... نہیں تو بیڈروم میں بھی ٹھیک رہے گی

خاتون: تصویر اچھی ہے...وہ نا، مجھے گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے.... میرے میاں کو بھی.... ہم دونوں نے مل کر بہت دنیا گھومی ہے.... اور مجھے مصوری کا کچھ شوق بھی ہے.... پینٹنگز کی کلیکشن بھی ہے چھوٹی سی.... رہی یہ تصویر، تو یہ کام واقعی کسی سچے فنکار کا ہے....ماضی و مستقبل کے تھیمز اور مہارت دونوں ہیں اس میں ....پر پتا ، میری شادی کو کتنے ہی برس ہو گئے، پر بچہ نہیں ہے ابھی تک.....مجھے اپنے بیڈروم کے لیے ایک پیارے سے بچے کی پینٹنگ خریدنا ہے....آپ کے پاس ہے کوئی؟

 لطف عم جان: جی؟
اچھا اچھا!
ڈھونڈتے ہیں عزیزہ... ڈھونڈتے ہیں....

فلک شیر چیمہ
21 نومبر 2021ء


جمعرات، 16 ستمبر، 2021

رات

 ****رات****


درد اور درماں، دونوں کی

رات ، یکساں پردہ پوشی فرماتی ہے

اعلانات سے تھکی زمین کو 

 رات، خاموشی کی لوری سناتی ہے

دھیمی دھنوں کی تال پہ 

رات وصال کا جال بنتی ہے

 فراق کے تاریک طاق میں

 رات دیا بن کر جلتی ہے


صحرا کے تپتے دن پہ رات

 ٹھنڈی میٹھی پلکیں جھپکتی ہے

سکے جمع کرتے ہاتھوں اور

 کلید تختوں سے اٹی انگلیوں کو

رات ان کا حق دینے کا فرض نبھاتی ہے

لمبے دنوں کی تھکا دینے والی نامانوس صحبتوں

اور اکتا دینے والی مقدس روٹین کی ڈور کو

رات اپنی ریشمی تلوار سے قطع کرتی ہے


دوسروں کو نیا موقع دینے کی ہمت 

اور خود پہ طنز کی اجازت دینے

رات آتی ہے

نیستان سے کاٹ کر لائی نے 

گاہے رات کو وصلِ خویشد کے

طویل نظم جیسے سفر پہ نکلتی ہے

قریہ قریہ گریہ کرتے عشاق کے پیچھے

رات ہی کو سفید پوش صفیں باندھتے ہیں


اور یہ رات ہے، جس کے ہنگام

ادھر کہیں آسماں پہ 

حسنِ ازل ، لطیف سئیں

اپنے ہاتھ کے گھڑے

مٹی کے پتلوں کو 

آواز لگواتا ہے

اپنے نام کا مرہم لگاتا ہے


فلک شیر چیمہ



منگل، 7 ستمبر، 2021

الوداع سید علی گیلانی

 الوداع سید من!

آپ نے جبر کے سامنے ہمیشہ سینہ ہی رکھا، پشت دیکھنے کی اسے حسرت ہی رہی

آپ ہمارے قافلے کے سالاروں میں سے تھے، خود میدان میں استادہ و مقیم سالار

ہر صدی میں آپ جیسی دو چار نشانیاں ایمان والوں کے سینوں میں روشنی پھر سے بھڑکانے کو ربِ ذوالجلال والاکرام عطا فرماتے ہیں

ملا کی اذاں اور، مجاہد کی اذاں اور...یہ مصرعہ وادی کشمیر کے کوچوں بازاروں میں آپ کی دلیل اور جذبہ، دونوں میں گندھی للکار سن کر سمجھ آیا

آپ امید ، سر تا پا امید اور توکل و تیقن کی تجسیم تھے

جبر میں تو یہ تاب تھی ہی نہیں، آپ کے نفسِ گرم کا سامنا منصب و ثروت کے بل پہ کوئی منافق اور نام نہاد "اپنا" بھی نہ کر سکا

لکیریں، دیواریں، سرکاریں، بندوقیں اور غلاموں کی مجبوریاں...کچھ بھی آپ کے نظریہ حیات کی طاقت و صلابت کے سامنے کھڑا نہ رہ پایا

بہت سے لوگ آزادی کے اس کٹھن سفر پہ چلے تھے، کئی تھک گئے، کئی دنیا کی چکاچوند سے ہار گئے اور کئی تاویل کی زلفِ تصنع صفت کے اسیر ہو گئے... پر آپ قدیم چنار کی مانند سیدھے، اونچے اور دراز کھڑے رہے

حق آپ کی زبان پہ جاری تھا اور ہمہ دم اسی کا رعب لاکھوں گنا طاقتور دشمن پہ طاری تھا

پاکستانی آپ تھے، پاکستانی آپ ہیں اور پاکستانی آپ رہیں گے۔ پاکستان آپ کا تھا، پاکستان آپ کا ہے اور پاکستان آپ کا رہے گا۔ آپ کے پیغام کی گونج میں یہ فقیر کہتا ہے کہ ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے، ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے۔ اسلام کی نسبت سے، قرآن کی نسبت سے، سیدِ گیلان کی نسبت سے ہم کشمیری ہیں اور کشمیر ہمارا ہے۔

ڈل کی گہرائی اور جہلم کی تیزی، پیر پنجال کی اونچائی، وادی کے ہر شہداء قبرستان کی وسعت اور آپ کے اس محبوب کشمیر کے چپے چپے پہ فطرت کے انڈیلے حسن سے آپ کے پیغام کی خوشبو پھوٹتی اور صدا گونجتی رہے گی.... کہ یہ خوشبو دار صدا فطرت کی طرح سادہ، سچی اور عدل کی صدا تھی

کتنی خوش نصیب ہے کشمیر کی سرزمین، کہ اسے غلامی میں ایک "مرد آزاد" میسر آیا، رول ماڈل ملا اور پیچھے چلنے کو اس کے جمے ہوئے قدم ملے۔

آپ کا پاکستان آپ کے لیے اداس ہے، بلا تفریق رنگ و نسل، بلا تمیز مسلک و مشرب۔ ہم آپ کے بیٹے بھائی اور ہماری آنکھیں آپ کے لیے پرنم اور دل حزیں ۔

آرام سے سوئیں اب گیلانی صاحب، بہت تھکے ہوں گے آپ اس لمبے سفر سے۔ آپ نے اپنا حق ادا کر دیا، ہم گناہ گار بندے اپنے علم کی حد تک آپ کی بھلی گواہی دیتے ہیں، خالق سے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے ہیں۔

بے شماررحمت ہو آپ پر اس پروردگار کی، جس کی رضا کے لیے آپ نے حیات مستعار کا لمحہ لمحہ بسر کیا۔

آمین یا رب العالمین

تصویر بشکریہ دنیا ٹی وی ویب گاہ


اتوار، 5 ستمبر، 2021

خواب و تعبیر



خواب و تعبیر

****************




خواب سب دیکھتے ہیں، تعبیر بھی پاتے ہیں حسبِ قدر

دشمن ہونا لازم ہے، یوں ہی دوست بھی

حریف سبھی بناتے ہیں اور حلیف بھی

خزاں ہر زمین پہ اترتی ہے اور اس کے استقبال کو بہار ہر دفعہ موجود ہوتی ہے

خریدار ہر جنس کو میسر آتا ہے، خواہ زنگ اور مٹی ہی سہی

کینوس پہ پہاڑ کو دوسرے پہاڑ سے وادی الگ کرتی ہے

گھاٹی کے ساتھ ہی ڈھلوان بچھی ہوتی ہے

ایک اور صفر کا ساتھ ہمیشہ سے ہے

اور مثل بھی تو ہے

چیزیں اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں

سو اپنی اضداد کا انکار اور انہیں اپنا عین کہنے پہ اصرار

یہ شتر مرغ کو روا ہے، یا احمقوں کو جائز

سو اے میرے گھونسلے کے ساتھیو!

تم سنہری شاموں میں

الگ الگ راگوں کے گیت ضرور گانا

اور شبنمی صبحوں میں

اپنی اپنی منفرد خوشبو ضرور ملانا

مگر اس دام ہمرنگِ زمیں سے ہوشیار رہنا

اپنی اصل مت بھلانا

اور

اندھیروں کے مقابل روشنی کے عرف پہ مصر رہنا

اس خواب کو ایک قدیم بودا قول بکتے

بے دیار کے چند آوارہ گرد

فصیل فصیل گھومتے مردار خوروں کی خاطر

تج نہ دینا

میں اس آدرش میں تمہارا ساجھی ہوں

جسے سودائیوں، پیادوں اور سواروں کی ایک پوری نسل نے اپنایا تھا

میں تمہارا ہم خواب ہوں

اور اس کی اسی پرانی تعبیر کو

اس قدیم آسمان کے نیچے

نئے یقین کے ساتھ

اوراق، اصحاب اور الواح کے زیتونی نور کی رہنمائی میں

میرے ہم نفسو!

پھر سے فاران و آسیا پہ ایک شفیق بادل کی طرح

برستے دیکھنے کا آرزو مند ہوں




فلک شیر چیمہ


بدھ، 6 جنوری، 2021

نو برس ہوتے ہیں

 نو برس ہوتے ہیں

ہر کسی کے اپنے نو برس ہوتے ہیں

سیرِ صحرا سے لبِ دریا تک

عمر کوٹ سے بھٹ جو گوٹھ تک

سسی کی پیاس سے خضر کے گھڑے تک

بے انت بے سمتی سے یکسوئی کی مٹھاس تک

کانٹوں کے عرق سے ترتراتے پراٹھےسے....

شکرگزاری کی سوکھی روٹی تک

بے مصرف بنجر دنوں سے موتیوں جیسے لمحوں کے ڈھیر تک

واقف انجانوں کی بھیڑ سے دل میں اترے اجنبیوں کی مجلس تک


اور


کسی بربادکوزہ گر، جو اپنے ہی کوزوں سے رنجور ہو....

کوپھر سے اپنے چاک پہ شرابور ہونے تک

نو برس درکار ہوتے ہیں


پر یہ نو برس ہمیشہ سو سے آٹھ زیادہ مہینوں کے نہیں ہوتے

یہ نو لمحوں سے نو دہائیوں کے ہو سکتے ہیں

کیونکہ

نو برس ہر کسی کے اپنے ہوتے ہیں


فلک شیر


پس نوشت: کل ن م راشد کا یوم پیدائش تھا، راشد کی حسن کوزہ گر کا ایک تھیمیٹک حوالہ مندرجہ بالا نثری نظم میں قارئین محسوس کر سکتے ہیں، یہ تکلفاً در نہیں آیا، یہی عرض کرنا کافی سمجھتا ہوں۔