منگل، 11 اپریل، 2017
آپ کیوں لکھتے ہیں؟؟
ہفتہ، 31 دسمبر، 2016
2017... اہداف و عزائم
نئے سال کے موقع پر اکثر لوگ اپنی ذات اور زندگی کو بہتر ڈھنگ پہ لانے کے لیے خود سے کچھ وعدے کرتے ہیں اور کچھ اہداف متعین کرتے ہیں. یہ وعدے اور اہداف ذات، صحت، تعلقات، پیشہ ورانہ مہارت وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں.
یہ عمل کس حد تک مفید ہے، میرے خیال میں اس سوال کا جواب ان اہداف کا تعین کرنے والے شخص کی افتاد طبع میں چھپا ہوتا ہے ــــــــــ مستقل مزاجی سے کام کرنے والے لوگ اس سے یقیناً فائدہ اٹھاتے ہیں، جبکہ اس صفت سے محروم لوگ کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھا پاتے.
بہر حال اس سال کے حوالے سے کچھ ارادے میں نے بھی باندھے ہیں اور اللہ تعالٰی کے فضل سے امید ہے کہ وہ اس کے لیے مدد فرمائیں گے ان شاءاللہ.
میں ان وعدوں اور اہداف کو کچھ حصوں میں تقسیم کر کے بیان کرنا چاہتا ہوں :
1)علمی و تعلیمی گوشہ:
ان شاءاللہ روزانہ قرآن مجید کے کم از کم تین رکوع ترجمہ کے ساتھ تلاوت کی کوشش... فجر کے بعد
ایک کتاب پیشہ ورانہ مہارت بڑھانے کے لیے... پانچ صفحات
ایک ہلکی پھلکی کتاب... ادب، سفرنامہ، سوانح.... دس صفحات
جو ڈگری جاری ہے.... اس کے لیے دو گھنٹے مطالعہ
لیپ ٹاپ کو صرف اس کی جگہ پر استعمال کرنا.... بستر پر نہیں... کیونکہ اس طرح یہ کتاب کی جگہ لے لیتا ہے اور وہ یہ ہے نہیں
تعلقات کا گوشہ :
ہفتہ میں ایک گھنٹہ نکال کر... اتوار مناسب دن ہے... خالہ، پھپھو، ماموں اور نانا نانی سے فون پر بات
نہ کہنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی ڈرل
بچوں کو اختتام ہفتہ بالضرور دو تین گھنٹے کے لیے آؤٹنگ پہ لے جانا
والدین کے ساتھ کم از کم آدھا گھنٹہ کی روزانہ نشست
مہینہ بھر میں کم از کم ایک دفعہ کسی اصلاحی مجلس میں شرکت
سوشل میڈیا :
فون سے ایک آدھ کے سوا تمام سوشل میڈیا ایس ان انسٹال کرنا... فیس بک لازمی طور پر... کیونکہ نارمل اور مفید زندگی گزارنے میں یہ بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے
آدھ ایک گھنٹہ لیپ ٹاپ پہ سوشل میڈیا کا استعمال محدود کرنا
سوشل میڈیا کے استعمال میں مقصدیت کو بہرحال مدنظر رکھنا
صحت :
ہفتہ میں کم از کم تین دن ایک گھنٹہ کی واک یا ورزش
پانی کافی مقدار میں پینا
چائے کی بجائے متبادل مشروبات... دودھ، قہوہ
اہداف:
عربی، فارسی اور انگریزی کی روایتی گرامر کو گہرائی سے سیکھنے کی کوشش
اپنی ڈگری ریسرچ کے لیے ایسا موضوع تلاش کرنا، جو واقعی کمیونٹی کے مسائل کا حل پیش کر سکے
اجتماعیت کی برکات کے حصول لیے کسی ایسی جماعت میں شمولیت، جو سلف کے فہم اسلام سے روشنی لیتی ہو اور عصر حاضر میں حکمت و بصیرت کے ساتھ انفرادی و اجتماعی اصلاح کے ذریعے انسانیت کی خیر کی متلاشی ہو
تین ماہ بعد اس کا فالو اپ
تو یہ تھے وہ اہداف، جو میں نے طے کیے ہیں اور توفیق تو اللہ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے اور میں اسی پہ توکل کرتا ہوں اور مدد مانگتا ہوں
بدھ، 28 دسمبر، 2016
پاکستان، عرب اور ایران
پیر، 3 اکتوبر، 2016
اوریا صاحب! کیا پنجابی ہونا قابل شرم ہے؟؟
کیہ جاناں میں کون....
نہ میں صافی ، نہ میں صوفی..... نہ میں جاناں رفض نصب نوں
نہ میں شامی ، نہ میں کوفی..... نہ میں جاناں قدر کسب نوں
نہ میں سبق فقہ دا پڑھیا........ نہ میں سانگ مذہب دا بھریا
نہ میں جاناں شرق غرب نوں ..... نہ میں جاناں عجم عرب نوں
نہ میں جھوٹا ، نہ میں سچا ..... نہ میں پختہ، نہ میں کچا
چھمک نروئی ، نہ میں ڈچا..... نہ میں جاناں نام نسب نوں
بس ورد الف دا کیتی جاواں.... پچھے میم دے نیتی جاواں
نہ میں جاناں زیراں زبراں.... نہ میں جاناں ضم نصب نوں
فلک شیر
3 اکتوبر 2016
گیارہ بجے دن
منگل، 16 اگست، 2016
کیا یہ صرف کارٹون ہیں؟؟
اتوار، 14 اگست، 2016
صور من حیات الصحابہ اور سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ
ہمارے ننھیال کے گاؤں کی چھوٹی سی مسجد میں ایک الماری تھی... ایک دن اس میں سے پرانے مذہبی مجلے اور رسالے ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک عربی کتاب ہاتھ لگی.... عربی کی جو تھوڑی بہت شد بد تھی... اس کے سہارے پہلے چند صفحات پڑھنے کی کوشش کی... پتا چلا کہ کتاب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوانح پہ مشتمل ہے.... مسجد میں اکیلا بیٹھا تھا ــــــــ پہلا باب سعید بن عامر جمحی رضی اللہ عنہ کے تذکار پہ مشتمل تھا ــــــــ پتا نہیں کتنی دیر میں وہاں بیٹھا روتا رہا.... کیا آدمی تھے سعید.... کیا مشکل مثالیں چھوڑ گئے... ہم اکیسویں صدی کے خواہشات کے اسیر ردی لوگ اور کہاں یہ ہیرے موتی.....
پھر سوچا کہ اس کتاب کا ترجمہ کروں... دو تین اصحاب کے تذکار ترجمہ کیے.... پھر کسی نے بتایا کہ اس کا ترجمہ شیخ محمود احمد غضنفر مرحوم کر چکے ہیں.... بعد میں شیخ سے بھی تفصیلی ملاقاتیں رہیں.... مگر اس کتاب کی پہلی قراءت میرے لیے آج بھی سرمایہ ہے.... اور روز حشر بھی ان شاءاللہ ہو گی.....
سوچتا ہوں کہ صرف تبرکاً اس کا ترجمہ کروں..... واللہ الموفق
اب اس کے پہلے باب کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں :
حمص والوں کا وفد لوٹا تو امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے لیے ایک ہزار دینار کی تھیلی بھجوائی..... کیونکہ حمص والوں نے اپنے اس گورنر کے فقر کی داستان امیر المومنین کو سنا دی تھی..
سعید رضی اللہ عنہ کو یہ دینار پہنچے تو فرمایا... انا للہ و انا الیہ راجعون
اہلیہ نے پوچھا... کیا ہوا؟... کیا امیرالمومنین وفات پا گئے؟
سعید نے کہا.... اس سے بھی بڑا معاملہ درپیش ہے
دوبارہ سوال کیا.... کیا مسلمانوں پر کوئی بڑی مصیبت آ پڑی ہے؟
فرمایا.... اس سے بھی بڑی مصیبت آ پڑی ہے
پوچھنے لگیں.... اس سے بڑی کیا مصیبت ہے... ہوا کیا ہے؟
فرمانے لگے.... دنیا میرے گھر آ گھسی ہے کہ میری آخرت کو برباد کر دے.... اور ہمیں فتنہ میں مبتلا کر دے..
اہلیہ کو دیناروں کی خبر نہ تھی.... کہنے لگیں کی دنیا گھس آئی ہے تو نکال باہر کیجیے
سعید بن عامر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا... کیا اس سلسلے میں میری مدد کرو گی؟
انہوں نے کہا.... جی ضرور
سعید رضی اللہ عنہ نے دیناروں کی تھیلی ان کے حوالے کی.... کہ اسے مسلمانوں کے فقراء میں تقسیم کر دیجیے
فلک شیر