پیر، 11 مئی، 2020

میرے شہاب صاحب

شیخوپورہ میرے ننھیال کے ننھیال کا شہر ہے ، اور بعد میں اس سے مٹی کا رشتہ بھی استوار ہوا ، کہ میری بڑی بیٹی وہاں دفن ہے ۔میٹرک کے بعد گریجوایشن تک کئی سال وہاں میں نے گزارے ہیں ، بے ربط اور رستے کی تلاش میں ۔ کتاب سے تعلق ویسے تو بچپن سے تھا ، لیکن یہاں آ کر لائبریری تک رسائی ہوئی، شیخوپورہ کمپنی باغ میں بڑی وسیع لائبریری ہے ، صاف ستھری پرسکون اور نتھری نکھری سی۔ انگریز بہادر کے دور کےکمپنی باغ نے اپنی وسعتوں کے وسط میں اس جزیرے کو پھول کی مثل کھلنے کی اجازت دی ہے اور اس کے لیے میں اس کا شکرگزار ہوں ۔ عجیب بات ہے کہ میں سبزے کا عاشق ہونے کے باوجود ان دنوں لائبریری کے چہار طرف پھیلے قطعات کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا ۔ کمپنی باغ آنا اور سیدھے لائبریری ، وہاں سے واپس جاوید سندھو صاحب کے سخت ڈسپلن والے کالج میں بھاگم دوڑ جا پہنچنا۔

خیر لائبریری سے کافی کچھ استفادہ کا موقع ملا، لیکن جس شخصیت اور ان کی کتاب کا آج تذکرہ چھیڑنے چلا ہوں ، اتفاق ایسا ہے کہ وہ لائبریری میں نہ دیکھی اور نہ ایشو کروائی ، حالانکہ لائف ممبرشپ لینے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں متعدد کتابیں ایشو کروانا اور چند دنوں میں واپس کرنا میرا معمول تھا، پھر جس genre کی یہ کتاب تھی ، وہ تو میری پسندیدہ ترین تھا، یعنی احوال و آثار ِ کبار ۔
ہوا یوں کہ میرے بعد میں ہم زلف اور قریبی عزیز عبدالوحید صاحب ، جو کہ زرعی ادویات کا کاروبار کرتے تھے ، کے ایک سیلز مینیجر دوست زاہد صاحب نے ان کے گھر کے ساتھ ہی ایک گھر کرایہ پہ لیا ۔ زاہد صاحب غیرشادی شدہ آدمی تھے اور ہم کافی لڑکے ان کے گھر میچ وغیرہ دیکھنے آیا جایا کرتے تھے ۔ ایسے ہی ایک دن ان کے گھر میں نے ایک موٹی سی کتاب "شہاب نامہ " دیکھی ۔مصنف کا نام قدرت اللہ شہاب لکھا ہوا تھا ، نام معمول کے ناموں سے کچھ ہٹ کر تھا اور پہلا باب بھی ۔

کتاب میں نے شروع کی اور چند ہی دنوں میں مکمل کر لی ، اس کے بعد اب تک مجھے یاد نہیں کہ اسے کتنی دفعہ پڑھ چکا ہوں ۔ پہلی قرات میں پتا نہیں کیا بات تھی کہ اب سے کچھ عرصہ قبل تک ، یعنی جب تک بانو آپا زندہ تھیں ، میں اسے ہر تھوڑی دیر بعد پڑھا کرتا تھا ۔ چندراوتی ، راج کرو گا خالصہ ،کشمیر کا مقدمہ ، سرینگر کے اسلامیات پڑھاتے مولوی صاحب ، دوپٹے رنگتے للاری ، نندہ بس سروس ، شہاب صاحب کی اددی کے ملازم کا اجیپھا ، نائینٹی ، سلسلہ اویسیہ ، شریعت کی سیدھی سڑک اور طریقت کی مانٹیسریاں ، برف میں میلوں پیدل چلتے شہاب صاحب ، گول مٹول ثاقب یا عفت شہاب۔۔۔مجھے آج تک نہیں پتا کہ اس کتاب میں کیا تھا ، جس نے مجھے آج تک جکڑا ہوا ہے ۔ شاید ماں جی کا فرمانبردار ملک کا سب سے بڑا افسر ، شاید اس سے بھی بڑھ کر اپنی ماں کے فرمانبردار عبداللہ صاحب ۔۔ سچ بتاؤں ، میں نے سرسید کو بہت برا بھلا کہا ، جب میں نے پڑھا کہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو اپنی ماں کی بات مان کر بیرون ملک نہ جانے پہ مارا تھا ۔۔مجھے پتا ہے کہ شہاب صاحب کا نام بہت سے لوگوں کے ماتھوں پہ بل چڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے ، لیکن دل تو مجبور ہے نا بچپن کی ہر اس جھیل کے ہاتھوں ، جس میں پتھر پھینکے گئے تھے اور اٹھنے والی لہروں اور بننے والے دائروں کے ساتھ اپنا آپ بہتا اور گھومتا تھا ۔

شہاب صاحب شاید ایوب خان کو جمہوریہ پاکستان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بتانے پہ دل میں کھبے تھے ، بھاگل پور کے بے چارے مسلمانوں کے لیے نوکری داؤ پہ لگانے یا فلسطینی نصاب سے اسرائیلی خرافات نکلوانے کی وجہ سے ، خواب دیکھنے میں ایک جیسا ہونے کی وجہ سے یا سفرِ حجاز والی نزیہہ کی آنسوؤں کے طفیل ، وہ آنسو جو کبھی ہم جیسے گناہ گاروں کو نصیب نہ ہوئے ، شاید بانو آپا کی وجہ سے ، پتا نہیں ان سے کچھ نسبت ہے ، انجان سی ، نامعلوم سی ۔۔۔جس رات انہوں نے اپنی سرکاری کوٹھی میں آسیب سے بچنے کے لیے لا الہ الا اللہ کی پرچی گراموفون پہ رکھی ہے ، مانو میں نے بھی جانا یہ ہر مصیبت سے بچنے کی شاہ کلید ہے "لا الہ الا اللہ " ۔۔۔جس رات خواب میں شہاب صاحب کو سرکارﷺ کا دیدار ہوتا ہے اور انجائنا پیکٹورس ہمیشہ کے لیے اس کی یاد بن کے رہ جاتا ہے ، جانو اسی رات میں نے یہ جانا کہ اس کاروبارِ حیات کے بازار سے اگر کسی کو "سُچا مال" چاہیے ، تو وہ اپنا بستہ اٹھائے اور مدینے جا کر خود بِک جائے اور سمجھ لے کہ سب کچھ خرید لیا ۔۔

بھائی! یہ دل کا معاملہ عجیب ہے ، گاہے خار پہ آ جائے اور گلاب منتظر پڑا رہے ، پر یہاں تو شہاب صاحب ہیں ، گلاب سے گلاب ، لطافت سی لطافت ، گول گول سے ، گم صم سے ، چپ چپ سے اور پھر بھی بولتے ہوئے ، محبت کی زباں !

آئی لو یو سر!!

اللہ تعالیٰ آپ سے بہت سا پیار فرمائیں اور آپ کو اپنے پیارے بندوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں ۔

آمین !

فلک شیر چیمہ
بارہ مئی 2020

بدھ، 12 جون، 2019

کاٹالونیا کے انسانی معیار اور اعلیٰ جمالیاتی تجربات کا مابعدالطبیعاتی پہلو

(تصویر بشکریہ گارجین ویب گاہ)

 اونچائی، حیرانی ،وجدان، شدت جذبات،حتی کہ حسی تلذذ کاہر انتہائی نوعیت تجربہ اپنی اصل میں مابعدالطبیعاتی ہی ہے ۔۔سپین کا ایک صوبہ ہے کاٹالونیا، جہاں کے رہائشی پچھلے کچھ عرصہ سے سپین سے علیحدگی چاہ رہے ہیں ، اپنی تہذیب اور دیگر مختلف اسباب کی وجہ سے، انہوں نے حکومت سازی بھی کی ، لیکن سپین کی حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا، ان کے ہاں ایک روایت ہے کہ ہزاروں لوگ ایک دوسرے کے کندھوں پہ سوار ہو کر انسانی مینار سا بناتے ہیں ، اسی سے ملتی جلتی روایت ہندوستان میں بھی ہے ۔ بچوں، عورتوں اور بڑوں کا اس حوالے سے جذباتی تعلق اور کامیابی سے مینار بنا پانے پہ خوشی کا اظہار محض ثقافت سے تعلق کی کہانی نہیں سناتا، بلکہ انسانی تجربات میں سے اعلیٰ جذبات اور تسکین کے بالاتر مصادر کا مابعدالطبیعاتی ہونا ہی بتاتا ہے ۔

The Hour of Lynching ... بھارت میں گاؤ رکھشا کے نام پہ مسلم کشی

(تصویر بشکریہ بی بی سی ویب سائٹ)

شرلے ابراہام اور امیت مدھیشیا نامی دو بھارتی نوجوانوں کی بنائی اس ڈاکیومینٹری "دی آور آف لنچنگ"سے مذہبی نفرت کے گرد گھومتی بھارتی سیاست، مسلمانوں کی حالت زار، جدید و قدیم کی کشمکش میں ڈولتی اور متزلزل مسلم نوجوان آبادی، ماضی قریب میں مذاہب سے بیزاری کی عالمی لہر کے نتیجے میں سوشلسٹ پارٹیوں اور نظریات کی طرف جھکاؤ ۔۔۔سب آشکارا ہو جاتا ہے ۔

ایک نوجوان دیہاتی مسلمان بھارتی حکمران پارٹی بی جے پی کے لاٹھیالوں اور تلوار بردار غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ایک گائے اسمگل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جبکہ بی جے پی کے غنڈے گائے امی کی حفاظت کا دینی فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ بی جے پی کا مقامی ایم پی اے اور کونسلر ٹائپ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ، جبکہ راکبر خان نامی مسمل نوجوان کی بیوہ، جوان بچی اور چھوٹے نوعمر بچوں کی حالت زار ۔۔۔سب اس مختصر ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا ہے۔۔بنانے والے بھی ہندو ہیں ، غالباً یہ نوجوان کنہیا کمار جیسے یونیورسٹی سوشلسٹوں سے متاثر ہیں۔ 
درج ذیل لنک پہ ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے ۔

اتوار، 10 مارچ، 2019

مارچ میں عورت مارچ

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ابا جی بچپن لڑکپن میں ناراض ہوتے تو بعض اوقات دنوں تک وہ غصے اور میں ڈر سے بات نہ کرتا ، لیکن باجی (والدہ) ناراض ہو جاتیں تو نیند نہ آتی، معافی تلافی کر کے ہی سکون آتا ، تو بھائی ہمارے تو دل پہ عورت کا سکہ چلتا ہے، یہ موزوں والی بیبیاں بے چاری اپنے تئیں جس "جہاد فیمینزم" پہ نکلی ہیں، یہ قطعی کوئی نئی بات نہیں ، بس بات اتنی سی ہے کہ الگ طرح کی زبان میں کمپوز کی گئی یک سطری عبارتیں انہیں "عام عورت" کے طور پہ پیش کر کے ہمارے معاشرتی دھارے میں دھارے کے رخ بہتے عامی کو مزید کنفیوز اور مائل بہ "مساوات" کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ وہ دوست جو ان "مجاہدات" اور ان کے ہینڈلرز کو اس کمپین میں "جائیداد کے حق" اور "تعلیم کے موقع" جیسے "جائز نعرے" استعمال کرنے کی تلقین کر رہے ہیں، ہمیں ان کی نیت پہ قطعی کوئی شک نہیں ، البتہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ انہیں پوری بصیرت سے یہ جان لینا چاہیے کہ اس گروہ کا مقصد خواتین کے حقوق وغیرہ نہیں ہیں، ان کا مقصد گھر کے قلعے کو مسمار کرنا ہے، گھر نام کا یہ قلعہ ابھی تک کسی نہ کسی حد تک موجود ہے، گہ کہ اس کی موجودہ استعداد و کارکردگی محدود ہے، مگر یہ ابھی کھڑا ہے، روایت سے جڑت اور خدائی سکیم میں مرد اور عورت کے درمیان تعلق کی آماجگاہ، جہاں سے آئیڈیلز مثل روح کی پھونکے جاتے ہیں ، دودھ میں پلائے جاتے ہیں، لقموں کے ساتھ خون کا حصہ بنائے جاتے ہیں ، حرام حلال کا درس ملتا ہے، اچھے برے کی تمیز سکھائی جاتی ہے، عدل اور ظلم کا فرق سکھایا جاتا ہے، الہی اور شیطانی طرز حیات کا فرق کسی نہ کسی حد تک شعور کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس قلعے کو اباحیت سے فتح کرنے کی کوشش کی گئی، جس نے بنیادیں کمزور ترین کر دی ہیں ، مگر ابھی مسمار نہیں ہوا، ہاں اس طرح کے مظاہرے اور ایسی عبارتیں اور ان پہ ہمارے "عام آدمی"، جو یہ بھی سمجھتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور چیزوں کو "خوب سمجھتا" ہے، کا اندر ہی اندر اور گاہے اظہار کے ساتھ خوش ہونا یہ بتاتا ہے کہ جسم کی روح کو جسم کے خلاف احتجاج و بیزاری پہ قائل کر کے کوچہ و بازار میں لا کھڑا کیا ہے
کتنی ہی احادیث رسولﷺ ہیں ، جن میں گھر کو بندے کا ایمان بچانے والا ٹول اور راحت کدہ اور دنیا و آخرت کی خیر کا مرکز بتایا گیا ہے، یہ ظالم ہم سے ہمارے گھر چھییننا چاہتے ہیں ، ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں ، عزت ماب و عفت ماب گروہ کو اپنے بھائیوں بیٹوں اور خاوندوں کے خلاف کھڑا کر کے
نصیحت بڑے لوگوں کا کام ہے ، انہیں ہی زیبا ہے ، میں تو محمدیوں میں سے ایک عام آدمی ہوں، جسے پورے شعور اور بصیرت سے قطعی یقین ہے کہ گھر ایک ہی صورت میں بچیں گے ، ورنہ سیلابِ بلا کس کس کا در نہ اکھاڑے گا، یہ شبِ سیاہ کون کون سے سورج آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی انہیں اوجھل نہ کرے گی، یہ سرخ ہوا کس کس قتل گاہ کا پتہ نہ دے گی اور ہم بس دیکھتے ہی رہیں گے، سنتے ہی رہیں گے، ہل بھی نہ پائیں گے ــــ اور بچنے کا وہ رستہ محمد ﷺ کا ہی رستہ ہے، محبت اخلاق اور اخلاص کا رستہ ـــــــ گھر محبت سے بنتے ہیں، وقت دینے بنتے ہیں ، محبت کا پودا روز آبیاری چاہتا ہے، صرف نصیحتوں کے ڈھیر اور ٹائم ٹیبل کے مطابق خاندان کو اپنی مرضی کا پابند دیکھنے کی مشینی انا کی خواہش محمدﷺ کا طریقہ نہیں، عائشہ و خدیجہ و فاطمہ و زینب رضی اللہ عنہما سے پیغمبر آفندی علیہ الصلوۃ والسلام کا برتاؤ، اٹھنا بیٹھنا، وقت دینا، ناز اٹھانا ، تعلیم کرنا اور اس سب کے ساتھ ، اس سب کے ذیعے اللہ، آخرت اور حقیقت سے متعلق راست فکری و عملی پہ ابھارنا، قائل و فاعل کرنا
اس کا کوئی نعم البدل نہیں ، سکول کا ناظرہ، قاری صاحب کی یاد کروای گئی سورتیں، دن میں درجن بھر نصیحتیں، اس کا نعم البدل نہیں ہیں
تھوڑے کو بہت جانیے ، اپنا حساب ہم خود کر سکتے ہیں ، چاہیں تو
یہ عرضداشت ان لوگوں کے لیے نہیں ، جو اسے حقوق اور آزادی کا معاملہ بتاتے ہیں، ان میں سے بہت سوں کو ہم نے سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک میں پڑھتے پڑھاتے دیکھا ہے اور ان کے "فیمینزم" سے بخوبی واقف ہیں
نہ ہی ان کے لیے، جو اسے دل سے "انسانیت" کا تقاضا سمھجتے ہیں ، ان کے لیے ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں بصیرت عطا فرمائے
فلک شیر

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

کرنیں ایک ہی مشعل کی : محمدﷺ

"کرنیں ایک ہی مشعل کی" کے نام سے ایک سیریز شروع کر رہا ہوں بتوفیق الٰہی ، جس میں امت کے کچھ بڑے لوگوں کا مختصر تعارف پیش کیا جائے گا۔ اصل میں یہ ایک عربی کتاب کا ترجمہ نما ترجمانی ہے ۔اللہ تعالیٰ شرف قبول بنائے اور اسے امت اور میرے لیے دنیا و آخرت میں مفید بنائے ۔ آغاز آج آقا و مولا ، حبیب رب العالمین، سید المرسلین ، محمد ﷺ کے ذکرِ خوش خصال سے :


النبیﷺ


وہ اللہ کے رسول اور ہمارے سردار ہیں ، ـــــــ ان کا اسم گرامی ہے "محمد" ۔
   والد کا نام عبداللہ تھا ـــــ جناب عبداللہ کے والد عبدالمطلب   تھے ــــــ عبدالمطلب بیٹے تھے ہاشم کے ــــــ ہاشم کے والد عبد مناف تھے ـــــــ مناف کے والد قصی اور قصی   کے کلا ب ـــ کلاب اولاد تھے مرۃ کی اور مرۃ پسر تھے کعب کے ــــــ کعب اولاد تھے لؤی کی اور لؤی بیٹے تھے غالب کے ــــــ غالب اولاد تھے فہر کے اور فہر تھے بیٹے مالک کے ــــــ مالک اولاد تھے نضر کے اور نضر بیٹے تھے کنانہ کے ـــــــ کنانہ پسر ہوئے خزیمہ کے اور خزیمہ اولاد ہوئے مدرکہ کے ــــــ مدرکہ صاحبزادے تھے الیاس کے اور الیاس بیٹے تھے مضر کے ــــــــ مضر اولاد تھے نزار کی اور نزار بیٹے تھے معد کے ـــــــ اور معد اولاد تھے عدنان کے ۔
آپ  ﷺربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوئے  اور سال تھا "ہاتھیوں والا"۔
آپ ﷺکو بنو سعد کی حلیمہ نے دودھ پلایا ــــــ پیدائش سے پہلے ہی   والد دنیا سے تشریف لے  جا چکے تھے ــــــ اور والدہ بھی  چھ برس کی عمر میں  وفات پا گئیں۔
پھر آپ ﷺکی کفالت آپ ﷺکے دادا عبدالطلب نے کی ــــــــ اور ان کی وفات کے بعد چچا ابوطالب نے ۔
آپﷺ  پچیس برس کے ہوئے ، تو خویلد کی بیٹی خدیجہ سے شادی فرمائی ــــــــ چالیس برس کی عمر کو پہنچے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ﷺ کو سب جہانوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا مقرر فرما دیا ، یعنی نبی اور رسول کی عظیم ذمہ داری سے سرفراز فرمایا۔
جب آپ ﷺ اکیاون برس کے ہوئے ، تو آپ ﷺ کو  بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کے لیے لے جایا گیا ـــــــ اور پانچ نمازیں فرض کی گئیں ــــــ   تریپن برس کو پہنچے تو ربیع الاول کے  ایک سوموار کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی  اور دوسرے سوموار مدینہ میں داخل  ہوئے۔
آپ کی سات اولادیں ہوئیں : قاسم ، عبداللہ  ،ابراہیم ، زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ  رضی اللہ عنہم
آپﷺ کے معجزات شمار  سے  باہر ہیں : ان میں سے سب سے عظیم تو قرآن ہے، پھر چاند کا دو ٹکڑے ہونا، انگلیوں سے پانی کے چشموں کا پھوٹ پڑنا اور اس کی علاوہ بھی بہت سے دوسرے تھے
آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تھا اور کمر پہ مہر نبوت تھی، جو آپﷺ کا وصف بیان کرتی تھی: نہ ان سے پہلے کوئی ا ن جیسا دیکھا گیا، نہ بعد میں
اور حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سچ فرمایا:
ومثلک لم ترقط عینی ــــــــــــومثلک لم تلد النساء
میری آنکھ نے تیرے جیسا کوئی دیکھا ہی نہیں  ـــــــــــــ اور تیری مثل کسی ماں نے جنا ہی نہیں
ہجرت کے دسویں برس، جب آپﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ برس تھی، ربیع الاول کی دس راتیں گزر چکی تھیں اور سوموار ہی کا د ن تھا ــــ جب آپ ﷺ نے وفات پائی  اور مومنوں کی ماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں تدفین ہوئی۔


بدھ، 24 جنوری، 2018

قرآن سے تعلق


آج کا ملحد بھی قرآن کو اساطیر الاولین کہتا ہے اور عہد قدیم کا ملحد بھی یہی کہتا تھا.... قرآن اور جدید اردو شاعری کے نمونے اس پہ شاہد ہیں... بے شک قرآن اللہ رب العزت کی ذات، صفات اور حکم و نظام کو سمجھنے اور ماننے کی شاہ کلید ہے... سو کفر و الحاد کے بڑھتے اٹھتے طوفان کو اس معجزہ ہی کی مدد سے مثلِ خس و خاشاک بٹھایا اور واپسی کا رستہ دکھایا جا سکتا ہے...تعلیم القرآن اور تذکیر بالقرآن کو اپنی روزانہ ذاتی، جماعتی اور خاندانی روٹین میں جگہ دینا ہر مومن و مسلم پہ لازم ہے... آئیے اپنے گھر سے شروع کرتے ہیں.... ان شاءاللہ
ذاتی طور پر :
روزانہ ایک ربع......تلاوت
دو رکوع......... تلاوت مع ترجمہ
خاندان کے ساتھ :
ایک رکوع..... ترجمہ و مختصر تفسیر (نصاب طے کر لیا جائے)
جماعتی زندگی :
ایک رکوع...... ترجمہ و تفسیر (تحریکی و دعوتی و فلاحی و کاروباری و سرکاری و غیر سرکاری دفاتر)
اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور اسے ہماری دنیا و آخرت کو سنوارنے والا بنا دے... بے شک وہی ولی التوفیق ہے
فلک شیر چیمہ، چوبیس جنوری 2018، علی پور چٹھہ


منگل، 16 جنوری، 2018

وقت اور تحاریک اسلامی کے کارکنان

وقت کیسے گزارا جائے ـــــــ وقت کیسے کاٹا جائے ـــــــ وقت کیسے kill کیا جائے ــــــ یہ جملے داعی اور تحاریک ہائے اسلامی کے کارکنان کے منہ سے کیسے نکل سکتے ہیں ـــــــــ یہ وقت ہی تو ان کا اصل سرمایہ ہے ـــــــــ افراد سازی کے لیے ـــــــ قرآن سے تعلق جوڑنے کے لیے ــــــــــ اس میں غور و فکر اور تدبر کے لیے ــــــــ دعوت دین کے لیے ـــــــــ اقامت دین کے لیے ــــــــــــ مسلمانوں کو درپیش بڑے چھوٹے مسائل کے لیے جان کھپانے کے لیے ـــــــــــ داعی اور اقامت دین کے کسی کارکن کا دن اللہ کے رسول ﷺ کی نقل کرتے ہوئے دین کے لیے جدوجہد کرتے گزرنا چاہیے ـــــــــــ اور رات کا کچھ حصہ اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے ــــــــــ اسے پاس کرنے کے لیے وقت ملتا ہی کون سا ہے ــــــــــ جب کہ اسے تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے مسجد کی طرف جانے کی لپک لگی ہوتی ہے ــــــــــ اپنے بیمار بھائی کی عیادت کے لیے جانا ہوتا ہے ــــــــــ کسی ضرورت مند بھائی کی حاجت برآری کے لیے پہنچنا ہوتا ہے ـــــــــــ مظلوم کی نصرت اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لیے کوشش کرنا ہوتی ہے ـــــــــــ اپنے اہل و عیال کے لیے رزق حلال کی کوشش کرنا ہوتی ہے ـــــــــــــ انہیں آگ سے بچانے کے لیے تربیت اور تحریض کے کڑے سے گزارنا ہوتا ہے ــــــــــ وقت اس کے لیے ضائع کرنے کی جنس ہو ہی نہیں سکتی ـــــــــــ سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر diversions اس کے لیے محض حصولِ مقصد کا ایک ٹول ہوتا ہے، اور انہیں وہ اتنی ہی اہمیت دیتاہے ، جتنی دی جانی چاہیے ـــــــــــ ہر دس منٹ بعد اس کا ہتھ فیس بک کو ریفریش کر کے دیکھنے کے لیے بے تاب نہیں ہوتا ــــــــ ہر شام اس کا وقت گھنٹوں کے حساب سے ٹی وی سکرین کی نظر نہیں ہوتا ــــــــــ میدان دعوت و جہاد کے وہ شہسوار ہم نے حال ہی میں دیکھے سنے ہیں ، جو فارغ وقت ملتے ہی قرآن کھول کر اپنے مالک کا کلام پڑھنے اور اس پہ غورو فکر کرنے میں مشغول ہو جاتے تھے ـــــــــــ انہیں سوشل میڈیا لائکس، کمنٹس اور ریٹویٹتس کی حقیقت کا اندازہ تھا ـــــــــــ وہ اسے استعمال کرتے بھی تھے، تو ضرورت کے مطابق ـــــــــــ ان کا اوڑھنا بچھونا، مرنا جینا اس پہ اور اس کے لیے نہیں ہوتا تھا ــــــــــــ وہ شاید جانتے تھے، کہ جب آپ افکار و صور کے جنگل میں ہمہ دم بسر کرتے ہیں ، تو منکرات کو روکنے کا جذبہ آہستہ آہستہ سرد پڑتا ہے، "برداشت" کی عادت گہری ہوتی جاتی ہے ــــــــــــــ اللہ کی کتاب کھولت کسلمندی محسوس ہوتی ہے اور چہروں کی کتاب کھولتے ایک گونہ فرحت ــــــــــ بیمار یا پریشان بھائی کی عیادت و نصرت کے لیے گھر سے نکنا دشوار ترین ، جبکہ سٹیٹس کاپی پیسٹ کرنا بڑی نیکی دکھائی دیتا ہے ــــــــــــ صالحین کی صحبت میں بیٹھ کر دل کی رگڑ مانجھ بس "ایسے ہی سا" کام اور سکرین پہ آ رہے لائیو درس کا تیسوان حصہ سن کر ماشاءاللہ کا تبصرہ کافی محسوس ہوتاہے ــــــــــ 
جلد وہ دن آنے والا ہے
جب لوگ اپنی عمر کی گھڑیاں عملِ نافع کے کے بغیر گزارنے پہ نادم ہوں گے
یاد رکھو
بے شک وقت گزر جاتا ہے 
اور یہ گھڑیاں ضائع ہو جاتی ہیں
سو، داعی کا وقت اس کی دولت ہے اور اس کے مالک کے اسے قریب کرنا کا ذریعہ بھی ــــــــــــــــ شیطان کہیں اسے دھوکے میں نہ ڈال دےــــــــــــ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کے لیے قبول فرما لے، زندہ بھی اسلام پہ رکھے اور موت بھی ایمان و اسلام کی بہترین حالت میں عطا فرمائے 
آمین