منگل، 25 اگست، 2015

ارشادات غامدیہ ـــــــــــــــــــایک جائزہ

ارشادات غامدیہ ـــــــــــــــــــایک جائزہ
جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اس ویڈیو میں "اسلامی دہشت گردی"سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ، اس پہ 

اس طالب علم نے چند سطریں لکھیں ہیں ، جو پیش خدمت ہیں۔

غامدی صاحب فرما رہے ہیں ، کہ مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردیکے جو واقعات سامنے آ رہے ہیں ، یہ فکری گمراہی 

کا نتیجہ ہیں اور اس کی وجہ مدارس اور مذہبی شخصیات کی طرف سے سکھائی پڑھائی جانے والی چار باتیں ہیں :

1)دنیا بھر میں جہاں شرک اور ارتداد ہے، اس کی سزا قتل ہےــــــــــــ اور اس سزا کا نفاذ ہمارے ذمہ ہے

2)حکومت کا حق صرف مسلمانوں کو ہے ـــــــــــاور غیر مسلموں کی کوئی بھی حکومت جائز حکومت نہیں ہے ــــــــہمیں 
جب بھی موقع ملے گا، ہم اسے ان سے چھین لیں گے

3)نیشن سٹیٹس (پاکستان ، سعودی عرب، ترکی ،انڈونیشیا وغیرہ) کفریہ ریاستیں ہیں ۔ ان کو شرعی بنیاد فراہم نہیں ہے

4)خلافت اسلامیہ کا قیام فرض ہے اور مسلمانوں کی الگ الگ ریاستیں اور حکومتیں مطلوب و مستحسن نہیں ہیں ۔

اب ذرا نمبر وار ان پہ مختصر ترین الفاظ میں تبصرہ ہو جائے۔

1)غامدی صاحب کو یہ کس نے کہہ دیا، کہ ہر مدرسہ یا مذہبی مفکر کھلے یا چھپے یہ سکھاتا ہے ، کہ دنیا میں جہاں کہیں ، 

شرک یا بالخصوص ارتداد ہے ، اس کی سزا موت ہے اور اس سزا کے نفاز کا ذمہ دار وہ مدرسہ یا عالم ہے ۔ اس سلسلہ میں 

غامدی صاحب کی لاعلمی بتاتی ہے، کہ ان کے "جوابی بیانیے"میں کتنی جان ہے اور اس کی علمی و فکری حیثیت کیا ہے۔

2) غامدی صاحب کو اہل اسلام کے اس خیال، کہ حکومت مسلمانوں کا حق ہے، پہ تو شدید اعتراض ہے ــــــــلیکن اسی کرہ 

ارضی کے لمحہ موجود کے "اصلی تے وڈے حاکم"کی اسی خواہش ــــــــبلکہ پرزور اور پر اصرار خواہش تو نظر نہ آتی 

ہوگی ـــــــــــ وہ اصلی حاکم ، جو اپنی اس خواہش کو فرمان امروز کا درجہ دیتے ہیں اور اس کے رستے میں آنے والے ہر 

کہ و مہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے اور پتھر کے دور تک پہنچا دینے کا کھلے عام اعلان فرماتے ہیں ۔ اور ان کی اس 

خواہش کے سامنے صرف مسلم ہی نہیں ، جو کوئی بھی کھرا ہونے کا خوہاں ہے یا رہا ہے ، اس سے ان کا رویہ اور سلوک 

یہی رہا ہے ۔ غامدی صاحب سیاسی مسائل ، معاشی بدمعاشیوں اور اپنے کلچر کو دوسروں کے گلے میں زبردستی منڈھنے 

سمیت بہت سی وجوہات میں سے ایک یاد رکھتے اور پورے وثوق سے بیان بھی فرماتے ہیں ــــــــــــــــــاور باقی سب ؟؟؟

3)یہ کہنا ، کہ نیشن سٹیٹس پہ تمام مدارس اور مذہبی زعماء کا یہی نکتہ نظر ہے ــــــــــــــایک گمراہ کن سویپنگ سٹیٹمنٹ 

ہے ــــــــــــ اب آتے ہیں اس طرف، کہ خلافت کے اس تصور سے کسی کو کیا مسئلہ ہے ــــــــــــــــتو بھائی نیٹو نامی اتحاد 

بنانے والوں سے بھی کبھی آپ نے پوچھا، کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں ــــــــــــــــ کس کے خلاف اتنی تیاریاں ہیں 

ـــــــــــــ کیوں تمہارا سکہ ایک اور سرحدیں معدوم ہیں ؟

غامدی صاحب! سر ریت میں دینے سے طوفان گزر نہیں جاتے ــــــــــــــ مغرب کو خوش کرنے کی دھن میں ہم کہاں تک 

چلے جائیں ـــــــــــوہ کریں ، تو "معاشی ناہمواریوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش"اور ہم کریں ۔ تو "خلافت اسلامیہ "کا 

ہوا!!!

اب یہ بھی سن لیں ، کہ مسلم ممالک کی اکثریت ، بشمول علماء و مذہبی قیادت ـــــــــیہ بات بخوبی سمجھتی ہے، کہ مسلم 

زمینیں محفوظ رہنی چاہییں ـــــــــوہاں کسی قسم کی عسکریت ان سرزمینوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گی۔ شیخ اسامہؒ 

کے دنیا کے مختلف علاقوں کی جہادی قیادتوں کو ایسے اشارے ملتے رہے، جن میں قاعدہ تنظیم کی مسلم سر زمینوں میں 

عسکری کارروائیاں کرنے کی غلطی سے اجتناب کا مشورہ تھا۔ تو بھائی! یہ پاکستان، مصر، ترکی، انڈونیشیا اہل اسلام کی 

سرزمینیں ہیں ـــــــــــ ان کا تحفظ ہمارے ذمے ہے ــــــاللہ نے توفیق دی، تو مل جل کر بھی بسر کریں گے ــــــــــابھی انہیں 

کفر کی سرزمینیں کہنا بعض لوگوں کے شذوذ میں شامل ہے ـــــــــــالبتہ ان سرزمینوں میں اہل ہوا کے بنائے ہوئے ایسے 

قوانین، جو شرع اللہ سے ٹکراتے ہیں ، اس کے لیے آئینی اور پرامن جدوجہد پہ تمام مذہبی حلقوں کا یقین اور عمل ہے۔ ایسے 

میں آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں، کہ نیشن سٹیٹس سے متعلق تمام اہل اسلام پر تشدد رویہ پالتے ہیں ؟؟

4)خلافت اسلامیہ سے متعلق کچھ بات تو اوپری پوائینٹ میں ہو گئی ـــــــــ کچھ یہاں

اسلامی حکومت کیسے قائم ہو ــــــــــــیہ ایک سوال ہے، جس کا جواب مختلف اہل علم نے اپنی تحاریر اور امت کے جید 

لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی عمل سے مختلف صدیوں میں دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہنا، کہ یہ قطعاً مطلوب نہیں ہے 

ــــــــــــایک جھوٹ ہے ــــــ اور یہ کہنا، کہ اس سے کم تر ایک لمحے کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ـــــــــــــایک جذباتی 

بیان

غامدی صاحب کے اس سارے جوابی بیانیے اور نظام فکر کی جو بنیاد ، یہ فقیر قلم کار سمجھ پایا ہے، وہ یہی ہے ، کہ اسلام 

، بلکہ کوئی بھی مذہب "فرد" کا مسئلہ ہے، ریاست کا نہیں ــــــــــــــ تو اس بات کو چھپانے کی آپ کو کیا ضرورت 

ہےـــــــــــــــدوسری طرف آپ کے مسلم بھائیوں کا یہ خیال ہے، کہ یہ فرد کا بھی معاملہ ہے اور ریاست کا بھی !!!

آپ سے ویسے یہ سوال ہےــــــــــــکہ مسلمانوں کو جوابی بیانیے کی نصیحت فرماتے ہوئے آپ کو کبھی خیال آیا، کہ اپنی 

دانشورانہ صلاحیتوں سے "مغرب کے نیک لوگوں"کو ان کی "نیکیوں"سے باز رہنے کا بھی کوئی حل اور طریقہ سمجھا دیں


والی اللہ المشتکی

فلک شیر

جمعہ، 14 اگست، 2015

بدلتی ہوئی دنیا میں مسجد کا کردار ــــــــــــــــــــچند معروضات (قسط دوم)

آئیے ، تھوڑے سے شرو ع کریں:
 قدم اٹھانے والے سے آسمان والے کا دعوا ہے ـــــــــــــکہ رستے ہم سجھائیں گے ــــــاور آسان بھی کریں گے۔ طریقِ نبویﷺ کی پیروی کےساتھ ــــــــتخلیقیقت اور فطرت سلیم اس سلسلہ میں آپ کی انتہائی  مددگار ہوں گی۔سوچیے ــــــــــــــاوپر کے نکات اور ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں خوب سوچیے ـــــــرستے رزق میں ملیں گے اور چلنا آسان تر ہو گا۔
یہاں ہم  ایسے چند اقدامات کا تذکرہ کریں گےـــــــ جو اس سلسلہ میں اہل مسجد کو اپنا کردار ادا کرنے میں تیار کریں گے اور مواقع پیدا کریں گے۔ان میں سے کچھ چیزیں مختلف اہل علم نے اپنے مقالہ جات اور نصائح میں ذکر کی ہیں ــــــاور ـــــکچھ ہم عرض کر رہے ہیں ۔
·       مسجد اللہ کا گھر ــــــاس کے کلام کی تدریس و تشہیر کا مرکزــــــاوپر سے دیکھ کر پڑھنا، حفظ کا اہتمام ــــترجمہ کی تدریس و تفہیم (مکمل نہیں ـــــتو منتخب نصاب کی)ـــــ حفظ و تفسیر اور ترجمہ و معلومات کے مقابلہ جات ــــیہ سب مسجد کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے ـــــــاہل مسجد کو سوچنا چاہیے ، کہ لوگ اپنے نونہالوں کو اوپر بیان کیے گئے کاموں کے لیے مسجد میں بھیجنے کے بجائے "قاری صاحب" سے گھر ہی میں کیوں پڑھوانے لگے ؟
کیا اس محرومی ـــــــــظاہر ہے کمیونٹی کی ــــ
ــکا کوئی تجزیہ اور تدارک ـــــاہل مسجد نے فرمانے کی کوشش کی؟ـــــــــــــــــــنہیں کی، تو یہ کرنے کا وقت ہے ـــــاور مسجد کے ذمہ اہم ترین کاموں میں سے سر فہرست بھی۔اس میں ناکامی سے آپ نہ صرف اپنے ہاتھ سے ایک مؤثر ترین ہتھیار خود ہی نیچے رکھ دیں گے ـــــ بلکہ قرآن کو خدانخواستہ "ٹیوشن"لی گئی کتب میں سے ایک کا درجہ نوجوان کے ذہن میں بٹھا دیں گے ــــاوور ظاہر ہے ، اس کا کوئی سدباب کل آپ نہ کر پائیں گے، جب وہ نوجوان معاشرے کے عملی دھاروں میں سے کسی ایک میں کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔
قرآن سے محبت پیدا کرنا مسجد کا ایک بنیادی وظیفہ ہے ــــــــکیونکہ معلومات کے اس سیلاب میں اگر آپ نوجوان کو "الکتاب"سے آشنا نہ کروائیں گے ـــــتو کل اس سے توقعات باندھنا ایک لایعنی امر ہو گا ـــــاسلاف اسی لیے تو  فرمایا کرتے تھے :
"تم اپنے بچوں کو قرآن سکھا دوــــــــــــــــــقرآن انہیں سب کچھ سکھا دے گا"
ایک زندہ کتاب سے ایک زندہ ترتعلق ــــــــــــــــــــــ اے اہل مسجد !!
ایک زندہ تر تعلق!!
تو اے میرے عزیز اہل مسجد!
چند بنیادی چیزوں پہ نظر دوڑا لیں ؟
1.     مساجد میں متعین قراء کرام اور ائمہ حضرات کا طالب علموں سے تعلق خوف کا ہے یا محبت کا ــــــ یا ان دونوں کے درمیان درمیان کسی جذبے کا ــــــــــ یا پھر خدا نہ کرے ــــــوہی جو ـــــایک "استاد" کا کسی "چھوٹے"سے ہوتا ہے ۔
2.     قرآنی عربی پڑھانے کے لیے ہماری مہارت اور طریقہ کار ــــــــــــ آج کے طالب علم کے دیگر زبانیں سیکھنے کے طریقہ سے کچھ میل کھاتا ہے؟
اگر نہیں ، تو کیا ہمیں اس سلسلہ میں لسانی مہارتوں اور دیگر معاونات کا استعمال کرنے کی طرف کچھ توجہ کرنے کی ضرورت ہے؟
3.     ایک عجمی کے دل میں قرآن کی محبت کیسے پیدا کی جائے ـــــــــــــــشاید مضامین قرآن کی دلچسپ طریقہ سے پیش کاری (متعدد تحریری ،زبانی اور تکنیکی ذرائع سے)اس کا ایک ذریعہ ہےـــــــــــتو اس کی طرف کچھ توجہ کی جائے۔دیگر اہل علم سے اس ضمن میں تفصیل سے کلام کی درخواست کر رہا ہوں ۔
4.     اوامر و نواہی کی تلخیص کر کے ابتدائی عمر ہی میں ذہن نشین اور بڑھتی عمر کے ساتھ دل نشین کروانے کی کوشش کی جائے۔
یہ محض چند نکات برائے انگیخت ہیں ـــــــــــتاکہ اس سلسلہ میں دیگر اہل علم اپنے تجربات اور علم کی روشنی میں عملی اقدامات و تجاویز سامنے لائیں۔
·       خطباتِ جمعہ اور وعظ و تذکیر کے لیے مقرر کیے گئے حضرات محض "بولنے"کی صلاحیت سے آگے بڑھ کر قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ــــــــــــــاس سلسلہ میں اہل مساجد کو انتخاب خوب سوچ سمجھ کر فرمانا چاہیے۔ بہت سی جگہوں پہ دیکھا گیا ہے ، کہ خطیب کے انتخاب میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ، وہ خطابت کا جوہر ہوتا ہے ـــــــــــــــــشک نہیں، کہ یہ بھی اہم ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اہم تر چیز تدین، علمی رسوخ ، قدیم و جدید پہ کسی حد تک یکساں نظر، فی زمانہ الحاد و تشکیک کے فتنوں سے نمٹنے اور ان کی ناکہ بندی کی استعداد، دین کو بطور ایک کُل عوام کو سمجھانے اور عمل کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی جہد و صلاحیت ـــــ
آپ کا کہنا بجاــــکہ ایسے افراد کہاں سے لائے جائیں ـــــتو ہم اوپر عرض کر چکے ہیں ، کہ جب ہم اہل مسجد کو مخاطب کرتے ہیں ـــــتو اس میں کچھ دیگر گروہ اور افراد بھی آ تے ہیں ــــــجو یقیناً اس سب کو کرنے کی خاطر خواہ صلاحیت رکھتے ہیں ــــــدعا ہے، کہ خواہش بھی پیدا ہو جائے ۔
