منگل، 25 جولائی، 2017

مجھے میرے جنگل میں جانے دو

مجھے جنگل سے یہ کہہ کر شہر لایا گیا.... کہ وہاں روشنیاں ہیں... پکے رستے ہیں.... کتابیں ہیں... ان کتابوں میں کہانیاں 

ہیں... پریوں کی.....وہاں جنگل کا قانون نہیں.... عدل و انصاف کا بول بالا ہے....وہاں صاف مقطر پانی نلوں میں بہتا ہے اور 

طبیب کسی بھی دکھ درد کی دوا کرنے ہر وقت حاضر و موجود ہوتے ہیں... مخالف قبیلہ آن کی آن میں میرے گھر بار اجاڑ 

کے نہ رکھ پائے گا.... یہاں جنگلی جانوروں کا ہر وقت کا خوف اور گھاس پھونس کے گھروندے...... 

پر تم نے مجھے دیا کیا..... وہی خوف، بے امنی، اندھیرے..... میرا جنگل تم نے مجھ سے چھین لیا اور میری زندگی سے تم 

نے خوشی کے وعدے پر خوشی ہی نکال پھینکی ... وہ مسرت جو نیم برہنہ، ادھ بھرے پیٹ، مگر آزاد حیات میں تھی.... اس 

کے تم قاتل ہو..... تم نے مجنوں کو صحرا اور مچھلی کو پانی سے باہر نکال کر اسے رنگا رنگ نیون سائنز اور شیشے کے 

ڈبوں میں بند کر کے کیا بھلا کیا...... تم نے مجھ سے میری تازہ ہوا اور قناعت کی خو چھین لی..... میری سچی مسکراہٹ 

کہاں گئی.... اب تو میں نفرت اور محبت بھی خود پہ طاری کرتا ہوں.... ہاں ہوس ہے کہ خالص ہے تمہارے ان سیمنٹ سریے 

کے جنگلوں میں..... لطافت اور نرمی کا یہاں کیا کام.... تم نے مجھے کہاں لا پھینکا، جہاں تتلی اور گلہری کو دیکھتے رہنے 

جیسی لطیف تفریح پاگل پن ہے.... 

تمہیں شاید پتا ہی نہیں. کہ تم نے مجھے اشرف سے اسفل بنا ڈالا..... 

مجھے اپنے جنگل میں واپس جانے دو..... یہ روشنیاں،رستے اور ریاستیں.... تمہاری ہیں.... تم رکھو.... مجھے اپنے جنگل 

میں واپس جانے دو اور ان نوعمروں کی طرح ایک بار کھلکھلا کر ہنسنے دو....... 


فلک شیر


6 تبصرے:

  1. میں اس تحریر پر تبصرہ نہیں کر رہا. یہ سچ حق ہے جو آپ نے بیان فرمایا. دو اشعار.....

    گاؤں کا وہ ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پر کیوں خفا تھا
    جب ان کے بچے بھی شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے

    اور دوسرا شعر میرے جیسوں کے لئے
    جس طرح گمشدہ بچے ماؤں سے جا ملتے ہیں
    یعنی جب ہم مرتے ہیں تو گاؤں سے جا ملتے ہیں

    گزشتہ برس کی بات ہے. سنہری گندم کے سرہانے بیٹھ کر میں نے کچھ لکھا تھا. مگر وہ اتنا عمدہ اور بلیغ نہیں ہے. اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے چیمہ بھائی.....

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمین یا رب العالمین
      کیا عمدہ خلاصہ کیا ان دو اشعار میں آپ نے
      آپ جو لکھتے ہیں، اس کا تو جواب ہی نہیں ہوتا۔ اس کا ربط دیجیے گا۔

      حذف کریں
  2. فلک بھائی!

    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔

    شاد آباد رہیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. کچھ تحریریں ایسی ہوتی ہے گمان گذرتا ہے آپ نے ہی لکھی ہیں بس انداز ذرا مختلف ہے جذبے اور کفیات وہی ہیں - میں جو گاؤں سے آکر اور بلخصوص اس بلندوبالا عمارتوں کے شہرمیں لُوٹ کرمسلسل مُوڑ مُوڑ کے دیھکتاہوں اُس فضاء میں گہرے سانس لینا چاہتا ہوں جہاں میرے آباءواجداد بستے ہیں ہر روز اُس شہر خموشاں کی مٹی کو چُھونا چاہتا ہوں جہاں میرے بڑے محوخواب ہیں - میں
    نے محسوس کیا ، سوچا لیکن لکھ نہیں سکا سو آپ نے لکھ ڈالا شاید سوچ اور احساس کا تبادلہ اُس وقت ہوا جب آپ سے اپنے آبائی گھرمیں ملا-

    جواب دیںحذف کریں
  4. واہ، خوب دکھایا جنگل کا منظر
    یوں بھی جب کوئی شہر کو جنگل سے تشبیہ تو حیرت ہوتی ہے

    جواب دیںحذف کریں