بدھ، 2 اگست، 2017

افغانستان میں امریکہ کی نئی حکمت عملی

نائن الیون کے بعد افغانستان پہ امریکہ کی چڑھائی کو ڈیڑھ دہائی ہونے کو آئی ہے، مگر جنگ زدہ افغانستان کے باسیوں کو چین کا سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا۔ طالبان خود کو افغانستا ن کے جائز حکمران گردانتے ہیں اور بہت سے صوبوں میں ان کی غیر اعلانیہ حکومت بھی موجود ہے۔ دوسری طرف شمالی اتحاد ، سابق مجاہدین رہنماؤں 
اور کچھ پختون سرداروں، جنہیں امریکہ کی مدد حاصل ہے، کابل کے تخت پہ بیٹھے ہیں۔ گو کہ یہ حکومت اکثر و بیشتر کابل تک ہی محدود دکھائی دیتی ہے۔ 
دو سابق امریکی صدور ، بش جونیر اور بارک اوباما کے ادوار میں اس حوالے سے مختلف سٹریٹجیز اپنائی جا تی رہیں، جو کہ ابھی تک افگانستان میں امن لانے میں قریب قریب ناکام رہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے ۔ ماضی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کے کچھ ادوار قطر وغیرہ میں ہوئے ہیں ۔ حال ہی میں چین اور روس بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کے خواہشمند نظر آئے ہیں۔ اس پیچیدہ صورتحال میں نومنتخب امریکی صدر کی افغانستان سے متعلق پالیسی کا سب کو انتظار ہے۔ الجزیرہ کی اس مختصر رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کے سامنے تین آپشنز ہیں۔
 امن عمل کو آگے بڑھانا
 فوجیوں کی تعداد آگے بڑھانا
افغانستان سے فوری انخلاء
دیکھنا یہ ہے، کہ افغان حکومت، طالبان اور ہمسایہ طاقتوں کے درمیان یہ مشکل گیم کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
فلک شیر

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں