اتوار، 5 جولائی، 2020

ہدیہ بر یومِ شہادت : کیپٹن کرنل شیر خان شہید ؒ



حکیم الامتؒ نے کہا تھا:
سرِ خاکِ شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہالِ مِلّتِ ما سازگار آمد
“بیا تا گُل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرحِ دیگر اندازیم”

اور "آوازِ دوست" والے مختار مسعود صاحب نے لکھا تھا :

"میں نے تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کو کئی برس بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جتنی سیاہی جنگ کے بادلوں میں ہوتی ہے آپ اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ جنگ کے اندھیرے گھپ اندھیرے ہوتے ہیں۔ لیکن جتنی تیز اور خیرہ کرنے والی سفید روشنی سخت آزمائش کے دنوں میں زندہ قوموں اور با کردار افراد کے طرزِ عمل سے پیدا ہوتی ہے آپ اس کی طرف آنکھ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ روشنی جب اتنی روشن ہو جائے کہ آپ اسے دیکھ بھی نہ سکیں تو اسے نور کہتے ہیں۔ ”"

یہ فقیر کیا عرض کر سکتا ہے ۔۔۔آج صبح لکھا تھا:

"دادا نے نام ہی کرنل شیر خان رکھا... کیپٹن اللہ کی توفیق سے خود بنے... ٹریننگ ہو یا فیصلے کا کارزار، یا عین معرکہ کا مقام... جہاں زن سے آتی آگ آر پار ہوتی ہے ــــــــــ کپتان نے اپنے دین، نام، روایت اور ان سب پہ قربان ہونے کے جذبے کو کہیں کمر نہیں دکھائی.... کارگل کا وہ محاذ، جہاں خدا جانے کس نے لفظ "بزدلی " کو نئے معنی بہم پہنچائے اور کس نے "شجاعت" کو یہ تمغے عطا کیے... بہت سے گمنام سپاہیوں کا یہ ابدی مسکن ، جن کے نام کے بس لوک گیت ہوں گے اور کارگل کی چوٹیوں پہ صدیوں سے ٹکراتی ہوا کے نغمے... اور ہاں، ان شاءاللہ ان کے رب کی رضا... جس کے لیے وہ نرم گرم بستروں سے نکل کر ایک شام چل دیے تھے ــــــــ انہی کے درمیان کپتان شیر خان کو بہادری کا استعارہ ہونا تھا.... جسے مثالیے کی تجسیمِ نو کرنا تھی.... اکیس سپاہیوں ، جن میں سے اکثر زخمی تھے اور پہاڑی کے نچلے حصے میں ، وہ خود پہ حملے کے صرف سات گھنٹۓ بعد جوابی حملے کے لیے پانچ سو کی نفری والی آٹھ سکھ رجمنٹ ، جسے بلندی کا فائدہ بھی حاصل تھا، حملہ آور ہوا ۔۔۔چیک پوسٹ واپس لی ۔۔۔پر رکا نہیں ، تن تنہا دشمن کا پیچھا کیا ، کہنے لگا ، رات کو تم للکارتے تھے کہ آخری دفعہ کلمہ پڑھ لو، یہ لو میں اکیلا تمہیں سکھانے آیا ہوں کہ میدان کیسے سجایا جاتا ہے اور چٹے دن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ پڑھتے ہوئے دشمن کے مورچے میں، اس کا پیچھا کرتے ہوئے ، سینے پر گولی کھائی جاتی ہے ۔۔۔شیر خان ، جس کے داد ا بھی کشمیر کی سینتالیس والی تحریک آزادی کا حصہ رہے تھے ۔۔۔ دشمن نے اس کا جسدِ خاکی بعد از شہادت واپس کرتے ہوئے کہا کہ....یہ جوان دلاوروں کے لشکر سے ہے... اسے اس کا حق ملنا چاہیے... یقیناً اس کا اشارہ تمغہ و تحسین کی طرف تھا.... سو "نشان حیدر" عطا ہوا... مگر اسے کیا خبر تھی کہ یہ خون جس کے لیے گرا ہے، وہ کتنا یاد رکھنے والا قدردان ہے.... عمر رضی اللہ عنہ کو قاصد نے آ کر بتایا، فلاں بھی شہید ہوااور فلاں بھی.... اس کے علاوہ بہت سے ایسے ہیں، جنہیں امیر المومنین نہیں جانتے... جواب میں رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ، زہد و حکم کے اس جامع حاکم نے کہا... کہ عمر کو خبر ہو یا نہ ہو، اس سے کیا فرق پڑتا ہے... جس کے لیے ان بے ناموں نے جان دی ہے.... وہ انہیں خوب خوب جانتا ہے.... تمغہ تو قوم نے دیا... مگر آسمان پہ ہونے والی تقریبِ پذیرائی کی قدروقیمت ظاہر بین دشمن کیا جانے ...!!

آج کپتان کا یوم شہادت ہے.... آئیے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں:

کپتان پہ اللہ رب العزت بے شمار رحمتیں نازل فرمائیں

قبیلے کو ایسے دلاوروں کی صف کبھی خالی نہ ملے

اللہم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واجعلنا منہم برحمتک یا ارحم الراحمین"


منگل، 2 جون، 2020

آخری کھلاڑی کے لیے تالی



زندگی کے سفر میں ،جب آپ وکٹری سٹینڈ پہ نہ ہوں ،ہاتھ میں کوئی بید کی چھڑی اور چھاتی پہ تمغے نہ ہوں ،لوگ آپ کا اٹھ اٹھ کر انتظار نہ کرتے ہوں اور ناموں کی فہرستوں میں آپ کا نام آخری آخری سلاٹس پہ جگہ پائے ۔۔۔ ایسے میں آپ کی چھوٹی سی چھلانگ کے لیے تالی بجانے والے ،انگوٹھا اوپر کو اٹھا کر بیسٹ آف لک کہنے والے اور حوصلہ بڑھانے والے کم ہوتے ہیں، بہت کم ، پر یاد رہنے والے ، دل میں رہ جانے والے اور بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ، ہمارے اردگرد تلاش کرنے پہ ایسے چند ہی لوگ ملتے ہیں ، تلاش کر کے دیکھ لیں !

آج یاد آ رہا ہے، یہ انیس صد چھیانوے کا سن تھا، علی پور چٹھہ سے میٹرک کے لیے میں حافظ آباد کے علی گڑھ پائیلٹ سکول میں تھا ، یہ استادِ گرامی قدر سلیم صاحب کا پاؤں پاؤں رکھتا نو مولود ادارہ تھا ، جس کی سب سے بڑی کشش وہ خود تھے اور ہم جیسے پردیسیوں کے لیے سب سے بڑی پریشانی ہاسٹل کی رہائش تھی ۔

قصہ کوتاہ! غالباً یومِ قائد کا موقع تھا، جناح ہال میں ضلعی سطح کا ایک پروگرام تھا، جس میں ملی نغمے اور تقاریر وغیرہ کے ضلع بھر سے بچوں کے مقابلہ جات تھے ، میں گورنمنٹ ہائی سکول علی پور چٹھہ کی طرف سے ڈویژن سطح کے مقابلہ جات میں مختلف انعامات جیت چکا تھا اور اب سلیم صاحب نے بھی اپنے سکول کی طرف سے مقابلے کے لیے مجھے بھیجا۔ان دنوں عجیب بات تھی، کہ ایک دو بندوں سے بات کرنا مجھے قیامت ہوتی تھی ، لیکن مجمع سینکڑوں سے ہزاروں میں بڑھتا ، تو اعتماد ، گلا اور بدن مثل ربڑ کے کھلتا تھا بحمدہ تعالیٰ۔اچھی بات یہ تھی کہ اس دن ہال میں سینکڑوں بچے، اساتذہ اور دیگر مردوزن جمع تھے ۔

پہلے ملی نغموں کے مقابلے ہوئے ، ایک نہم دہم ہی کی لڑکی نے ، جو شاید حافظ آباد ہی کے کسی پرائیویٹ سکول سے تھی، غالباً "اے جذبہ دل گر تو چاہے " پڑھا۔ بہزاد لکھنوی کی یہ غزل عجیب چیز ہے ، کسی پہنچے ہوئےے بندے نے راجا عزیز بھٹی شہید ؒ پہ بننے والے پی ٹی وی ڈرامے میں یہ شامل کی ہے ، بس یہ محسوس کرنے کی چیز ہے اور بیت جانے کی بات ۔ سب نغمے سننے کے بعد مجھے لگا ، کہ اول انعام اسی لڑکی کو ملے گا ۔ خیر جب تقاریر کی باری آئی ، تو مجھے تقریباً آخری تین چار مقرروں میں بلایا گیا ، جیسا اللہ کو منظور تھا، میں بولا ۔جب تقریر مکمل کر کے میں وسیع سٹیج سے نیچے اترا، تو پورا ہال ضرور کھرا ہو گیا ، ظاہر ہے مجھے اچھا لگا اور امید بھی کہ اپنے ادارے اور خاص طور پہ سلیم صاحب کے لیے عزت کا سامان کروں گا ، سلیم صاحب کی شخصیت میں ایسی ہی کشش تھی، کہ یہ خواہش میرے اندر پیدا ہوئی تھی ۔ میری تقریر کے بعد باقی کے دو مقرر بھی بولے ، میں اتنی دیر میں ہال سے نکل کر لاشعوری سے انداز میں ہال کی عقبی اوپری بالکونی میں چلا گیا ، وہاں پہنچا اور ادھر ادھر پھرنے لگا ، شاید نتائج کے انتظار میں جو ذہنی دباؤ تھا، اسے کم کرنے کے لیے ۔مجھے اپنی تقریر کے ہنگام سامعین اور سٹیج پہ بیٹھے مقامی سیاست دان مہدی بھٹی اور ان کے اردگرد منصفین و منتظمین کے ردعمل اور دیگر مقررین کی تقاریر کے تقابلی تجزیہ سے کچھ نہ کچھ اندازہ تھا، کہ مجھے وکٹری سٹینڈ پہ اول پوزیشن مل ہی جائے گی بتوفیق الٰہی ۔

اب وقت ہوا نتائج کے اعلان کا ، تو ملی نغموں میں غالباً وہی لڑکی اول آئی ، انعام لے کر وہ اور اس کے سکول فیلوز اپنے ایک دو استاد کے ساتھ وہیں ہال کی پچھلی سیڑھیوں پہ کھڑے ہو گئے ۔ جب تقاریر کے انعامات کا اعلان ہوا، تو سوم کے بعد دوم کا بھی اعلان ہو گیا ، مجھے یقین ہو گیا کہ پہلی پوزیشن مجھے ہی ملے گی ، خون سارا سر کی طرف اور پسینہ پاؤں کی طرف رواں دواں تھا ، کہ اچانک پہلی پوزیشن کے لیے بھی کسی اور بچے کے نام کا اعلان ہو گیا ۔ مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ہو گیا ہے ۔

بس پھر، گھر، ماں اور مزعومہ کامیابی سے دور بچہ بے اختیار رونے لگا. :)

ادھر ادھر دیکھا تو سب لوگ حیران کھڑے تھے اور وہ نغمے والی لڑکی رو رہی تھی ۔ میں خستہ و خجالت زدہ ہارے ہوئے جواری کی طرح باہر کی طرف نکلنےلگا ، کہ ہال میں بہت سے لوگ کھڑے ہو گئے اور شور مچانے لگے کہ فلاں فلاں لڑکے کی تقریر سب سے اچھی تھی اور اس کی کوئی پوزیشن نہیں ہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ہال کافی بڑا ہے اور ہنگامہ و حیرت بھی اتنی ہی زیادہ تھی ۔پتہ نہیں کیا ہوا، کہ سٹیج سیکرٹری نے روسٹرم سے معذرت کی اور ایک منٹ بعد دوبارہ نتائج کا اعلان کیا ، شاید انہیں سہو ہوا تھا ۔ نئے نتائج کے مطابق میری پہلی پوزیشن تھی ، انعام وصول کرتے ہوئے ہال دوبارہ تالیوں سے گونج اٹھا ، اچھا لگا، شاید پہلے انعام جس طرح سے ملتا ، اس سے کافی زیادہ خوشی ہوئی ۔

باہر نکلتے ہوئے میں نے اسی لڑکی کو زور زور سے تالیاں بجاتے اور خوش ہوتے دیکھا ، ظاہر ہے وہیں سے ، دور سے شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا ، کہ مصری شاہ محلہ متصل حافظ آباد ریلوے جنکشن ، علی گڑھ پائیلٹ سکول، جسے ابھی اپنی بقا اور قدم جمانے کے لیے ایسے کئی پر اپنے ماتھے پہ سجانے کی ضرورت تھی ، کی خدمت میں اپنی طرف سے ایک پر پیش کروں ۔

آج بھی اپنے لیے ہال میں کھڑے ہونے والے ان نامعلوم سامعین ، آنسو اور تالی والی اس لڑکی اور استاد کہلانے کا حق رکھنے والے سلیم صاحب مجھے یاد ہیں ، جو کچھ کروانے کا گُن اور اس کے لیے لازم اپنا کردار پیش کرنے کے اہل تھے ۔ میں عمر کے جس حصے میں تھا ، وہ اس لڑکی کے کسی "اور تاثر " والے نہ تھے ، کیونکہ یہ دن پچھلی صدی کے ختم ہونے سے تین برس قبل کےتھے ۔ یہ شاید شروع میں بیان کیے گیے جذبے کی وجہ سے یاد رہ جانے والی چیز ہے ۔

یار! نیچے گرے ہوئے کا ہاتھ تھامنے سے بندہ زندہ رہتا ہے ، دوسروں کی دعاؤں اور یادوں میں ۔ ریس میں آخری نمبر پہ آنے والے کے لیے بھی تالی بجانا ، سادے سپاہی اور بے تمغے کے دلاور کے لیے بھی نعرہ تحسین بلند کرنا ، بندوں اور خدا کے ہاں اس کی گواہی دینا ، یہ بڑا کام ہے ۔

خدا ان سب کو سلامت رکھے ، جنہیں اس "یاد گیری" میں اس فقیر نے یاد کیا ہے ، بہت آسانیاں اور بہت برکتیں ہوں ان سب آوازوں ، آنکھوں اور ہاتھوں کے لیے ۔

فلک شیر


پیر، 11 مئی، 2020

میرے شہاب صاحب

شیخوپورہ میرے ننھیال کے ننھیال کا شہر ہے ، اور بعد میں اس سے مٹی کا رشتہ بھی استوار ہوا ، کہ میری بڑی بیٹی وہاں دفن ہے ۔میٹرک کے بعد گریجوایشن تک کئی سال وہاں میں نے گزارے ہیں ، بے ربط اور رستے کی تلاش میں ۔ کتاب سے تعلق ویسے تو بچپن سے تھا ، لیکن یہاں آ کر لائبریری تک رسائی ہوئی، شیخوپورہ کمپنی باغ میں بڑی وسیع لائبریری ہے ، صاف ستھری پرسکون اور نتھری نکھری سی۔ انگریز بہادر کے دور کےکمپنی باغ نے اپنی وسعتوں کے وسط میں اس جزیرے کو پھول کی مثل کھلنے کی اجازت دی ہے اور اس کے لیے میں اس کا شکرگزار ہوں ۔ عجیب بات ہے کہ میں سبزے کا عاشق ہونے کے باوجود ان دنوں لائبریری کے چہار طرف پھیلے قطعات کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا ۔ کمپنی باغ آنا اور سیدھے لائبریری ، وہاں سے واپس جاوید سندھو صاحب کے سخت ڈسپلن والے کالج میں بھاگم دوڑ جا پہنچنا۔

خیر لائبریری سے کافی کچھ استفادہ کا موقع ملا، لیکن جس شخصیت اور ان کی کتاب کا آج تذکرہ چھیڑنے چلا ہوں ، اتفاق ایسا ہے کہ وہ لائبریری میں نہ دیکھی اور نہ ایشو کروائی ، حالانکہ لائف ممبرشپ لینے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں متعدد کتابیں ایشو کروانا اور چند دنوں میں واپس کرنا میرا معمول تھا، پھر جس genre کی یہ کتاب تھی ، وہ تو میری پسندیدہ ترین تھا، یعنی احوال و آثار ِ کبار ۔
ہوا یوں کہ میرے بعد میں ہم زلف اور قریبی عزیز عبدالوحید صاحب ، جو کہ زرعی ادویات کا کاروبار کرتے تھے ، کے ایک سیلز مینیجر دوست زاہد صاحب نے ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک گھر کرایہ پہ لیا ۔ زاہد صاحب غیرشادی شدہ آدمی تھے اور ہم کافی لڑکے ان کے گھر میچ وغیرہ دیکھنے آیا جایا کرتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن ان کے گھر میں نے ایک موٹی سی کتاب "شہاب نامہ " دیکھی ۔مصنف کا نام قدرت اللہ شہاب لکھا ہوا تھا ، نام معمول کے ناموں سے کچھ ہٹ کر تھا اور پہلا باب بھی ۔

کتاب میں نے شروع کی اور چند ہی دنوں میں مکمل کر لی ، اس کے بعد اب تک مجھے یاد نہیں کہ اسے کتنی دفعہ پڑھ چکا ہوں ۔ پہلی قرات میں پتا نہیں کیا بات تھی کہ اب سے کچھ عرصہ قبل تک ، یعنی جب تک بانو آپا زندہ تھیں ، میں اسے ہر تھوڑی دیر بعد پڑھا کرتا تھا ۔ چندراوتی ، راج کرو گا خالصہ ،کشمیر کا مقدمہ ، سرینگر کے اسلامیات پڑھاتے مولوی صاحب ، دوپٹے رنگتے للاری ، نندہ بس سروس ، شہاب صاحب کی اددی کے ملازم کا اجیپھا ، نائینٹی ، سلسلہ اویسیہ ، شریعت کی سیدھی سڑک اور طریقت کی مانٹیسریاں ، برف میں میلوں پیدل چلتے شہاب صاحب ، گول مٹول ثاقب یا عفت شہاب۔۔۔مجھے آج تک نہیں پتا کہ اس کتاب میں کیا تھا ، جس نے مجھے آج تک جکڑا ہوا ہے ۔ شاید ماں جی کا فرمانبردار ملک کا سب سے بڑا افسر ، شاید اس سے بھی بڑھ کر اپنی ماں کے فرمانبردار عبداللہ صاحب ۔۔ سچ بتاؤں ، میں نے سرسید کو بہت برا بھلا کہا ، جب میں نے پڑھا کہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو اپنی ماں کی بات مان کر بیرون ملک نہ جانے پہ مارا تھا ۔۔مجھے پتا ہے کہ شہاب صاحب کا نام بہت سے لوگوں کے ماتھوں پہ بل چڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے ، لیکن دل تو مجبور ہے نا بچپن کی ہر اس جھیل کے ہاتھوں ، جس میں پتھر پھینکے گئے تھے اور اٹھنے والی لہروں اور بننے والے دائروں کے ساتھ اپنا آپ بہتا اور گھومتا تھا ۔

شہاب صاحب شاید ایوب خان کو جمہوریہ پاکستان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بتانے پہ دل میں کھبے تھے ، بھاگل پور کے بے چارے مسلمانوں کے لیے نوکری داؤ پہ لگانے یا فلسطینی نصاب سے اسرائیلی خرافات نکلوانے کی وجہ سے ، خواب دیکھنے میں ایک جیسا ہونے کی وجہ سے یا سفرِ حجاز والی نزیہہ کی آنسوؤں کے طفیل ، وہ آنسو جو کبھی ہم جیسے گناہ گاروں کو نصیب نہ ہوئے ، شاید بانو آپا کی وجہ سے ، پتا نہیں ان سے کچھ نسبت ہے ، انجان سی ، نامعلوم سی ۔۔۔جس رات انہوں نے اپنی سرکاری کوٹھی میں آسیب سے بچنے کے لیے لا الہ الا اللہ کی پرچی گراموفون پہ رکھی ہے ، مانو میں نے بھی جانا یہ ہر مصیبت سے بچنے کی شاہ کلید ہے "لا الہ الا اللہ " ۔۔۔جس رات خواب میں شہاب صاحب کو سرکارﷺ کا دیدار ہوتا ہے اور انجائنا پیکٹورس ہمیشہ کے لیے اس کی یاد بن کے رہ جاتا ہے ، جانو اسی رات میں نے یہ جانا کہ اس کاروبارِ حیات کے بازار سے اگر کسی کو "سُچا مال" چاہیے ، تو وہ اپنا بستہ اٹھائے اور مدینے جا کر خود بِک جائے اور سمجھ لے کہ سب کچھ خرید لیا ۔۔

بھائی! یہ دل کا معاملہ عجیب ہے ، گاہے خار پہ آ جائے اور گلاب منتظر پڑا رہے ، پر یہاں تو شہاب صاحب ہیں ، گلاب سے گلاب ، لطافت سی لطافت ، گول گول سے ، گم صم سے ، چپ چپ سے اور پھر بھی بولتے ہوئے ، محبت کی زباں !

آئی لو یو سر!!

اللہ تعالیٰ آپ سے بہت سا پیار فرمائیں اور آپ کو اپنے پیارے بندوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں ۔

آمین !

فلک شیر چیمہ
بارہ مئی 2020