اتوار، 13 اگست، 2017

جماعت الدعوۃ سیاست میں : کیوں، کب اور کیسے


بدھ، 2 اگست، 2017

افغانستان میں امریکہ کی نئی حکمت عملی

نائن الیون کے بعد افغانستان پہ امریکہ کی چڑھائی کو ڈیڑھ دہائی ہونے کو آئی ہے، مگر جنگ زدہ افغانستان کے باسیوں کو چین کا سانس لینا نصیب نہیں ہو رہا۔ طالبان خود کو افغانستا ن کے جائز حکمران گردانتے ہیں اور بہت سے صوبوں میں ان کی غیر اعلانیہ حکومت بھی موجود ہے۔ دوسری طرف شمالی اتحاد ، سابق مجاہدین رہنماؤں 
اور کچھ پختون سرداروں، جنہیں امریکہ کی مدد حاصل ہے، کابل کے تخت پہ بیٹھے ہیں۔ گو کہ یہ حکومت اکثر و بیشتر کابل تک ہی محدود دکھائی دیتی ہے۔ 
دو سابق امریکی صدور ، بش جونیر اور بارک اوباما کے ادوار میں اس حوالے سے مختلف سٹریٹجیز اپنائی جا تی رہیں، جو کہ ابھی تک افگانستان میں امن لانے میں قریب قریب ناکام رہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے ۔ ماضی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کے کچھ ادوار قطر وغیرہ میں ہوئے ہیں ۔ حال ہی میں چین اور روس بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کے خواہشمند نظر آئے ہیں۔ اس پیچیدہ صورتحال میں نومنتخب امریکی صدر کی افغانستان سے متعلق پالیسی کا سب کو انتظار ہے۔ الجزیرہ کی اس مختصر رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کے سامنے تین آپشنز ہیں۔
 امن عمل کو آگے بڑھانا
 فوجیوں کی تعداد آگے بڑھانا
افغانستان سے فوری انخلاء
دیکھنا یہ ہے، کہ افغان حکومت، طالبان اور ہمسایہ طاقتوں کے درمیان یہ مشکل گیم کیا رخ اختیار کرتی ہے۔
فلک شیر

جمعہ، 28 جولائی، 2017

شہباز شریف، شجرکاری اور ہم



چونکہ ہمارے اگلے متوقع وزیراعظم جناب میاں محمد شہباز شریف ہیں... تو ابھی سے ان کے استقبال کی تیاری کے سلسلہ

میں پوسٹوں کا آغاز کیا جا رہا ہے... تمام احباب،خواتین و حضرات و دیگر جات جوش و خروش سے مہم میں شرکت فرمائیں

😃

تفنن برطرف... پچھلے سال علی پور چٹھہ سے وزیر آباد جانے والے رستے پر سرکار کی طرف سے شجرکاری کی گئی

تھی.... آج عرصہ بعد انہیں دیکھا تو وہ جو کبھی ہوا کے جھونکے سے بھی گر جاتے تھے... آج قد آدم سے اوپر چلے گئے

ہیں... سنا ہے یہ سڑک ایک نو متعین اے سی نے اپنے گاؤں کے لیے بنوائی ہے... شاید درخت بھی اسی نے لگوائے ہوں....

بہرحال جس کسی نے بھی لگوائے ہوں... بتانا یہ مقصود ہے کہ تھوڑی سی محنت دہائیوں صدیوں تک کے لیے صدقہ جاریہ

اور خیر کا سبب بن جاتی ہے

اگست آن پہنچا ہے، بھائی نور الہدی شاہین کی گرین ٹیم کی مہم نے سوشل میڈیا پہ سب کو شجرکاری کا شوق دلایا.... اب 

بلاگر رمضان رفیق صاحب نے بھی بالخصوص اگست کے حوالے سے مہم شروع کی ہے ــــــــــــ آئیے خود کو اس خالص 

خوشی کا حقدار بنائیں.....حقیقی مسرت کے حصول کا وہ تجربہ جو کروڑوں لگا کر بھی نہیں ملتی....وہ مسرت جو اگلے 

اگست میں ان پودوں کو جوان دیکھ کر آپ کو ہو گی ان شاءاللہ.... اللہ تعالٰی توفیق دیں اور قبول کریں 

کراچی سے ہمارے مرشد، کمال کے شاعر اور بلاگر محمد احمد بھائی کے تازہ شعر ہیں، کہ :


دھوپ ہے تو کیسا شکوہ، آپ خود سایہ بنیں
بے غرض کرتے ہیں سب سرو و سمن حُسنِ سلوک 


مسکرائیں، رنج بانٹیں، اور شجر کاری کریں
چاہتے ہیں آپ سے کوہ و دمن حُسنِ سُلُوک

آپ بھی احمدؔ فقط ناصح نہ بنیے، کیجے کچھ!
ہر ادا حُسنِ ادا ہو، ہر سخن حُسنِ سُلُوک



منگل، 25 جولائی، 2017

مجھے میرے جنگل میں جانے دو

مجھے جنگل سے یہ کہہ کر شہر لایا گیا.... کہ وہاں روشنیاں ہیں... پکے رستے ہیں.... کتابیں ہیں... ان کتابوں میں کہانیاں 

ہیں... پریوں کی.....وہاں جنگل کا قانون نہیں.... عدل و انصاف کا بول بالا ہے....وہاں صاف مقطر پانی نلوں میں بہتا ہے اور 

طبیب کسی بھی دکھ درد کی دوا کرنے ہر وقت حاضر و موجود ہوتے ہیں... مخالف قبیلہ آن کی آن میں میرے گھر بار اجاڑ 

کے نہ رکھ پائے گا.... یہاں جنگلی جانوروں کا ہر وقت کا خوف اور گھاس پھونس کے گھروندے...... 

پر تم نے مجھے دیا کیا..... وہی خوف، بے امنی، اندھیرے..... میرا جنگل تم نے مجھ سے چھین لیا اور میری زندگی سے تم 

نے خوشی کے وعدے پر خوشی ہی نکال پھینکی ... وہ مسرت جو نیم برہنہ، ادھ بھرے پیٹ، مگر آزاد حیات میں تھی.... اس 

کے تم قاتل ہو..... تم نے مجنوں کو صحرا اور مچھلی کو پانی سے باہر نکال کر اسے رنگا رنگ نیون سائنز اور شیشے کے 

ڈبوں میں بند کر کے کیا بھلا کیا...... تم نے مجھ سے میری تازہ ہوا اور قناعت کی خو چھین لی..... میری سچی مسکراہٹ 

کہاں گئی.... اب تو میں نفرت اور محبت بھی خود پہ طاری کرتا ہوں.... ہاں ہوس ہے کہ خالص ہے تمہارے ان سیمنٹ سریے 

کے جنگلوں میں..... لطافت اور نرمی کا یہاں کیا کام.... تم نے مجھے کہاں لا پھینکا، جہاں تتلی اور گلہری کو دیکھتے رہنے 

جیسی لطیف تفریح پاگل پن ہے.... 

تمہیں شاید پتا ہی نہیں. کہ تم نے مجھے اشرف سے اسفل بنا ڈالا..... 

مجھے اپنے جنگل میں واپس جانے دو..... یہ روشنیاں،رستے اور ریاستیں.... تمہاری ہیں.... تم رکھو.... مجھے اپنے جنگل 

میں واپس جانے دو اور ان نوعمروں کی طرح ایک بار کھلکھلا کر ہنسنے دو....... 


فلک شیر


منگل، 11 اپریل، 2017

آپ کیوں لکھتے ہیں؟؟


مقصدیت ادیب کے لیے بنیادی تحریک بنتی ہے یا محض اپنے اندر چھپے متن کا وفور اسے مجبور کرتا ہے، کہ وہ لکھے اور اس پہ کوئی خاص رنگ نہ چھڑکے، اس کا بازو نہ مروڑے، یہ بحث پتا نہیں کب سے ہو رہی ہے اور امید ہے، جب تک لکھا جاتا رہے گا، یہ جاری رہے گی۔مجھے تو اس مختصر اظہاریے میں بلا کم و کاست اس حوالہ سے اپنا مشاہدہ اور نکتہ نظر بیان کرنا ہے۔

بچپن سے میں نے جو کچھ پڑھا، عمرو عیار سے لے کر ایکسٹو تک، نعیم اور عبداللہ کی تگ و تاز  سے لے کر راشد منہاس شہید کی قربانی تک، مسلکی لٹریچر سے سید مودودی تک، منڈیلا سے لے کر شیخ الحدیث ذکریا کی سوانح تک، البریلویہ سے لے کر بریلویوں کے جواب تک، خوابوں کی سائنسی حقیقت سے لے کر خواب دکھاتے شفیق الرحمان تک، کیمیا گر سے لے دریائے پیڈرا کے کنارے بیٹھ کر روتی دوشیزہ تک، توفیق رفعت سے لے کر ولی اور عباس تابش سے لے کر میر تک، خروج و ارجاء اور تسنن و تجدد سے تصوف اور طریقت تک۔اس سب میں چند ہی چیزیں مشترک تھیں ، جو ہر متن کی تہ میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتی تھیں ۔

1)تخلیقیت کی عطا شدہ صلاحیت کا اظہار۔مادہ خلق، جو القاء و الہام سے عبارت ہے ۔یہ سب کو عطا نہیں ہوتا، خواہ کوئی کسی نظریے سے کس قدر متاثر کیوں نہ ہو اور کسی منظر ، واقعے سے کسی مقدر اثر قبول کیوں نہ کرے۔ یہ جس کو ملتا ہے، وہی اس قابل ہوتا ہے ، کہ اسے چمکا لے ، اسے عدم سے وجود میں لانا میرے خیال میں کسی کے بس میں نہیں ۔ آپ شاعر، ادیب یا تخلیق کار ہیں یا نہیں ہیں ، درمیانی کوئی صورت نہیں ہوتی۔تو میرے خیال میں کوئی شخص تب ہی لکھ پاتا ہے، جب وہ اس مادہ سے کچھ نہ کچھ حصہ منطقہ غیب سے پاتا ہے ، جیسا کہ بہت سے ادباء و شعراء نے اس حوالہ سے اپنے تجربات اور خیالات کو پیش کیا ہے ۔ 

2)مقصدیت، یعنی کسی نظریے سے متاثر ہونا ۔جو حق سمجھنا، اس کی تبلیغ ۔ اس حوالے سے کس قدر لکھا گیا ہے ، ہم سب بخوبی واقف ہیں ۔ تمام مذہبی ، اصلاحی ، انقلابی لٹریچر اسی قبیل سے ہے۔ بلکہ وہ تمام لتریچر بھی ، جو یہ دعوا رکھتا ہے، کہ وہ محض تفریح کے لیے لکھا گیا ہے اور کسی خاص نظریہ کا پرچارک نہیں ہے ، وہ بھی کسی نہ کسی نظریہ حیات کے تابع ہی ہوتا ہے اور اس کا بے نظریہ بتایا جانا محض ایک غلط فہمی ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں ۔ سو ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے دونوں مدارس فکر دراصل ایک نطریے کے پیروکار ہیں ۔ایک کے ہاں مقصدیت کسی مذہب، نظریہ اخلاق یا روحانی تجربہ و اظہار سے پھوٹتی ہے ، تو دوسرے کے ہاں زندگی کے مادی پہلو کو زیادہ اہمیت دینے کا نظریہ طاقتور ہوتا ہے۔ ویسے صرف شہرت کا حصول بھی ایک مقصد ہے اور ایک نظریہ حیات کے تابع ہے اور اس کے لیے لکھنے والے بھی کم نہیں ہیں۔

3)مالی یافت۔ایک وقت تھا، میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، کہ کوئی شخص اپنا لفط بیچ سکتا ہے۔ لفظ ایک اونچی علامت تھی میرے ذہن میں ، جس کی حرمت اور تحریک پہ جان دی جا سکتی ہے ۔ جو سامنے کی حقیقتوں سے ماورا ، اعلیٰ اورخالص و لطیف حقیقتوں کے در کھولتا ہے ۔پھر پتہ چلا کہ روٹی کے دولقمے بہت بڑی حقیقت ہیں، جو آنکھ بند کرنے پہ مجبور بھی کر سکتے ہیں ۔پھر سمجھ آئی ہے، کہ یہ تو پیشہ بھی ہے ، سو حق لکھ کر بیچا بھی سکتا ہے، گو کم ہی کا حق بکتا ہے ، زیادہ اس سے "حق" ہی وصول کرتے ہیں۔ خیر لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتا ہے اور جب یہ ہوتا ہے، تو پھر بہت دفعہ قلم صرف وہ نہیں لکھتا، جو لکھنے والا کا ایمان و مقصد اور نظریہ ہوتا ہے ۔

4)معلوم انسانی مسائل، تعلقات، خدشات سے لے کر غیب کی پر کشش یا ڈرانے والے مظاہر کے درمیان پیش قدمی یا رجعت کا مسلسل سفر۔ لتریچر اسی سے عبارت ہے۔ 

تو کوئی کیوں لکھتا ہے ، مجھے لگتا ہے، کہ انہی مندرجہ بالا تحاریک کی انگیخت سے لکھا جاتا ہے۔اگر ہر تحریر کے پیچھے موجود مقاصد کی وین ڈایا گرام بنائی جائے ، تو ہر تحریر میں ان کی فیصد مختلف ہو گی، لیکن ہو گی یہی۔ یہ سب وجوہات بالعموم ان لوگوں کے لکھنے کی ہیں، کہ لکھنا جن کا مسئلہ ہے ۔

فلک شیر


ہفتہ، 31 دسمبر، 2016

2017... اہداف و عزائم

نئے سال کے موقع پر اکثر لوگ اپنی ذات اور زندگی کو بہتر ڈھنگ پہ لانے کے لیے خود سے کچھ وعدے کرتے ہیں اور کچھ اہداف متعین کرتے ہیں. یہ وعدے اور اہداف ذات، صحت، تعلقات، پیشہ ورانہ مہارت وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں.

یہ عمل کس حد تک مفید ہے، میرے خیال میں اس سوال کا جواب ان اہداف کا تعین کرنے والے شخص کی افتاد طبع میں چھپا ہوتا ہے ــــــــــ مستقل مزاجی سے کام کرنے والے لوگ اس سے یقیناً فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ اس صفت سے محروم لوگ کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا پاتے.

بہر حال اس سال کے حوالے سے کچھ ارادے میں نے بھی باندھے ہیں اور اللہ تعالٰی کے فضل سے امید ہے کہ وہ اس کے لیے مدد فرمائیں گے ان شاءاللہ.

میں ان وعدوں اور اہداف کو کچھ حصوں میں تقسیم کر کے بیان کرنا چاہتا ہوں :

1)علمی و تعلیمی گوشہ:
ان شاءاللہ روزانہ قرآن مجید کے کم از کم تین رکوع ترجمہ کے ساتھ تلاوت کی کوشش... فجر کے بعد
ایک کتاب پیشہ ورانہ مہارت بڑھانے کے لیے... پانچ صفحات
ایک ہلکی پھلکی کتاب... ادب، سفرنامہ، سوانح.... دس صفحات
جو ڈگری جاری ہے.... اس کے لیے دو گھنٹے مطالعہ
لیپ ٹاپ کو صرف اس کی جگہ پر استعمال کرنا.... بستر پر نہیں... کیونکہ اس طرح یہ کتاب کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے نہیں

تعلقات کا گوشہ :
ہفتہ میں ایک گھنٹہ نکال کر... اتوار مناسب دن ہے... خالہ، پھپھو، ماموں اور نانا نانی سے فون پر بات
نہ کہنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی ڈرل
بچوں کو اختتام ہفتہ بالضرور دو تین گھنٹے کے لیے آؤٹنگ پہ لے جانا
والدین کے ساتھ کم از کم آدھا گھنٹہ کی روزانہ نشست
مہینہ بھر میں کم از کم ایک دفعہ کسی اصلاحی مجلس میں شرکت

سوشل میڈیا :
فون سے ایک آدھ کے سوا تمام سوشل میڈیا ایس ان انسٹال کرنا... فیس بک لازمی طور پر... کیونکہ نارمل اور مفید زندگی گزارنے میں یہ بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے
آدھ ایک گھنٹہ لیپ ٹاپ پہ سوشل میڈیا کا استعمال محدود کرنا
سوشل میڈیا کے استعمال میں مقصدیت کو بہرحال مدنظر رکھنا

صحت :
ہفتہ میں کم از کم تین دن ایک گھنٹہ کی واک یا ورزش
پانی کافی مقدار میں پینا
چائے کی بجائے متبادل مشروبات... دودھ، قہوہ

اہداف:
عربی، فارسی اور انگریزی کی روایتی گرامر کو گہرائی سے سیکھنے کی کوشش
اپنی ڈگری ریسرچ کے لیے ایسا موضوع تلاش کرنا، جو واقعی کمیونٹی کے مسائل کا حل پیش کر سکے
اجتماعیت کی برکات کے حصول لیے کسی ایسی جماعت میں شمولیت، جو سلف کے فہم اسلام سے روشنی لیتی ہو اور عصر حاضر میں حکمت و بصیرت کے ساتھ انفرادی و اجتماعی اصلاح کے ذریعے انسانیت کی خیر کی متلاشی ہو
تین ماہ بعد اس کا فالو اپ

تو یہ تھے وہ اہداف، جو میں نے طے کیے ہیں اور توفیق تو اللہ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے اور میں اسی پہ توکل کرتا ہوں اور مدد مانگتا ہوں

بدھ، 28 دسمبر، 2016

پاکستان، عرب اور ایران

زیر نظر واقعہ جناب مختار مسعود نے اپنی کتاب "لوح ایام" کے صفحہ انسٹھ اور ساٹھ پہ درج کیا ہے۔ کسی فرقہ وارانہ یا سیاسی مقصد کے لیے پوسٹ نہیں کیا جا رہا۔ رائے قائم کرنے کے لیے ذہن میں رہے کہ اس سے پہلے ایران بھی پینسٹھ کی جنگ میں ہماری مدد کر چکا تھا، البتہ شہنشاہ ایران کی امریکہ کے ساتھ محبت اور اندھی طاقت اور دولت کا خمار اس قدر بڑھ چکا تھا کہ ماڑے موٹے بھائی یا دوست اب اس کی ترجیح نہ رہے تھے۔گو کہ سعودی بھی امریکہ کے ساتھ تھے اور دولت بھی وہاں وافرآ رہی تھی یا کم از کم آنے والی تھی ، لیکن ان کا رویہ یکسر مختلف تھا، اسی کی نشاندہی اس واقعہ میں ہوتی ہے۔یہ تاریخی واقع ہماری خارجہ پالیسی کے سفر کی ایک جھلک  ہے ۔ تفصیلی تجزیے کے لیے بہرحال تصویر کو بڑے پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ 
فلک شیر

جناب مختار مسعود لکھتے ہیں:

"اکتوبر 1973ء میں تیل کا عالمی بحران آیا۔ قیمتوں میں جو مدت سے ایک ہی سطح پر ٹھہری ہوئی تھیں، یکایک پانچ گنا اضافہ ہو گیا۔ تیل درآمد کرنے والے ممالک زرمبادلہ کی کمی کا شکار ہو گئے اور تیل برآمد کرنے والے ممالک دیکھتے ہی دیکھتے بے حدوحساب دولت کے مالک بن گئے۔ تیل درآمد کرنے والے تمام ممالک میں سوچ بچار کے لیے کمیٹیاں اور بھاگ دوڑ کے لیے وفود تشکیل دیے گئے میں بھی ایک پاکستانی وفد میں شامل ہو کر این آئی او سی (ایران کے تیل کی پیداوار کی سرکاری کمپنی) کے صدر دفتر پہنچ گیا۔ ہمیں تھوڑی سی دیر کے لیے خواہ مخواہ انتظار کرایا گیا، حالانکہ ملاقات کا وقت پہلے سے طے تھااور ہمارے وفد کے رئیس پاکستان کے وزیر پٹرولیم تھے۔ ہم چئیرمین کے کمرے میں پہنچے۔ انہوں نے اس بیزاری کے ساتھ ہمیں وصول کیا، جیسے وہ اہل سوال سے ملاقاتیں کر کے عاجز آ چکے ہوں۔

منوچہر اقبال کا نیلا سوٹ گھنے سفید لہریا بالوں کی شان دوبالا کر رہا تھا،مگر چوڑے چکلے سپاٹ چہرے کی خاموشی،آنکھیں چرانے کی کوشش اور ہاتھ ملانے کے میکانکی اندازنے ہمیں مایوس کیاصوفہ پر بیٹھنے کے بعد خاموشی کا ایک دور شروع ہوا۔صبرآزما اور تکلیف دہ۔یہ دور چند ثانیہ کا ہونے کے باوجود ہمیں بڑا طویل اور ناگوار لگا۔ہم اس خیال میں رہے کہ ھسبِ دستور منوچہر اقبال کچھ رسمی کلمات فارسی یا فرانسیسی میں کہیں گے، پھر سرکاری مترجم ان کا انگریزی میں ترجمہ کرے گا ، تب جا کر ہمارے وزیر کو لب کشائی کا موقع ملے گا۔مگر میزبان نے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا۔اسے اس کی پرواہ ہی نہ تھی کہ کون آیا ہے اور کیوں آیا ہے۔وہ اپنی ذات میں مگن اور خیالات میں گم تھا۔ہماری وہ حکمت عملی جو وفد نے رات گئے کراچی کے ہوائی اڈہ پر مڈوے ہوٹل کے وی آئی پی روم میں وضع کی تھی،اس میں ایسی غیر متوقع بے مروتی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ہم نے طے کیا تھا کہ اگر بات چیت دفتر میں غیر رسمی انداز میں ہوئی تو ہمارے وزیر گفتگو میں مناسب وقت پر مطلب کی بات چھیڑ کر وفد کے ایک رکن کی طرف دیکھیں گے جو بات کو آگے بڑھائے گا۔اور اگر ملاقات کانفرنس روم میں مائیکروفون کے وسیلہ اور ٹیلیویژن کی روشنی میں ہوتی ہے تو ہمارے وفد کے قائد اپنی باری آنے پر ایک ٹائپ شدہ صفحہ کی وہ تقریر پڑھ دیں گے جو ایک رکن نے لکھ کر دی تھی اور جس کا دوبار ریہرسل بھی انہیں کرایا تھا۔

جب مہر خاموشی توڑنے پر منوچہر اقبال کو آمادہ نہ پایا تو میں نےآہستہ سے حیات محمد خاں شیر پاؤ سے کہا، آپ ہی گفتگو کا آغاز کریں۔انہوں نے بات شروع کرنے کی بجائے لکھی ہوئی تقریر جیب سے نکالی اور صوفہ پر بیٹھے بیٹھے اور دو لمبے آدمیوں کے درمیان بھنچے ہوئے اپنے منہ ہی منہ میں پڑھ دی۔ ا س کے بعد منوچہر نے دو جملے ادا کیےاور مترجم نے ایک سالم تقریر جھاڑ ڈالی۔جملہ غالباً یہ تھا کہ میری وہ تقریر جو میں آج کل تیل کے گاہکوں کے سامنے کرتا ہوں اسے دہرا دو۔لب لباب یہ تھا کہ یک اناروصدبیمار۔تیل خریدنے کے لیے اتنے وفود آ رہے ہیں کہ ہم ان سب سے مل بھی نہیں سکتے۔ (گویا یہ آپ پر کیا کم احسان ہے کہ ہم نے آپ کو شرفِ باریابی بخشا ہے )۔ہمیں تیل کا کوٹا مقرر کرنے میں دقت پیش آ رہی ہے۔(یعنی آپ برادری اور ہمسائیگی اور پسماندگی اور تیسری دنیا کی باتیں کر کے ہماری الجھن اور اپنی مشکلات میں کیوں اضافہ کر رہے ہیں)۔مسئلہ قیمت کا نہیں مقدار کا ہے۔گاہک ہر قیمت پر لینے کو تیار ہے۔(زر مبادلہ کا مسئلہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے)۔بہرحال آپ اپنی ضروریات کے بارے میں یادداشت لکھ کر میرے عملہ کو دے دیں اور کوئی بات پوچھنا چاہیں تو وہ بھی ان سے پوچھ لیں۔وہ کمیٹی روم میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم اشارہسمجھ گئے اور اجازت چاہی۔ واپسی کے وقت میزبان نے وفد کے دو افراد سے ہاتھ ملایا۔وفد کے دوسرے اراکین نے اس حجر اسود کو دور سے ہی بوسہ دیا اور کمرے سے باہر نکل آئے ،جہاں حبس تھا نہ گھٹن اور نہ ہی خاموشی۔ اچھی خاصی چہل پہل تھی۔

ہم کمیٹی روم میں پہنچے تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ہمارے سفارت خانہ کا ایک ترجمان کہنے لگا۔آپ کا دورہ بے حد کامیاب رہا۔ یہاں لوگ ہفتوں کے انتظار کے باوجود چئیرمین این آئی او سی تک نہیں پہنچ سکتے اور انہوں نے آپ کا بذات خود استقبال کیا اور جتنا وقت آپ کو دیا ہے اتنا پچھلے چھ ہفتہ میں کسی اور وفد کو نصیب نہیں ہوا۔ کسی نے طنزاً اور کسی نے مروت کے مارے اس سفارت کار کی ہاں میں ہاں ملائی اور دوسرے ہی دن تہران سے رخصت ہو گئے۔

اس دورے میں ہمارے وفد نے مشرقِ وسطٰی کے تیل برآمد کرنے والے تین چار ملکوں کا سفر کیا۔ ایک ملک کے بادشاہ نے وفد سے ملاقات کی اور کہا،آپ تیل اور اس کی قیمت کی فکر نہ کریں،بلکہ پاکستان کی فکر کریں جو بہت بیش قیمت ہے۔آپ اپنی ضروریات میرے وزیر تیل کو بتا دیںوہ پوری کر دی جائیں گی۔البتہ میرا پیغام وزیراعظم بوتو (بھٹو) تک پہنچا دیں کہ وہ پاکستان کی حفاظت کرنے کے فرض سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہوں۔ یہ ملک اسلام دشمن قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے اور وہ اسے کمزور کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے"

(لوح ایام،مختار مسعود،صفحہ 59-61)