جمعہ، 28 جولائی، 2017

شہباز شریف، شجرکاری اور ہم



چونکہ ہمارے اگلے متوقع وزیراعظم جناب میاں محمد شہباز شریف ہیں... تو ابھی سے ان کے استقبال کی تیاری کے سلسلہ

میں پوسٹوں کا آغاز کیا جا رہا ہے... تمام احباب،خواتین و حضرات و دیگر جات جوش و خروش سے مہم میں شرکت فرمائیں

😃

تفنن برطرف... پچھلے سال علی پور چٹھہ سے وزیر آباد جانے والے رستے پر سرکار کی طرف سے شجرکاری کی گئی

تھی.... آج عرصہ بعد انہیں دیکھا تو وہ جو کبھی ہوا کے جھونکے سے بھی گر جاتے تھے... آج قد آدم سے اوپر چلے گئے

ہیں... سنا ہے یہ سڑک ایک نو متعین اے سی نے اپنے گاؤں کے لیے بنوائی ہے... شاید درخت بھی اسی نے لگوائے ہوں....

بہرحال جس کسی نے بھی لگوائے ہوں... بتانا یہ مقصود ہے کہ تھوڑی سی محنت دہائیوں صدیوں تک کے لیے صدقہ جاریہ

اور خیر کا سبب بن جاتی ہے

اگست آن پہنچا ہے، بھائی نور الہدی شاہین کی گرین ٹیم کی مہم نے سوشل میڈیا پہ سب کو شجرکاری کا شوق دلایا.... اب 

بلاگر رمضان رفیق صاحب نے بھی بالخصوص اگست کے حوالے سے مہم شروع کی ہے ــــــــــــ آئیے خود کو اس خالص 

خوشی کا حقدار بنائیں.....حقیقی مسرت کے حصول کا وہ تجربہ جو کروڑوں لگا کر بھی نہیں ملتی....وہ مسرت جو اگلے 

اگست میں ان پودوں کو جوان دیکھ کر آپ کو ہو گی ان شاءاللہ.... اللہ تعالٰی توفیق دیں اور قبول کریں 

کراچی سے ہمارے مرشد، کمال کے شاعر اور بلاگر محمد احمد بھائی کے تازہ شعر ہیں، کہ :


دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سلوک 


مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک

آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک



منگل، 25 جولائی، 2017

مجھے میرے جنگل میں جانے دو

مجھے جنگل سے یہ کہہ کر شہر لایا گیا.... کہ وہاں روشنیاں ہیں... پکے رستے ہیں.... کتابیں ہیں... ان کتابوں میں کہانیاں 

ہیں... پریوں کی.....وہاں جنگل کا قانون نہیں.... عدل و انصاف کا بول بالا ہے....وہاں صاف مقطر پانی نلوں میں بہتا ہے اور 

طبیب کسی بھی دکھ درد کی دوا کرنے ہر وقت حاضر و موجود ہوتے ہیں... مخالف قبیلہ آن کی آن میں میرے گھر بار اجاڑ 

کے نہ رکھ پائے گا.... یہاں جنگلی جانوروں کا ہر وقت کا خوف اور گھاس پھونس کے گھروندے...... 

پر تم نے مجھے دیا کیا..... وہی خوف، بے امنی، اندھیرے..... میرا جنگل تم نے مجھ سے چھین لیا اور میری زندگی سے تم 

نے خوشی کے وعدے پر خوشی ہی نکال پھینکی ... وہ مسرت جو نیم برہنہ، ادھ بھرے پیٹ، مگر آزاد حیات میں تھی.... اس 

کے تم قاتل ہو..... تم نے مجنوں کو صحرا اور مچھلی کو پانی سے باہر نکال کر اسے رنگا رنگ نیون سائنز اور شیشے کے 

ڈبوں میں بند کر کے کیا بھلا کیا...... تم نے مجھ سے میری تازہ ہوا اور قناعت کی خو چھین لی..... میری سچی مسکراہٹ 

کہاں گئی.... اب تو میں نفرت اور محبت بھی خود پہ طاری کرتا ہوں.... ہاں ہوس ہے کہ خالص ہے تمہارے ان سیمنٹ سریے 

کے جنگلوں میں..... لطافت اور نرمی کا یہاں کیا کام.... تم نے مجھے کہاں لا پھینکا، جہاں تتلی اور گلہری کو دیکھتے رہنے 

جیسی لطیف تفریح پاگل پن ہے.... 

تمہیں شاید پتا ہی نہیں. کہ تم نے مجھے اشرف سے اسفل بنا ڈالا..... 

مجھے اپنے جنگل میں واپس جانے دو..... یہ روشنیاں،رستے اور ریاستیں.... تمہاری ہیں.... تم رکھو.... مجھے اپنے جنگل 

میں واپس جانے دو اور ان نوعمروں کی طرح ایک بار کھلکھلا کر ہنسنے دو....... 


فلک شیر