·       دینی اجتماعات (محافل قراءت،مجالسِ نعت نبویﷺ، دروس قرآن و حدیث، تفہیم مسائل )کے انعقاد کے سلسلہ میں بے شک مساجد ایک اہم مرکز ہیں ــــــاور کسی نہ کسی شکل میں اپنا کردار ادا بھی کرتی ہیں ۔ کوشش البتہ یہاں بھی ہونا چاہیے، کہ روایتی طریقوں سے ہٹ کر ایسے غیر روایتی پروگرام بھی ترتیب دیے جائیں، جو اپنی شباہت و ترتیب میں بے شک خالصتاً مذہبی نہ ہوں ــــــــــکتب کی نمائش اس کی ایک مثال ہے، جو مسجد کے روایتی تصور سے آگے بڑھ کر نمازی کے علاوہ "کتاب دوست"حلقوں کو آپ کے قریب کرنے میں معاون ہو سکتی ہے ۔ ذرا ذہن پہ زور دیجیے ــــــــــــــــیہیں بیٹھے بیٹھے ایسے کتنے ہی اجتماعات کے خاکے آپ کے ذہن میں ابھرنے لگے ہیں ۔
·       خواتین ـــــــــمعاشرے کا وہ محترم طبقہ ہیں ، جو "ہمسایوں"اور سات سمندر پار کے"محسنوں"کے ثقافت اور آزادی کے نام پہ پھینکے گئے دل کش جال کی اسیرہو چکی ہیں ــــــــــــگو میں انہیں اس سلسلے کا اولین مجرم نہیں ٹھہراتا ـــــــتو اے میرے محترم اہل مسجد!
ان کی اس قید سے رہائی کا کل سامان جو ہم کر چکے ہیں
ـــــوہ کیا ہے؟
 سالانہ بنیادوں پہ رمضان کے چند دروس ــــــــمیلاد کی مروجہ محافلــــــنصیحت کے لیے چھپنے والے  چند مجلاتــــبس ـــــــبس؟؟
ذرا دل تھام کر مجھے جواب دیجیے ـــــــجن  گودوں میں "مسلم"اور"مسلمین"کی پرورش ہو رہی ہوـــــاُن کو اس بے خدا تہذیب اور طرزِ حیات سے خبردار کر  کے راہِ حق کا مسافر بننے پہ قائل کرنے کے لیے اتنا کچھ کافی ہے؟؟
یقیناً نہیں ــــــــــــــتو چلیے اتنے سے شروع کرتے ہیں
1.     خواتین کی صحت کے حوالہ سے ہلکے پھلکے معلوماتی طبی پروگرامات اور کیمپس
2.     بچیوں ، بالخصوص نوعمر سکول کالج جانے والی بچیوں کے لیے ذہنی پختگی کا سامان ـــــــ مختصر قرآنی دورہ جات، فقہ و حدیث اور خواتین کے مخصوص مسائل کے حوالہ سے ان کی رہنمائی ،زناو نکاح کے فرق اور اس طرف رغبت دلانے والے عوامل کے نعم البدل کی فراہمی ــــــــــــ کرنے کے بنیادی کام ہیں ــــــــــکچھ اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اہل مسجد کو ایک سے ایک نئے ڈھنگ اور معاشرے کو مقبول ایسے انداز اختیار کرنے کی بھی، جو شرع سے ٹکراتے نہ ہوں ۔
3.     معاشرہ کو درکار مختلف پیشوں میں جن خواتین کی ضرورت ہے ــــــــــــــــوہ مطیع اور مسلم خواتین ہوں ، اس کا بندوبست میڈیا اور جدید تعلیم کے مراکز تو ہر گز نہ کریں گے ــــــــیہ تو ہے ہی اہل مسجد کا "مسئلہ"!!
تو کیا وہ اپنی بچیوں کو خود سے دنیاوی تعلیم کے ان شعبوں میں آگے بڑھانے کے لیے کچھ کدوکاوش فرماتے ہیں ـــــــــــــــــ اگر جواب نہیں میں ہے، تو اہل مسجد کو اب جاگ جانا چاہیے ۔
4.     "ماں " بننے کی سعادت حاصل کرنا بچیوں کے لیے نیا تجربہ ہوتا ہے ـــــــــــ اس حوالہ سے انہیں جدید خاندانی مسائل ، اسلام کو عورت سے مطلوب رویوں اور عام روزمرہ کے گھریلو کام کاج کو منظم انداز میں کرنے سمیٹنے کے حوالہ سے تربیت ــــــــــــــــــ کچھ توجہ اس طرف بھی دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح مسجد اور معاشرے کے دیگر طبقات کے حوالہ سے مزید معروضات رفتہ رفتہ ہم یہاں پیش کرتے رہیں گے ان شاءاللہ