کل ہمارے محترم شاہد اعوان صاحب نے اوریا مقبول جان
صاحب کی ایک ویڈیو کی طرف توجہ دلائی، جس میں اوریا صاحب فرما رہے تھے کہ انہیں
اپنے پنجابی ہونے پہ شرمندگی ہوتی ہے۔ویڈیو شئیر کرنے والے صاحب ایک لسانی جماعت
کے ہمدرد تھے۔اس پہ جو پریشان سے خیالات پیش کیے ــــــــــــوہ پیش خدمت ہیں:
جن صاحب نے یہ ویڈیو شئیر کی ہے، اسی
نسل کے سید مودودی کو بالآخر نظر آیا تھا کہ اسلام کے لیے کام کرنے کے لیے جو
حرارت درکار ہے، آج وہ پنجاب اور لاہور کے سوا کہیں دستیاب نہیں اور اقبال جیسا
نابغہ وہیں ہے ــــــــــــ
اور جس زمانے کی کہانی اوریا صاحب سنا رہے ہیں ، اس زمانے میں پنجاب میں مذہب اور دنیا
کے ٹھیکیدار یہی گروہ تھے اور جن سپاہیوں نے اٹک سے چکوال اور رحیم یار خان تک انگریز
کے جھنڈے تلے جان دی تھی ، انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ انگریز عادل حاکم ہے ـــــــــــــــ
روٹی سے مجبور وہ بے چارہ کسان زادہ اپنی ماں کی دعاؤں کے سائے میں انگریز بہادر کی
فوج کی وردی پہن لیتا تھا ـــــــــــــــ
اسے گالی دینا مجھے اچھا نہیں لگتا ـــــــــــــ
آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی شعور ان میں نہیں تھا اتنا ـــــــــــ
لیکن آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر دس بیس سال بعد کوئی افغانستان یا کسی اور خطے
سے یہاں آن دھمکتا تھا ، کبھی سکھ آ جاتے تھے ــــــــــــ
تو اس کے لیے ہر کوئی حاکم ہوتا تھا ، مذہب اس سلسلہ میں کوئی بڑا معاملہ نہیں تھا
ــــــــــــــ
یہ دین اسلام کی خاطر لڑی جانے والی جنگیں کم اور اقتدار کی کشمکش زیادہ ہوتی تھی ـــــــــــــــ
اسی کے تسلسل میں انگریزوں کے لڑنے ولے سپاہی کو دیکھیں۔
جہاں تک
مخدوموں ، ٹوانوں اور چودھریوں کی بات ہے ، ان کی صفائی دینے کی ضرورت ہمیں نہیں
ہے اور نہ ہی انہیں ــــــــــــ
وہ آج بھی حاکم ہیں اور کل بھی تھے ـــــــــــ
ان کی منزل کھوٹی کرنے کے لیے ہم جیسے کئی لہو میں نہا گئے، معاش کا چراغ گل کروایا
ــــــــ بچوں کا مستقبل برباد
کیا ـــــــ
صلاحیتیں برباد کیں ـــــــــ
خواب دیکھتے لوگ، آدرش کی خاطر سب کچھ تج دیتے لوگ ـــــــ
لیکن وہ آج بھی وہیں ہیں ــــــــــــ
آپ انہیں غدار کہیں یا بیسواؤں کی اولاد ، انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا ۔
یو پی سی پی کے علماء نے واقعی انگریز کے خلاف جنگ لڑی
تھی ـــــــــــــــــ
اس میں البتہ کوئی شک نہیں ، لیکن اس کے بعد وہیں کے مدارس نے حالات سے سمجھوتہ کر
لیا، اور ملکہ عالیہ اور ریذیڈنٹ بہادر کی شان میں قصائد اور استقبالیے پیش کیے حالات سے مجبور ہو کر ـــــــــــــــ
ہم انہیں گالی کیسے دے سکتے ہیں ، وہ بڑے لوگ تھے ، حالات سے مجبور ہو گئے۔
اوریا صاحب سے
مجھے گلہ ہے کہ کسی خالص علمی اور عملی کام کی طرف یہ نوجوان طبقے، بالخصوص دینی
رجحان رکھنے والوں کو موڑ نہیں سکے اور بس ایک جذباتیت سی جذباتیت ہے ـــــــــ
بظاہر سطحی سی۔
خطے اپنا رنگ
بدلتے ہیں ــــــــــــــــــ
پنجابی ہونے پہ شرم کیوں آتی ہے انہیں ــــــــــــــــــ
اپنی کمزوریوں کو مٹی کے سر نہیں ڈالنا چاہیے
فلک شیر
حاصل مطالعہ۔۔۔ اپنی کمزوریوں کو مٹی کے سر نہیں ڈالنا چاہیے۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںیہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںہم باز آئے صاحب! کبھی کبھی تو ایسی "بے سروپائیاں" سامنے آ جاتی ہیں، کہ طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ اصولی طور پر تو ان کو نظر انداز کیا جانا چاہئے مگر کیا کریں ایسے کتنے ہی کنکھجورے ہیں جو دماغ میں ٹیسیں پیدا کر دیتے ہیں۔ پتہ نہیں کیسی کیسی تفریقات ذہنوں میں ٹھونسی جا رہی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںقلم کا منصب یہ تو نہیں! اور جسے اللہ نے قلم عطا کیا ہے یہاں اس کی ذمہ داریاں تو عام آدمی سے کہیں زیادہ ہیں۔ اور وہاں محاسبہ بھی اتنا ہی کڑا ہو گا۔
کیا امت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے؟ وقت کا تقاضا تو یہ ہے (بلکہ ہر وقت کا تقاضا رہا ہے) کہ امت کو اس کی اصل پر جمع کیا جائے۔ علاقائیت، زبان، رنگ، نسل، خاندانی تفاخر کے جو بُت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توڑے تھے، انہی کو پھر خدا منوایا جا رہا ہے۔
اللہ کریم ہم سب کو اور خاص طور پر اہلِ دانش کو راست فکری سے نوازے۔ آمین۔
آمین
جواب دیںحذف کریںاوریا صاحب کو اس کا جواب دینا چاہیے