اتوار، 6 اپریل، 2014

ایک پرائمری سکول گود لیجیے




پاکستان کے مسائل سے متعلق ہم سب دن رات بحث مباحثہ بھی کرتے ہیں ، حکمرانوں کے نامناسب رویوں ، کرپشن اور غیر ضروری اخراجات پہ ہم سب کا دل بھی کڑھتا ہے۔ روزانہ رات کو ٹی وی سکرین پہ سیاسی دنگل سجائے جاتے ہیں ، جن میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو خوشنما سچ ثابت کرنے کے لیے عموماً چند چرب زبان اپنی ڈیوٹی کر تے ہیں ۔فکری انتشار بھی کمال کا ہے اور لسانی و گروہی تعصبات اپنے عروج پہ۔ریاست سے ناراض گروہ اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور اپنے "محسنین" کا حق نمک ادا کرنے کے لیے بم پھاڑنے سے لے کر پرچم جلانے تک، جو کچھ کر سکتے ہیں ، کر رہے ہیں ۔ کچھ گروہ ہیں ، جنہیں مذہب، کہ جس پہ اس ملک کے بانیوں کو کبھی شرمندگی نہ ہوئی تھی، سے شدید شرم آتی ہے۔ اور دوسرے ہیں ، جو ایک خاص لباس اور وضع قطع کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ۔انرجی بحران ہے، صنعت بے حال ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کیا
ایسے میں ایک عام پاکستانی کیا کرے، کہ اس کے ضمیر پہ موجود بوجھ کم ہو ، کہ وہ اگلی نسلوں کے لیے بہتر پاکستان چھوڑ کر جانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کی مختلف رائے ہو سکتی ہے ، کیونکہ ترجیحات کے تعین میں ذاتی رجحانات اور افتاد طبع اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں ۔آئیے چند معروضات اس ضمن میں نظر نواز فرمائیے۔
تعلیم کو بہتر کیے بغیر فی زمانہ کسی قوم نے ترقی  نہیں کی، اور خاص طور پہ ابتدائی تعلیم اس سلسلہ میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے، فارسی محاورہ  کہتا ہے ، کہ اگر پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی جائے ، تو عمارت خواہ ثریا سیارے تک پہنچ جائے، وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لیے میرا ذاتی خیال ہے کہ اس وقت ہمارے بڑے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ ہمارا فرسودہ، کٹا پھٹا اور خستہ حال پرائمری نظام تعلیم۔اور اس کی اصلاح ان تمام لوگوں کا پہلا مسئلہ ہونا چاہیے، جو سیاست سیاست کھیلنے اور اپنی ذاتی خیالات کو حرف آخر سمجھ کر دوسروں کو گالی دینے کی بجائے مثبت انداز میں مشترکات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری سکولز کی تعداد 163،000 کے قریب ہے، جن میں سے 40،000 کے قریب بچیوں کے لیے ہیں۔ صوبہ پنجاب کے چند ایک پرائمری سکولز میں متعدد مرتبہ ذاتی طور پہ جانے اور وقت گزارنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اس جدید دور میں ان سکولوں میں جو کچھ بچوں کو دیا جا رہا ہے، اسے "تعلیم"کہنا زیادتی ہو گا۔ عموماً پرائمری سکولز میں نرسری، پریپ سمیت کل سات جماعتوں میں طلباء و طالبات داخل کیے جاتے ہیں۔ ان جماعتوں میں حکومت پنجاب کی طرف سے جو نصاب رائج ہے، وہ مکمل انگریزی میں ہے،سوائے اردو اور اسلامیات کے۔ان پرائمری سکولز میں عموماً دو سے تین اساتذہ ہوتے ہیں ، گو کہ کئی ایسے سکول دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا، جہاں یہ سہولت صرف ایک استاد تک محدود تھی۔پھر جو اساتذہ یہاں تدریس کے لیے مامور ہیں ، ان کی ایک بڑی اکثریت اس ذہنی افتاد کی حامل ہے ، کہ حاضری لگانا اصل کام ہے، اس کے بعد کوئی ہمیں کیا کہہ سکتا ہے۔ ان میں سے پرانے میٹرک پی ٹی سی اساتذہ تو موجودہ نصاب کی تدریس کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور اس کا اعتراف کرنے میں انہیں کوئی باک بھی نہیں ۔ان کی ایک بڑی تعداد ضیاءالحق، نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں سیاسی بنیادوں پہ بھرتی ہوئے تھے، سو ان کی استعداد کار بھی معلوم ۔ اب آتے ہیں نئے بھرتی شدہ ایجوکیٹرز کی طرف، تو عرض یہ ہے کہ نمک کی کان میں جا کر وہ بھی نمک ہو جاتے ہیں، الا ماشاءاللہ۔کیونکہ جب انہیں معلوم ہوتا ہے، کہ سکول میں موجود پرانے اساتذہ نے تو سرے سے پڑھانا ہی نہیں ، زیادہ سے زیادہ آنے جانے والے مقامی افسران کو چائے پانی پلانا ہے، تو وہ سوچتے ہیں کہ ہم نرسری سے لے کر پنجم کی کلاسز کو ایک دن میں کیا کیا پڑھالیں گے، سو "دھکا مارو جی۔"وہ والدین ، جو کسی بھی پرائیویٹ سکول کی فیس ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ، مجبوراً بچوں کو سرکاری سکول میں بھجواتے ہیں ، بچے وہاں آ کر کافی وقت گپ  شپ یا اردو اسلامیات میں سے ایک آدھ مضمون پڑھ کر چھٹی کے وقت گھر چلے جاتے ہیں ،نہ  گھرمیں انہیں کوئی پوچھتا ہے اور سکول میں تو خیر کون پوچھے گا ۔

 پھر انہی اساتذہ کو الیکشن ڈیوٹیاں، یونیورسل پرائمری ایجوکیشن کے رجسٹر، ہر دوسرے دن آنے والے گوشوارے، نومولودگان کی فہرستوں کا پیٹ بھرنا اور اس قسم کی دیگر ڈیوٹیوں میں بھی حاضر ہونا ہوتا ہے، اس لیے ان کی اکثریت کے منہ پہ یہ الفاظ ہوتے ہیں ، کہ اتنے پیسوں میں آٹھ آٹھ کام تو ہم سے لیتے ہیں، اور ہم سے کیا چاہتے ہیں ، یا یہ کہ"گورنمنٹ کے کام ایسے ہی چلنے ہیں جی، تسی فکر نہ کرو، نالے ایہناں منڈیا پڑھ کے کیہ کرلینا اے ، کرنی تے فیر کدھرے مزدوری ای اے نا جناب "۔
 ایک اور بات سن لیجیے، پنجاب حکومت کے بزرجمہروں نے ڈی ٹی ای نام کا ایک عہد ہ تخلیق کیا اور اسے چودہ سکول تفویض کیے ، کہ ان کا خیال رکھو اور لاہور سے چھپ کر آنے والے ماہانہ ٹیسٹ لو، پھر اس کا نتیجہ ہمیں لاہور بھجوا دو۔ جماعت سوم، چہارم اور پنجم کا یہ امتحان پنجاب کے اکثر اضلاع میں ہر ماہ لاہور سے چھپ کر جاتا ہے، اور تمام پرائمری اور مذل سکولز میں اس کا انتظام کیا جاتا ہے، لیکن کیا کہیے، کہ نوے سے زیادہ فی صد سکولز میں یا تو ٹیسٹ والے دن ہی ڈی ٹی ای صاحب دفتر میں بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور سکول کے عملے میں سے ہی کوئی استاد بچوں کو نشان لگوا کر "پرچہ"کروا دیتا ہے۔ اگر کبھی کبھار ایسا ممکن نہ ہو تو یہ پرچے چونکہ ڈی ٹی ای انہی چودہ سکولز میں سے کسی دوسرے سکول کے اساتذہ کو بھجواتا ہے، تو "باہمی مفادات"کا خیال رکھتے ہوئے ان نتائج کو "مرتب" کروا لیا جاتا ہے۔ سالانہ امتحانا ت ، جنہیں "پنجاب ایگزامینشن کمیشن"نامی ایک ادارہ کنڈکٹ کرواتا ہے، ان میں بھی نہایت آسانی سے بچوں کو ہر پرچے میں موجود ساٹھ کثیر الانتخابی سوالات یعنی ایم سی کیوز کے نشانات لگوا دیے جاتے ہیں ، اللہ اللہ خیر سلا۔ نتائج کے بعد اگر کسی سکول کا نتیجہ مناسب نہ ہو، تو حکومت پنجاب کا غضب ان پہ نازل ہوتا ہے اور ترقیاں روک دی جاتی ہیں ۔ ایسے میں یہ اساتذہ امتحانات میں ہر طریقے سے بچوں  کے نمبر لگوانا جائز ہی نہیں ، عین شرعی ضرورت سمجھتے ہیں ۔

اوپر کھینچی گئی تصویر حقیقی ہے، ممکن ہے کچھ احباب اسے مبالغہ یا شاید اغراق قرار دیں، لیکن یہی تلخ صورتحال محکمہ تعلیم ، خصوصی طور پہ پرائمری سکولز میں طاری ہے اور اسی نحوست اور قومی تساہل کا نتیجہ یہ ہے ، کہ ایک قوم بننے کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہو پایا اور روز بروز تعلیمی انحطاط مجموعی معاشرتی انحطاط کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔

اس کا کیا حل ہے،ایک تو یہ ہے کہ ہم حکمرانوں کو گالی دیں ، جعلی سی سرد آہ بھریں اور ریموٹ سے اگلا ٹی وی چینل تبدیل کر دیں ۔ دوسری صورت کچھ کرنے کی ہے، عمل کی صورت میں ، اس ضمن میں چند ایک گزارشات پیش ہیں :
ایک گاؤں یا قصبے میں موجود کسی بھی پرائمری سکول کو کم از کم چار دیواری،پانچ کمروں ، مناسب فرنیچر ، چھت ، پانی، بجلی اور کم از کم پانچ اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں سے بیشتر سہولیات  پاکستان کے اکثر پرائمری سکولز کو میسر نہ ہیں ۔میری اطلاع کے مطابق ہر پرائمری کونسل کی ایک گارڈین کونسل موجود ہے، جس میں والدین ، ریٹائرڈ استاد، مقامی معززین اور ہیڈماسٹر شامل ہوتےہیں ، یہ سکول کی تدریسی و تعلیمی ترقی سے لے کے انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کے ذمہ دار و نگران ہوتے ہیں۔ لیکن انتہائی بدقسمتی کی بات ہے ، کہ یہ کونسلز کاغذی ہیں اکثر جگہوں پہ۔تو اگر وہ تمام اہل خیر ، جو پاکستان یا بیرون ملک پاکستا ن کے لیے دن رات کڑھتے ہیں ، وہ

(1)ایک پرائمری سکول کو گود لے لیں، اس کے انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کو اگلے پانچ سال میں اپنے ذاتی اور احباب سے جمع شدہ وسائل سے مکمل کرنے کا منصوبہ تیار کر لیں، یہ کام وہ اپنےمرحومین کے لیے صدقہ جاریہ کے طور پہ کر سکتے ہیں۔
(2) جتنے اساتذہ کم ہیں ، اتنے مرد یا خواتین اساتذہ، مقامی آبادی سے آٹھ سے دس ہزار (پرائیویٹ سکول تین چار ہزار دے رہے ہیں دیہات و قصبات میں)روپے کے عوض بھرتی کر لیں عارضی طور پہ۔ اور یاد رہے کہ اس بھرتی کا اختیار سکول کونسل کو قانونی طور پہ دیا گیا ہے، گو کہ اس میں معاوضہ صرف پندرہ سو مذکور ہے، خیر اس انتظامی مشکل کا حل بہت آسان ہے۔
(3) ان نو منتخب اساتذہ کو ایک ایک جماعت دیں اور پھر اہل دیہہ یا قصبہ کی سکول کونسل اپنی ذمہ ًداری ادا کرے۔مسلسل ، مؤثر اور نیک نیتی پر مبنی نگرانی یقیناً بہت مفید نتائج پیدا کرے گی۔
(4) علاقہ کے محکمہ تعلیم کے مقامی افسران کو اعتماد میں لے کر اس جانب قدم اٹھائیں ، امید ہے انہیں اعتراض نہ ہو گا۔
جب تک اساتذہ کی تعداد پوری نہ ہو گی، تب تک ہم نتائج کے بارے میں پوچھنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اس  لیے بنیادی فوکس اس بات پہ  ہو، کہ اساتذہ کی تعداد پوری کرنا ہے۔ دو ایک ای ڈی اوز کے سامنے میں نے یہ تجاویز رکھیں ، تو انہوں ےنے راجن پور کی طرف اس طرح کی کچھ مثالوں کا تذکرہ بھی کیا۔
اس سلسلہ  میں مختلف قابل اعتماد تنظیمات  مل سکتی ہیں، جو اس میدان میں کام کر رہی ہیں ۔ اگر کوئی اس سمت قدم اٹھائے گا، تو راستے کشادہ ہو جائیں گے اور مشکلات حل ہوتی جائیں گی، تعلیم اور بنیادی تعلیم کے صحت مند ہونے تک ہم اس بیمار نظام تعلیم سے صحت مند ذہنیت اور ذہانت کے لوگ پیدا نہیں کر سکتے۔ مجھے امید ہے، آپ اس ضمن میں خود بھی تحقیق فرمائیں گے اور عملی طور پہ کچھ مثبت کرنے سے ہر گز نہ گھبرائیں گے۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہترتھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے