بسم اللہ الرحمان الرحیم
السلام علیکم!
بندہ ایک عام مسلمان ہے، مدت العمر سے کچھ سوالات ذہن و قلب کو گھیرے رکھتے ہیں ،مختلف متون و شروح ان اشکالات کو رفع کرنے کے لیے پڑھنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔لیکن سچ جانیے، تو اطمینان قلبی نصیب نہیں ہو سکا۔ اس عدم اطمینان کی ایک وجہ تو مجھے معلوم ہے، وہ ہے گناہوں کا پہاڑ سا بوجھ اور دوسری یقیناً کم علمی ۔ بہر حال اس ضمن میں آپ کے درِ دولت سے امید ہے، کہ شافی و کافی جواب مرحمت فرمائیں گے۔
بعد اس مختصر تمہید کے، عرض ہے، کہ بندہ نے "قرآن و سنت کی اطاعت و فرماں برداری "اور "تمسک بالکتاب والسنۃ"کے علمی و فکری ماحول میں پرورش پائی ہے ۔گو کہ اب تک اپنی کوتاہ عملی اور اکثر اوقات سیہ کاریوں کے سبب آقا و مولا سیدنا محمدﷺ فداہ روحی و جسدی وابی وامی ،کے رستہ پہ چل نہیں پایا ہوں، لیکن آنے والے دنوں میں اللہ تعالیٰ سے امیدوار ہوں کہ وہ مجھے اس رستہ پہ چلا دے۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز۔
چند سوالات ذیل میں درج ہوں اور اس امید ، بلکہ یقین کے ساتھ درج ہیں ، کہ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک جواب ارشاد فرمائیں گے اور حق کو حق لکھتے ہوئے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال نہ رکھیں گے۔
1) احادیث میں مذکور "زہد"اور آج کل کے "تصوف"میں کیا باہم رشتہ ہے ۔ ایک ہی چیز ہیں ، ملتی جلتی ہیں ،یا ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں؟
2) سلاسل تصوف کا کوئی نقلی ثبوت؟
3) امہات الکتب میں اجمالاً یا صراحتاً تصوف کا کوئی تذکرہ یا اس کے جائز و مستحسن ہونے کا کوئی تذکرہ؟
4) صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ؒیا تبع تابعینؒ کے ادوار میں تصوف کی اصطلاحات (قطب،غوث،ابدال،شیخ،تصور شیخ، فنا فی الشیخ،عالم ناسوت، عالم لاہوت ----- اور اسی نوع کی بے شمار دیگر اصطلاحات) کا کوئی تذکرہ یا وجود ؟
5) کیا بیعتِ تصوف ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؟
6) اللہ کے نیک بندوں کی بےشمار کرامات ،جن کا تذکرہ کیا جاتا ہے،اِن کا عشر عشیر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے متعلق نہیں ملتا، حالانکہ وہ امت کا افضل ترین گروہ تھے۔
7) فی زمانہ ایک عامی بیعت کرنے کے لیے کسی شیخ کا متلاشی ہو، تو وہ کیا شرائط تلاش کرے؟
8) کہا جاتا ہے، کہ تزکیہ نفس کے لیے تصوف کے کسی سلسلہ سے متعلق ہونا ضروری ہے، ہم جانتے ہیں، کہ اسماءو رجال کے فن کی کتب میں راویان ِ حدیث اور علاوہ ازیں چاروں ائمہ فقہ کے حالاتِ زندگی بھی درج ہیں ۔کیا وہ بھی کسی سلسلہ سے منسلک تھے، ایسا کسی کتاب میں درج ہے؟
9) دعاوی جو اہل تصوف اپنے سلاسل اور اوراد و اشغال کے نتیجے میں دیکھے جانے والے انوار و اسرارسے متعلق کیا کرتےہیں، ان کو پڑھ کر یہ خیال اس گناہگار کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، کہ کسی صحابی سے بھی شائد ایک دفعہ بھی یہ منقول نہیں ۔جناب اس سلسلہ میں انصاف پر مبنی محاکمہ فرمائیں گے؟
10)تمام مسالک، جو اس وقت برصغیر پاک و ہند میں موجود ہیں، سوائے اہل الحدیث کے، سب کسی نہ کسی طرح تصوف کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی نہ کسی حد تک بنظر استحسان دیکھتے ہیں ۔اسی طرح تقریباًتمام مسلم عسکری تنظیمات میں دیکھا گیا ہے، جو مختلف محاذوں پہ مسلمانوں کی سرزمینوں کی حفاظت یا آزادی کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ اس بُعد پہ کچھ روشنی ڈالیں گے؟
11) اہلِ تصوف کے ہاں بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے، کہ "دنیا تو چھوڑ دی ہے، عقبٰی بھی چھوڑ دے"۔یعنی جزا و سزا کے خوف یا حرص سے اوپر اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ۔ جب کہ قرآن مجید میں کثرت سے اللہ تعالیٰ انذار و تبشیر سے کام لیتے ہیں اور اپنے انبیاء تک کو ان دونوں toolsکے مخاطب بناتے ہیں ۔
12)چند برس قبل مشرف حکومت نے "صوفی ازم"کے فروغ کے لیے تحریک شروع کی تھی، کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ، کہ یہ ایلگ دین ہے اور سب کو قابل قبول ہے، کہیں تصوف کے نام پہ، کہیں بھگتی کے نام پہ،کہیں زین ازم کے نام پہ؟
13)تین سال قبل کے ماہنامہ اجراء کراچی کی ایک اشاعت میں اسلامی تصوف کی جاپانی طریقت کے ساتھ تطبیق دی گئی تھی۔ دونوں میں حقیقتِ ازلی تک پہنچنے کی سات منازل مذکور تھیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ تصوف بذات خود "حقیقتِ ازلی"تک پہنچنے کی انسانی کوشش ہے اور جس خطہ ارض میں جو مذہب رائج ہوتا ہے، اس کی کچھ طیزیں یہ قبول کر لیتا ہے اور اپنی کچھ چیزیں اسے قبول کروا لیتا ہے؟
14)بالعموم دیکھا جائے ،تو مزارات ِ اولیاء کے گرد اس قدر غیر شرعی امور سرانجام پا ئے جاتے ہیں، کہ تقدس کا تصور ہی مشکل ہوتا ہے، اس کی وجہ کی طرف رہنمائی فرمائیں گے؟
15)اہل حدیث مکتبہ فکر تصوف کے قریب آنے کا بھی نہیں سوچتا، کیا آپ کے خیال میں وجہ ہٹ دھرمی ہے یا شرعی دلائل؟
آخر میں ایک بات ، کہ یہ تمام سوالات محض تحقیقِ حق کے لیے ہیں، قطعاً کسی مسلک یا سلسلہ کو نیچا ثابت کرنے کے لیے نہیں ۔ آپ سے درخواست ہے، کہ گناہگار کے لیے خاص دعا فرمائیں، کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرے اور دنیا وآخرت میں ان کا ساتھ نصیب فرمائے ، جن سے وہ پاک ذات دنیاوی زندگی میں راضی ہے اور جن پر بعد از مرگ بھی انعام کرتی رہے گی۔ان سوالات کے جوابات کے بعد،اگر آپ اس سلسلہ میں کسی طرف مزید رہنمائی فرمانا چاہیں، تو بندہ شکرگزار ہو گا ۔
احقر العباد
فلک شیر چیمہ
umershabbir1982@gmail.com
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو ان سب باتوں کا جواب آپ کے پاس موجود ہے۔ یعنی آپ صاحب عقل و باشعور ہیں اور اچھے برے کی تمیز جانتے ہیں تو پھر ان مباحث میں پڑ کر وقت ضائع نہ کریں۔ بس اپنے کردار کو مثالی بنائیں اور عبادت کریں۔ دین و دنیا کا توازن برقرار رکھتے ہوئے محنت کریں خدا خود آپ کی رہنمائی کرے گا۔ ہمارا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ جن کاموں میں محنت درکار ہوتی ہے ان سے جی چراتے ہیں اور شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں۔ یقین مانیں محنت کے بغیر بہت کم لوگوں کو کامیابی ملتی ہے۔
جواب دیںحذف کریںاگر سچ کہوں، تو تذبذب بہترین لفظ ہو گا، جو اس ضمن میں میری کیفیت کو ظاہر کرے گا۔ آپ کا کہا سر آنکھوں پر بھی ۔ اور آپ کے اخلاص کے وجہ سے دل کو بھی لگتا ہے ۔ شک نہیں، کہ بہت دفعہ ہم اپنی کمیوں اور سستیوں کو چھپانے کے لیے شارٹ کٹ تلااشتے ہیں ، ممکن ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہو ۔ بہر حال کوشش کروں گا، کہ خود کو ٹٹولنے اور سنبالنے کی کوشش کروں ، دعا کی درخواست ہے ۔ جزاک اللہ خیر
حذف کریںاور الجھ جائیں گے
جواب دیںحذف کریںاللہ شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور وہی سب کچھ جانتا اور کرتا ہے...اسی بات کا یقین دل میں ہونا چاہئے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت احادیث مبارکہ پر عمل
باقی نیکوں کی عزت و احترام
کوئی کسی کو کچھ نہیں دے سکتا اللہ کے سوا...دل کا سکون بھی اللہ دیتا ہے کسی قسم کا تصوف نہیں
میں نے کتنا کچھ لکھا، بجلی فیل ہو گئی، شائع نہیں ہو سکا۔
جواب دیںحذف کریںدور کیا جانا، فیس بک پر اپنا بینر اور ڈی پی دیکھ لیجئے۔ (1) من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ، اور (2) و ما کان ربک نسیا ۔ ایک چیز اور دیکھ لیجئے گا۔ خطبہ حجۃ الوداع: دو چیزیں ہیں جن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا ہے۔ کتاب اور سنت! کوئی تیسری چیز نہیں۔ بلکہ تیسری اگر آتی ہے تو فساد پیدا ہوتا ہے۔ کہ اسی موقع پر اللہ کریم کی طرف سے تکمیل دین کی سند جاری ہوتی ہے۔ کہاں گنجائش رہ جاتی ہے؟ کسی صوفی ازم کی یا کسی ترکِ دنیا کی یا کسی مرحوم سے ڈائریکٹ تربیت لینے کی؛ یا کسی ایسے طریقے کی جسے جدید معانی میں زہد کا نام دیا جاتا ہے! ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
اور ہاں ۔ اسلام میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے! رعایت ہو سکتی ہے سہولت ہو سکتی ہے کہیں معافی اور استثناء بھی ہو سکتا ہے مگر وہاں واضح ہدایت ہو گی۔ جیسے روزے میں ہے کہ تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ غیر رمضان میں کنتی پوری کرے۔ بہت صاف حکم ہوتا ہے کہ: انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی۔ اور ہم بحیثیت مسلم مکلف ہیں اتباعِ رسول کے اور یہی ایک کام کیا اتنا آسان ہے کہ ساتھ کئی اوروں کو ملا لیا جائے کہ فلاں باباجی کا بھی اتباع کرنا ہے اور فلاں کا بھی؟
کمی کوتاہی انسان سے ہو جاتی ہے، اس پر سب سے پہلی اور لازمی چیز ندامت ہے، توبہ ہے، قضا ہے کفارہ ہے صدقات ہیں، نوافل ہیں (جن کی تفصیلات کتاب اللہ اور کتبِ احادیث میں میشر ہیں) و علیٰ ہٰذا القیاس۔ اللہ اللہ کیجئے، آپ پر اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کیجئے اور رب رحیم کی رحمتوں کے طالب رہئے۔ بارک اللہ لنا و لکم۔
آپ کے سوالات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں1) احادیث میں مذکور "زہد"اور آج کل کے "تصوف"میں کیا باہم رشتہ ہے ۔ ایک ہی چیز ہیں ، ملتی جلتی ہیں ،یا ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں؟
2) سلاسل تصوف کا کوئی نقلی ثبوت؟
3) امہات الکتب میں اجمالاً یا صراحتاً تصوف کا کوئی تذکرہ یا اس کے جائز و مستحسن ہونے کا کوئی تذکرہ؟
میرے محدود علم کے مطابق ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
4) صحابہ رضی اللہ عنہم ، تابعین ؒیا تبع تابعینؒ کے ادوار میں تصوف کی اصطلاحات (قطب،غوث،ابدال،شیخ،تصور شیخ، فنا فی الشیخ،عالم ناسوت، عالم لاہوت ----- اور اسی نوع کی بے شمار دیگر اصطلاحات) کا کوئی تذکرہ یا وجود ؟
جواب دیںحذف کریںوہ لوگ کام کرنے والے لوگ تھے۔ تاریخ کا مطالعہ آپ کا میری نسبت کہیں بہتر ہے۔ کوئی ہوتا تو آپ کی نظر سے اوجھل نہ رہتا کہ آپ پڑھنے والے آدمی ہیں۔
5) کیا بیعتِ تصوف ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؟
جواب دیںحذف کریںبیعت صرف خلیفہ کی ہوتی ہے۔ وہ بھی تقویٰ کی بنیاد پر۔ اگر وہاں بھی کوئی گروہی سیاسی مالی سماجی مفاد تقویٰ کو متزلزل کر دے تو وہ فساد ہے۔ بنی امیہ کے دور میں ایسی مفسد بیعت بہت عام ہو گئی تھی اور بعد میں تو تمام حدود و قیود پار کر گئی۔ تاریخ یہی بتاتی ہے۔
6) اللہ کے نیک بندوں کی بےشمار کرامات ،جن کا تذکرہ کیا جاتا ہے،اِن کا عشر عشیر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے متعلق نہیں ملتا، حالانکہ وہ امت کا افضل ترین گروہ تھے۔
جواب دیںحذف کریںاللہ کے بندے کا نیک ہونا اور بات ہے۔ کرامت سے جع معانی فی زمانہ اخذ کئے جا رہے ہیں وہ قریب قریب معجزہ کے ہہیں، اور معجزہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے جسے اللہ نے جب چاہا جیسے چاہا اپنے انبیائے کرام کے ہاتھوں ظاہر فرما دیا۔ صحابہ کرام اور صلحائے امت تو ایک طرف، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اللہ کریم کہلواتا ہے کہ: اگر مجھے کچھ اختیار ہوتا تو میں خیر کثیر جمع کر لیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی بیٹی سے فرما دیا تھا کہ اس لاڈ میں نہ رہنا کہ میں نبی کی بیٹی ہوں، مین اس دن تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔
یہ آج کے بابے اور ان کے چیلے کیا فرماتے ہیں؟ آپ کے علم میں بھی ہے۔
7) فی زمانہ ایک عامی بیعت کرنے کے لیے کسی شیخ کا متلاشی ہو، تو وہ کیا شرائط تلاش کرے؟
جواب دیںحذف کریںسوال از خود فسخ ہو گیا
8) کہا جاتا ہے، کہ تزکیہ نفس کے لیے تصوف کے کسی سلسلہ سے متعلق ہونا ضروری ہے، ہم جانتے ہیں، کہ اسماءو رجال کے فن کی کتب میں راویان ِ حدیث اور علاوہ ازیں چاروں ائمہ فقہ کے حالاتِ زندگی بھی درج ہیں ۔کیا وہ بھی کسی سلسلہ سے منسلک تھے، ایسا کسی کتاب میں درج ہے؟
تزکیہ نفس کے بارے میں اللہ کریم کے ارشادات کیا ہمارے لئے کافی نہیں۔ "جو اللہ کر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہے" ۔ اللہ کریم نے بہت سادہ فارمولا عنایت فرما دیا کہ : اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول ۔ اولی الامر کی اطاعت بھی اس بات سے مشروط ہے کہ وہ اللہ کا حکم نافذ کرے اور اگر اس میں اختلاف ہو تو معاملہ اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف لوٹا دو یعنی فیصل قوت کتاب و سنت ہے۔ سورۃ البقرہ کی پہلی پانچ آیات متقین کی مکمل کوالیفیکیشن ہے۔
جب یقین ہو گا تو عمل بھی ہو گا۔ عمل نہیں ہے تو اس سے گمان تو کیا جا سکتا ہے نا، کہ یقین نہیں ہے۔
جواب دیںحذف کریں9) دعاوی جو اہل تصوف اپنے سلاسل اور اوراد و اشغال کے نتیجے میں دیکھے جانے والے انوار و اسرارسے متعلق کیا کرتےہیں، ان کو پڑھ کر یہ خیال اس گناہگار کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، کہ کسی صحابی سے بھی شائد ایک دفعہ بھی یہ منقول نہیں ۔جناب اس سلسلہ میں انصاف پر مبنی محاکمہ فرمائیں گے؟
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ جو بھلائی کرنا چاہتا ہے ہم اس کے لئے اِدھر آسانی بہم فرما دیتے ہیں اور جو برائی کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ہم اُدھر آسانی پیدا کر دیتے ہیں۔ اور یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ و یمدھم فی طغیانھم یعمھون (البقرہ)۔ اور یہ بھی ارشاد ہوتا ہے۔ اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! اگر تم زرض و سماوات کے کناروں سے نک کر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ۔ اور ساتھ ہی ارشاد ہوتا ہے: لاتنفذون الا بسلطان (الرحمٰن)۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے کہ: پھر انہیں ہماری طرف ہی آنا ہے اور ان سے حساب لینا ہمارا کام ہے۔
ایک منظر دیکھئے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطاب فرما رہے ہیں، کسی بات پر بہ آوازِ بلند فرماتے ہیں "بیٹھ جاؤ سارے" ایک صحابی اس وقت مسجد کے دروازے میں داخل ہو رہے ہیں، وہ وہیں بیٹھ جاتے ہیں! کیا یہی ایک مثال کافی نہیں ہے؟۔
10)تمام مسالک، جو اس وقت برصغیر پاک و ہند میں موجود ہیں، سوائے اہل الحدیث کے، سب کسی نہ کسی طرح تصوف کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی نہ کسی حد تک بنظر استحسان دیکھتے ہیں ۔اسی طرح تقریباًتمام مسلم عسکری تنظیمات میں دیکھا گیا ہے، جو مختلف محاذوں پہ مسلمانوں کی سرزمینوں کی حفاظت یا آزادی کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ اس بُعد پہ کچھ روشنی ڈالیں گے؟
جواب دیںحذف کریںبدقسمتی سے اب وہ والے اہلِ حدیث بھی نہیں رہے۔ ان میں بھی بے سند خوابوں سے سند لی جانے لگی ہے۔ The Protocol of the Learned Elders of the Zion میں جمہوریت والا باب پڑھ لیجئے کا آپ پر بہت کچھ کھل جائے گا۔ میرے تجربات بہت تلخ ہیں چیمہ صاحب۔ کبھی مل بیٹھے تو باتیں ہوں گی۔ ان شاء اللہ۔
11) اہلِ تصوف کے ہاں بالعموم یہ خیال پایا جاتا ہے، کہ "دنیا تو چھوڑ دی ہے، عقبٰی بھی چھوڑ دے"۔یعنی جزا و سزا کے خوف یا حرص سے اوپر اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا ۔ جب کہ قرآن مجید میں کثرت سے اللہ تعالیٰ انذار و تبشیر سے کام لیتے ہیں اور اپنے انبیاء تک کو ان دونوں toolsکے مخاطب بناتے ہیں ۔
جواب دیںحذف کریںایسی باتیں شاید شعر تک اچھی لگتی ہیں۔ عقائد کا منبع اللہ کی کتاب ہے اور اعمال کی سند اللہ کے رسول کی زندگی ہے۔ اللہ سے محبت کا معیار اللہ کی کتاب میں مندرج ہے: "آپ اعلان فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اطاعت کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا"۔ گویا تمام محبتوں کا منتہا اطاعتِ رسول ہے۔ یہی بات پہلے بھی بیان ہو چکی۔ اس پر کوئی جرح نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔
12)چند برس قبل مشرف حکومت نے "صوفی ازم"کے فروغ کے لیے تحریک شروع کی تھی، کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں ، کہ یہ ایلگ دین ہے اور سب کو قابل قبول ہے، کہیں تصوف کے نام پہ، کہیں بھگتی کے نام پہ،کہیں زین ازم کے نام پہ؟
جواب دیںحذف کریں13)تین سال قبل کے ماہنامہ اجراء کراچی کی ایک اشاعت میں اسلامی تصوف کی جاپانی طریقت کے ساتھ تطبیق دی گئی تھی۔ دونوں میں حقیقتِ ازلی تک پہنچنے کی سات منازل مذکور تھیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ تصوف بذات خود "حقیقتِ ازلی"تک پہنچنے کی انسانی کوشش ہے اور جس خطہ ارض میں جو مذہب رائج ہوتا ہے، اس کی کچھ طیزیں یہ قبول کر لیتا ہے اور اپنی کچھ چیزیں اسے قبول کروا لیتا ہے؟
آپ کو ایک حدیث یاد دلا دوں۔ ارشاد ہوا تم یہود و نصاریٰ کی پیروی میں ایسے ہو جاؤ گے جیسے جوتے کے دونوں پَیر ایک دوجے کے مشابہ ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گوہ کے کھڈ میں گھسیں گے تو تم بھی ویسا ہی کرو گے۔
اللہ کریم نے خبردار کیا کہ یہ لوگ (کافر) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، تمہارے دوست نہیں ہو سکتے۔ کیا موجودہ عالمی نقشہ اس ارشاد کی عملی تفسیر نہیں ہے؟ یہ دجل و فریب کا دور ہے اور امتِ مسلمہ پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین دہائیوں سے اسلامی فکر کا قلع قمع کرنے کے لئے تمام قوتیں متحد ہو چکی ہیں۔ اور بہت سارے مسلمان سکالرز بھی (پتہ نہیں جانتے بوجھتے یا انجانے میں) ان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ یہ فتنوں کا دور ہے بھائی! اور یہ فتنے ابھی تو اور بھی زور پکڑیں گے۔ آنے والے سال کہیں سخت ہیں! ذرا بچ بچا کے! ایسے میں خوش قسمت ہو گا وہ شخص جو اپنا ایمان بچا کر لے جائے۔
غور فرمائیے گا، میری گزارشات غیر متعلقہ نہیں ہیں۔
آپ کے سوال نمبر 13 سے مترشح ہے کہ جاپان (بدھ مت) اس میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ بدھ مت اور میانمار میں مسلمانوں کا قتلِ عام کسے نہیں معلوم۔ اور یہ جو کہا گیا کہ مذہب جہاں جاتا ہے وہاں کی کچھ چیزیں قبول کرتا ہے اور کچھ چیزیں اپنی دیتا ہے، یہ انسانوں کے وضع کردہ مذاہب کی بات ہو سکتی ہے اللہ کے دین کی بات نہیں ہو سکتی۔ اللہ کے دین کا تو پہلا تقاضا ہے: محلصین لہ الدین ۔۔ اور وہ جو کفارِ مکہ نے اپنے تئیں ایک چکر چلایا تھا کہ جی کچھ دن آپ ہمارے بتوں کی پوجا کریں اور کچھ دن ہم آپ کے رب کی پوجا کریں گے؟ یاد ہے نا، پورا واقعہ! اور یہ بھی کہ: ادخلوا فی السلم کافۃ (اسلام میں داخل ہونا ہے پورے کے پورے) اور یہ بھی کہ: لا تلبسوا الحق بالباطل ۔۔ ۔۔
جواب دیںحذف کریںاتحاد بین المذاہب کوئی چیز نہیں ہے۔ راستے دو ہی ہیں، یا اسلام ہے یا کفر ہے۔ ایک پاک چیز میں ایک ناپاک چیز ملا دیجئے حاصل؟ سارا ناپاک (میں تو اس کو نصف پاک یا 75 فیصد پاک یا 25 فیصد پاک تسلیم نہیں کر سکتا)۔ پاکستان میں کون سا نظامِ خلافت رائج ہے، یہ مغرب کا وہی نظام ہے نا جو بہر نوع اللہ کے نظام سے متصادم ہے۔ جب ہم نے اس نظام کو مان لیا تو ہمارے اپنے ایمان کی قلعی کھل گئی۔ باقی رہ کیا جاتا ہے!
14)بالعموم دیکھا جائے ،تو مزارات ِ اولیاء کے گرد اس قدر غیر شرعی امور سرانجام پا ئے جاتے ہیں، کہ تقدس کا تصور ہی مشکل ہوتا ہے، اس کی وجہ کی طرف رہنمائی فرمائیں گے؟
جواب دیںحذف کریںبہت واضح اور بہت معروف ارشادِ نبوی ہے: دنیا میں ثواب کی غرض سے تین مساجد کی طرف سفر کرنا درست ہے۔ ایک: مسجد حرام، دوسرے: مسجدِ نبوی، اور تیسرے: مسجد اقصیٰ ۔۔ ہمارے معاشرے کو دیکھ لیجئے کسی محلے کی مسجد میں فجر کے وقت دس نمازی جمع ہو جائیں تو کہتے ہیں آج تو ما شاء اللہ بڑی رونق ہے۔ محلے کی مسجد کی اہمیت اللہ کریم کے ہاں کتنی ہے، یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کیا؟ جس کا محلے کی مسجد سے کوئی تعلق نہیں یا جمعے جمعے کا تعلق ہے وہ مزارات پر جاتا ہے تو ثواب کے لئے تو نہیں جاتا، اس کے مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ سب کچھ دنیا داری ہے اور کچھ نہیں۔ آپ کون سی توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔
15)اہل حدیث مکتبہ فکر تصوف کے قریب آنے کا بھی نہیں سوچتا، کیا آپ کے خیال میں وجہ ہٹ دھرمی ہے یا شرعی دلائل؟
جواب دیںحذف کریںاللہ کرے آپ کی خوش فہمیاں درست ہوں۔
ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآن شریف کی تلاوت تو کرتے ہیں مطالعہ نہیں کرتے۔ ایک ڈاکٹر کا نسخہ، بجلی کا بل، کمپنی کے دفتر کا خط، تو اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کو پڑھا اور سمجھا جائے اور اس کے مندرجات پر عمل کیا جائے؛ ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں الف لام میم تیس نیکیاں ہو گئیں اور بس۔ حالانکہ یہ تیس نیکیاں تو کہہ لیجئے جھونگا ہے، یعنی اللہ کی طرف سے انعام اس ہدایت نامے کو پڑھے کا۔ اس کتاب کا مقصد تو اس پر عمل کرنا ہے اور عمل کرنے کے لئے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ جس کے لئے خاص کیا عام آدمی کے پاس بھی وقت نہیں ہے اور اس نے ایک مولوی رکھا ہوا ہے وہی کافی و شافی ہے۔ حساب کے دن مولوی کے پاس اس کی کتاب ہو گی میرے پاس میری کتاب ہو گی۔ اتنی سی بات سمجھ میں آ جائے تو ہمارے اندر زلزلہ نہ بپا ہو جائے! ۔۔ اللہ کرے کہ ہم میں ہر ایک کے اندر ایسا زلزلہ بپا ہو! مگر اس کے لئے دلِ زندہ کی ضرورت ہے۔ اللہ کریم سے دلِ زندہ مانگئے اور اس کو زندہ رکھنے میں اپنی سی کوشش کو کیجئے۔ اللہ کریم مسبب الاسباب ہے تاہم یاد رہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںلیس للانسان الا ما سعیٰ ۔۔۔ وما علینا الا البلاغ۔
محترم محمد یعقوب آسی صاحب! جس تفصیل سے آپ نے جوابات مرحمت فرمائے ہیں ، ان کے لیے میں آپ کا شکرگزار ہوں۔
جواب دیںحذف کریںبلکہ میں ان سب کو اکٹھا کر کے پوسٹ کر رہا ہوں، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے ۔
بھائی آپ کی باتیں بہت وقت طلب ہیں دوسرے یہ روحنی باتیں ہی جو تربیت اور ریاض سے کھولتی ہیں جس طرح روح کا ثبوت نہیں اسی طرح یہ باتیں بھی محسوس کی جانے والی ہیں ۔آپ ایک ایک سوال کرتے تو شاید جاننے والے جواب دینے کی ہمت کرلیتے ویسے میں نے تو اس کی الف بے بھی نہیں پڑھی ہے ۔میرے مرشد کے والد کی کتابیں اس لنک پر پڑھی جاسکتی ہیں آپ ایک نظر انہیں دیکھ لیں شاید کچھ جواب حل ہوجائیں
جواب دیںحذف کریںhttp://www.hasrat.com/
جی میں دیکھتا ہوں۔ توجہ کے لیے شکریہ
حذف کریںروحانی باتیں ہیں
جواب دیںحذف کریںاس پر تو وہی روشنی ڈال سکتا ھے جس نے اس پر کچھ حاصل کیا ہو، اس کے علاوہ باقی تمام آراء سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
جواب دیںحذف کریںاس پر سوالات نہیں طلب ہونا چاہئے اور جب طلب ہو گی تو پھر راستہ بھی ملے گا۔
اگر آپ کے کہنے سے مراد "اللہ کی طلب" ہے ـــــــــــ تو یہ سوال بنیادی ہے، کہ کیا اللہ نے اس کے لیے انبیاء کے ذریعہ ایک رستہ متعین نہیں فرما دیا؟
حذف کریںآپ شائد تصوف کو کتابی کہانیوں کی طرح سمجھنا چاہتے ہیں تو پھر ناول کی طرح پوسٹوں کا مطالعہ کرتے رہیں، تصوف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے سے ہی ھے۔ آپ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں تو بتائیں کہ آپ کہاں تک پہنچے اور تصوف پر جاننے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیوں نہیں منزل کے قریب ہوئے۔ میری باتوں کو غلط رنگ نہیں دینا۔ نماز، روزہ، حج زکوٰٰۃ کی اپنی فضیلت ھے، تصوف میں بھی اللہ کا یاد کرنا ہوتا ھے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، جو اس کے استاذ بتاتے ہیں اور اس پر ہر کوئی اس قابل بھی نہیں ہوتا کہ اسے حاصل کر سکے ملے تو فوراً نہ ملے تو سالوں لگ جاتے ہیں اور کچھ راستہ میں ہی رہ جاتے ہیں۔
حذف کریںفلک شیر صاحب یہاں وزٹ فرما لیں آپ کو تمام سوالوں کا جواب علماء اہلحدیژ کی زبان سے مل جائے گا۔
جواب دیںحذف کریںhttp://knooz-e-dil.blogspot.com/
قریشی صاحب! بلاگ میں نے وزٹ کیا ہے ۔ توجہ کے لیے شکریہ
حذف کریںمحترم دوسرا مسلئہ یہ ہے کہ اس فورم پر بھی بندہ نے جواب دیا تھا مگرمحدث نے شو نہیں ہونے دیا ،آپ کسی اور فورم کا انتحاب کریں آپ کو مکمل مدلل جواب ملے گا،تصوف ایک عملی دینا ہے
جواب دیںحذف کریںآپ یہیں اپنی معرضات پیش فرمائٰں، یہاں کوئی ماڈریشن نہیں ہو گی، فکر نہ کریں ۔
حذف کریں’’۔۔۔۔ جس طرح روح کا ثبوت نہیں ۔۔۔۔‘‘
جواب دیںحذف کریںیہ میرا بیان نہیں ہے محترمی فلک شیر صاحب۔ میں اس سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔
آسی صاحب! یہ کیا قصہ ہے؟ :)
جواب دیںحذف کریںیہ قصہ بھی اسی داستان کا حصہ ہے۔ جواب میرا رب پہلے دے چکا "یسئلونک عن الروح ۔۔ "۔
جواب دیںحذف کریں