زندگی کے سفر میں ،جب آپ وکٹری سٹینڈ پہ نہ ہوں ،ہاتھ میں کوئی بید کی چھڑی اور چھاتی پہ تمغے نہ ہوں ،لوگ آپ کا اٹھ اٹھ کر انتظار نہ کرتے ہوں اور ناموں کی فہرستوں میں آپ کا نام آخری آخری سلاٹس پہ جگہ پائے ۔۔۔ ایسے میں آپ کی چھوٹی سی چھلانگ کے لیے تالی بجانے والے ،انگوٹھا اوپر کو اٹھا کر بیسٹ آف لک کہنے والے اور حوصلہ بڑھانے والے کم ہوتے ہیں، بہت کم ، پر یاد رہنے والے ، دل میں رہ جانے والے اور بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ، ہمارے اردگرد تلاش کرنے پہ ایسے چند ہی لوگ ملتے ہیں ، تلاش کر کے دیکھ لیں !
آج یاد آ رہا ہے، یہ انیس صد چھیانوے کا سن تھا، علی پور چٹھہ سے میٹرک کے لیے میں حافظ آباد کے علی گڑھ پائیلٹ سکول میں تھا ، یہ استادِ گرامی قدر سلیم صاحب کا پاؤں پاؤں رکھتا نو مولود ادارہ تھا ، جس کی سب سے بڑی کشش وہ خود تھے اور ہم جیسے پردیسیوں کے لیے سب سے بڑی پریشانی ہاسٹل کی رہائش تھی ۔
قصہ کوتاہ! غالباً یومِ قائد کا موقع تھا، جناح ہال میں ضلعی سطح کا ایک پروگرام تھا، جس میں ملی نغمے اور تقاریر وغیرہ کے ضلع بھر سے بچوں کے مقابلہ جات تھے ، میں گورنمنٹ ہائی سکول علی پور چٹھہ کی طرف سے ڈویژن سطح کے مقابلہ جات میں مختلف انعامات جیت چکا تھا اور اب سلیم صاحب نے بھی اپنے سکول کی طرف سے مقابلے کے لیے مجھے بھیجا۔ان دنوں عجیب بات تھی، کہ ایک دو بندوں سے بات کرنا مجھے قیامت ہوتی تھی ، لیکن مجمع سینکڑوں سے ہزاروں میں بڑھتا ، تو اعتماد ، گلا اور بدن مثل ربڑ کے کھلتا تھا بحمدہ تعالیٰ۔اچھی بات یہ تھی کہ اس دن ہال میں سینکڑوں بچے، اساتذہ اور دیگر مردوزن جمع تھے ۔
پہلے ملی نغموں کے مقابلے ہوئے ، ایک نہم دہم ہی کی لڑکی نے ، جو شاید حافظ آباد ہی کے کسی پرائیویٹ سکول سے تھی، غالباً "اے جذبہ دل گر تو چاہے " پڑھا۔ بہزاد لکھنوی کی یہ غزل عجیب چیز ہے ، کسی پہنچے ہوئےے بندے نے راجا عزیز بھٹی شہید ؒ پہ بننے والے پی ٹی وی ڈرامے میں یہ شامل کی ہے ، بس یہ محسوس کرنے کی چیز ہے اور بیت جانے کی بات ۔ سب نغمے سننے کے بعد مجھے لگا ، کہ اول انعام اسی لڑکی کو ملے گا ۔ خیر جب تقاریر کی باری آئی ، تو مجھے تقریباً آخری تین چار مقرروں میں بلایا گیا ، جیسا اللہ کو منظور تھا، میں بولا ۔جب تقریر مکمل کر کے میں وسیع سٹیج سے نیچے اترا، تو پورا ہال ضرور کھرا ہو گیا ، ظاہر ہے مجھے اچھا لگا اور امید بھی کہ اپنے ادارے اور خاص طور پہ سلیم صاحب کے لیے عزت کا سامان کروں گا ، سلیم صاحب کی شخصیت میں ایسی ہی کشش تھی، کہ یہ خواہش میرے اندر پیدا ہوئی تھی ۔ میری تقریر کے بعد باقی کے دو مقرر بھی بولے ، میں اتنی دیر میں ہال سے نکل کر لاشعوری سے انداز میں ہال کی عقبی اوپری بالکونی میں چلا گیا ، وہاں پہنچا اور ادھر ادھر پھرنے لگا ، شاید نتائج کے انتظار میں جو ذہنی دباؤ تھا، اسے کم کرنے کے لیے ۔مجھے اپنی تقریر کے ہنگام سامعین اور سٹیج پہ بیٹھے مقامی سیاست دان مہدی بھٹی اور ان کے اردگرد منصفین و منتظمین کے ردعمل اور دیگر مقررین کی تقاریر کے تقابلی تجزیہ سے کچھ نہ کچھ اندازہ تھا، کہ مجھے وکٹری سٹینڈ پہ اول پوزیشن مل ہی جائے گی بتوفیق الٰہی ۔
اب وقت ہوا نتائج کے اعلان کا ، تو ملی نغموں میں غالباً وہی لڑکی اول آئی ، انعام لے کر وہ اور اس کے سکول فیلوز اپنے ایک دو استاد کے ساتھ وہیں ہال کی پچھلی سیڑھیوں پہ کھڑے ہو گئے ۔ جب تقاریر کے انعامات کا اعلان ہوا، تو سوم کے بعد دوم کا بھی اعلان ہو گیا ، مجھے یقین ہو گیا کہ پہلی پوزیشن مجھے ہی ملے گی ، خون سارا سر کی طرف اور پسینہ پاؤں کی طرف رواں دواں تھا ، کہ اچانک پہلی پوزیشن کے لیے بھی کسی اور بچے کے نام کا اعلان ہو گیا ۔ مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ہو گیا ہے ۔
بس پھر، گھر، ماں اور مزعومہ کامیابی سے دور بچہ بے اختیار رونے لگا. :)
ادھر ادھر دیکھا تو سب لوگ حیران کھڑے تھے اور وہ نغمے والی لڑکی رو رہی تھی ۔ میں خستہ و خجالت زدہ ہارے ہوئے جواری کی طرح باہر کی طرف نکلنےلگا ، کہ ہال میں بہت سے لوگ کھڑے ہو گئے اور شور مچانے لگے کہ فلاں فلاں لڑکے کی تقریر سب سے اچھی تھی اور اس کی کوئی پوزیشن نہیں ہے ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ہال کافی بڑا ہے اور ہنگامہ و حیرت بھی اتنی ہی زیادہ تھی ۔پتہ نہیں کیا ہوا، کہ سٹیج سیکرٹری نے روسٹرم سے معذرت کی اور ایک منٹ بعد دوبارہ نتائج کا اعلان کیا ، شاید انہیں سہو ہوا تھا ۔ نئے نتائج کے مطابق میری پہلی پوزیشن تھی ، انعام وصول کرتے ہوئے ہال دوبارہ تالیوں سے گونج اٹھا ، اچھا لگا، شاید پہلے انعام جس طرح سے ملتا ، اس سے کافی زیادہ خوشی ہوئی ۔
باہر نکلتے ہوئے میں نے اسی لڑکی کو زور زور سے تالیاں بجاتے اور خوش ہوتے دیکھا ، ظاہر ہے وہیں سے ، دور سے شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا ، کہ مصری شاہ محلہ متصل حافظ آباد ریلوے جنکشن ، علی گڑھ پائیلٹ سکول، جسے ابھی اپنی بقا اور قدم جمانے کے لیے ایسے کئی پر اپنے ماتھے پہ سجانے کی ضرورت تھی ، کی خدمت میں اپنی طرف سے ایک پر پیش کروں ۔
آج بھی اپنے لیے ہال میں کھڑے ہونے والے ان نامعلوم سامعین ، آنسو اور تالی والی اس لڑکی اور استاد کہلانے کا حق رکھنے والے سلیم صاحب مجھے یاد ہیں ، جو کچھ کروانے کا گُن اور اس کے لیے لازم اپنا کردار پیش کرنے کے اہل تھے ۔ میں عمر کے جس حصے میں تھا ، وہ اس لڑکی کے کسی "اور تاثر " والے نہ تھے ، کیونکہ یہ دن پچھلی صدی کے ختم ہونے سے تین برس قبل کےتھے ۔ یہ شاید شروع میں بیان کیے گیے جذبے کی وجہ سے یاد رہ جانے والی چیز ہے ۔
یار! نیچے گرے ہوئے کا ہاتھ تھامنے سے بندہ زندہ رہتا ہے ، دوسروں کی دعاؤں اور یادوں میں ۔ ریس میں آخری نمبر پہ آنے والے کے لیے بھی تالی بجانا ، سادے سپاہی اور بے تمغے کے دلاور کے لیے بھی نعرہ تحسین بلند کرنا ، بندوں اور خدا کے ہاں اس کی گواہی دینا ، یہ بڑا کام ہے ۔
خدا ان سب کو سلامت رکھے ، جنہیں اس "یاد گیری" میں اس فقیر نے یاد کیا ہے ، بہت آسانیاں اور بہت برکتیں ہوں ان سب آوازوں ، آنکھوں اور ہاتھوں کے لیے ۔
فلک شیر
فلک شیر بھائی اللہ تعالٰی نے آپکو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے جن میں سے ایک تقریر کا فن بھی ہے اللہ آپکی حفاظت فرمائے آپکی صلاحیتوں کو نیک مقاصد استعمال کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریں