شیخوپورہ میرے ننھیال کے ننھیال کا شہر ہے ، اور بعد میں اس سے مٹی کا رشتہ بھی استوار ہوا ، کہ میری بڑی بیٹی وہاں دفن ہے ۔میٹرک کے بعد گریجوایشن تک کئی سال وہاں میں نے گزارے ہیں ، بے ربط اور رستے کی تلاش میں ۔ کتاب سے تعلق ویسے تو بچپن سے تھا ، لیکن یہاں آ کر لائبریری تک رسائی ہوئی، شیخوپورہ کمپنی باغ میں بڑی وسیع لائبریری ہے ، صاف ستھری پرسکون اور نتھری نکھری سی۔ انگریز بہادر کے دور کےکمپنی باغ نے اپنی وسعتوں کے وسط میں اس جزیرے کو پھول کی مثل کھلنے کی اجازت دی ہے اور اس کے لیے میں اس کا شکرگزار ہوں ۔ عجیب بات ہے کہ میں سبزے کا عاشق ہونے کے باوجود ان دنوں لائبریری کے چہار طرف پھیلے قطعات کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا ۔ کمپنی باغ آنا اور سیدھے لائبریری ، وہاں سے واپس جاوید سندھو صاحب کے سخت ڈسپلن والے کالج میں بھاگم دوڑ جا پہنچنا۔
خیر لائبریری سے کافی کچھ استفادہ کا موقع ملا، لیکن جس شخصیت اور ان کی کتاب کا آج تذکرہ چھیڑنے چلا ہوں ، اتفاق ایسا ہے کہ وہ لائبریری میں نہ دیکھی اور نہ ایشو کروائی ، حالانکہ لائف ممبرشپ لینے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں متعدد کتابیں ایشو کروانا اور چند دنوں میں واپس کرنا میرا معمول تھا، پھر جس genre کی یہ کتاب تھی ، وہ تو میری پسندیدہ ترین تھا، یعنی احوال و آثار ِ کبار ۔
ہوا یوں کہ میرے بعد میں ہم زلف اور قریبی عزیز عبدالوحید صاحب ، جو کہ زرعی ادویات کا کاروبار کرتے تھے ، کے ایک سیلز مینیجر دوست زاہد صاحب نے ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک گھر کرایہ پہ لیا ۔ زاہد صاحب غیرشادی شدہ آدمی تھے اور ہم کافی لڑکے ان کے گھر میچ وغیرہ دیکھنے آیا جایا کرتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن ان کے گھر میں نے ایک موٹی سی کتاب "شہاب نامہ " دیکھی ۔مصنف کا نام قدرت اللہ شہاب لکھا ہوا تھا ، نام معمول کے ناموں سے کچھ ہٹ کر تھا اور پہلا باب بھی ۔
کتاب میں نے شروع کی اور چند ہی دنوں میں مکمل کر لی ، اس کے بعد اب تک مجھے یاد نہیں کہ اسے کتنی دفعہ پڑھ چکا ہوں ۔ پہلی قرات میں پتا نہیں کیا بات تھی کہ اب سے کچھ عرصہ قبل تک ، یعنی جب تک بانو آپا زندہ تھیں ، میں اسے ہر تھوڑی دیر بعد پڑھا کرتا تھا ۔ چندراوتی ، راج کرو گا خالصہ ،کشمیر کا مقدمہ ، سرینگر کے اسلامیات پڑھاتے مولوی صاحب ، دوپٹے رنگتے للاری ، نندہ بس سروس ، شہاب صاحب کی اددی کے ملازم کا اجیپھا ، نائینٹی ، سلسلہ اویسیہ ، شریعت کی سیدھی سڑک اور طریقت کی مانٹیسریاں ، برف میں میلوں پیدل چلتے شہاب صاحب ، گول مٹول ثاقب یا عفت شہاب۔۔۔مجھے آج تک نہیں پتا کہ اس کتاب میں کیا تھا ، جس نے مجھے آج تک جکڑا ہوا ہے ۔ شاید ماں جی کا فرمانبردار ملک کا سب سے بڑا افسر ، شاید اس سے بھی بڑھ کر اپنی ماں کے فرمانبردار عبداللہ صاحب ۔۔ سچ بتاؤں ، میں نے سرسید کو بہت برا بھلا کہا ، جب میں نے پڑھا کہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو اپنی ماں کی بات مان کر بیرون ملک نہ جانے پہ مارا تھا ۔۔مجھے پتا ہے کہ شہاب صاحب کا نام بہت سے لوگوں کے ماتھوں پہ بل چڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے ، لیکن دل تو مجبور ہے نا بچپن کی ہر اس جھیل کے ہاتھوں ، جس میں پتھر پھینکے گئے تھے اور اٹھنے والی لہروں اور بننے والے دائروں کے ساتھ اپنا آپ بہتا اور گھومتا تھا ۔
شہاب صاحب شاید ایوب خان کو جمہوریہ پاکستان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بتانے پہ دل میں کھبے تھے ، بھاگل پور کے بے چارے مسلمانوں کے لیے نوکری داؤ پہ لگانے یا فلسطینی نصاب سے اسرائیلی خرافات نکلوانے کی وجہ سے ، خواب دیکھنے میں ایک جیسا ہونے کی وجہ سے یا سفرِ حجاز والی نزیہہ کی آنسوؤں کے طفیل ، وہ آنسو جو کبھی ہم جیسے گناہ گاروں کو نصیب نہ ہوئے ، شاید بانو آپا کی وجہ سے ، پتا نہیں ان سے کچھ نسبت ہے ، انجان سی ، نامعلوم سی ۔۔۔جس رات انہوں نے اپنی سرکاری کوٹھی میں آسیب سے بچنے کے لیے لا الہ الا اللہ کی پرچی گراموفون پہ رکھی ہے ، مانو میں نے بھی جانا یہ ہر مصیبت سے بچنے کی شاہ کلید ہے "لا الہ الا اللہ " ۔۔۔جس رات خواب میں شہاب صاحب کو سرکارﷺ کا دیدار ہوتا ہے اور انجائنا پیکٹورس ہمیشہ کے لیے اس کی یاد بن کے رہ جاتا ہے ، جانو اسی رات میں نے یہ جانا کہ اس کاروبارِ حیات کے بازار سے اگر کسی کو "سُچا مال" چاہیے ، تو وہ اپنا بستہ اٹھائے اور مدینے جا کر خود بِک جائے اور سمجھ لے کہ سب کچھ خرید لیا ۔۔
بھائی! یہ دل کا معاملہ عجیب ہے ، گاہے خار پہ آ جائے اور گلاب منتظر پڑا رہے ، پر یہاں تو شہاب صاحب ہیں ، گلاب سے گلاب ، لطافت سی لطافت ، گول گول سے ، گم صم سے ، چپ چپ سے اور پھر بھی بولتے ہوئے ، محبت کی زباں !
آئی لو یو سر!!
اللہ تعالیٰ آپ سے بہت سا پیار فرمائیں اور آپ کو اپنے پیارے بندوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں ۔
آمین !
فلک شیر چیمہ
بارہ مئی 2020
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں