جمعرات، 16 ستمبر، 2021

رات

 ****رات****


درد اور درماں، دونوں کی

رات ، یکساں پردہ پوشی فرماتی ہے

اعلانات سے تھکی زمین کو 

 رات، خاموشی کی لوری سناتی ہے

دھیمی دھنوں کی تال پہ 

رات وصال کا جال بنتی ہے

 فراق کے تاریک طاق میں

 رات دیا بن کر جلتی ہے


صحرا کے تپتے دن پہ رات

 ٹھنڈی میٹھی پلکیں جھپکتی ہے

سکے جمع کرتے ہاتھوں اور

 کلید تختوں سے اٹی انگلیوں کو

رات ان کا حق دینے کا فرض نبھاتی ہے

لمبے دنوں کی تھکا دینے والی نامانوس صحبتوں

اور اکتا دینے والی مقدس روٹین کی ڈور کو

رات اپنی ریشمی تلوار سے قطع کرتی ہے


دوسروں کو نیا موقع دینے کی ہمت 

اور خود پہ طنز کی اجازت دینے

رات آتی ہے

نیستان سے کاٹ کر لائی نے 

گاہے رات کو وصلِ خویشد کے

طویل نظم جیسے سفر پہ نکلتی ہے

قریہ قریہ گریہ کرتے عشاق کے پیچھے

رات ہی کو سفید پوش صفیں باندھتے ہیں


اور یہ رات ہے، جس کے ہنگام

ادھر کہیں آسماں پہ 

حسنِ ازل ، لطیف سئیں

اپنے ہاتھ کے گھڑے

مٹی کے پتلوں کو 

آواز لگواتا ہے

اپنے نام کا مرہم لگاتا ہے


فلک شیر چیمہ



0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں