آٹھویں درویش نے پہلے درویش
سے کہا........اتنی طول طویل خرافات سُن کر سر میں درد سا ہونے لگا ہے...... پہلے مجھے
اونٹ مارکہ بیڑی پلا ،کہ حواس قائم ہوں.......تاکہ پھر اپنی دلدوز داستاں سنا کر تیرے
بھی سر میں درد لگا سکوں......پہلے درویش نے دوسرے درویش کی جیب سے بیڑی نکال کے پیش
کی.....دو کش لگانے کے بعد یہ بزرگ یوں گویا ہوا...........
بچپن تھا.......نیرنگی زمانہ
دیکھیے کہ خبر ہی نہ ہوئی اور جوانی آن ٹپکی......ایک عفیفہ کہ نام اُس کا اب ذہن میں
نہیں........البتہ اس کے والد گرامی شہرکے سب بڑے کھمبوں پہ رات کو لالٹین باندھ کر
ثواب دارین کمایا کرتے تھے، تاکہ اللہ کے وہ بندے جو رات کو دوسروں کے گھروں میں روزی
روٹی کے سلسلہ میں نقب لگاتے ہیں ، اُن کو مشکل نہ ہو(لوگ ایویں بکواس کرتے ہیں، کہ
ڈاکو ان کو باقاعدہ حصہ دیا کرتے تھے)........اور دن میں سود پہ پیسہ دے کر خدمت خلق
کیا کرتے تھے.......ایسے لوگ اب جہاں میں کہاں ملیں گے.........
تو ایک روز اس عفیفہ نے مجھے
رستہ میں گزرتے ہوئے کہا، اے بھلے آدمی! مدت سے تو مجھے روزن دیوار سے دیکھا کرتا ہے..........کیوں
نہ تو مستقل ہمارے گھر میں ہی منتقل ہو جائے.......والد گرامی ایک عدد ملازم کی تلاش
میں ہیں ، جو اُن کے ساتھ مل کر دن رات اللہ کی مخلوق کی خدمت بجا لائے..........میں
نے باقاعدہ بغلیں بجائیں......اور ساڑھے تین درم کے بتاشے لے کر وہیں غربا میں تقسیم
کی........اتفاق سے اس وقت ہم دونوں ہی وہیں تھے................
گھر تو اپنا نام کا تھا........سو
ہمسایے کا ہی ایک جوڑا چھت سے اٹھایا...اور اُس عفیفہ کے گھر جا وارد ہوئے..........پہنچتے
ہی اُس خضر صورت بزرگ نے میرا ماتھا چوما اور لالٹینوں میں تیل ڈالنے پر مامور کیا..............
چند ہی روز میں ہمیں یقین ہو
گیا، کہ یہ عفیفہ ہم سے محض فلرٹ کر رہی ہے..........سو اُس شب ہم نے اُس بزرگ کے گھر
کو خیر باد کہہ دیا.......دل دنیا سے اوب سا گیا تھا.....دنیا کے مال سے نفرت ہو چلی
تھی........اسی لیے سوچا ، کیوں نہ اس بزرگ کو بھی اس آزار سے نکالتے چلیں......سو
چلتے چلتے اُس کی تجوری کا بوجھ ہلکا کیا اور شہر سے باہر نکل پڑا..........دیکھا تو
صحرا میں ایک جگہ کچھ لوگ الاؤ کے گرد رقص کرتے تھے اور نامانوس زبان میں عجب نغمے
گاتے تھے.......اُن کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پیالے تھے.......جن میں نجانے کوئی مشروب
تھا...........صحرا، رات، رقص،الاؤ، مشروب...........میں نے بزرگ کی دولت کو کمر سے
کس کے باندھا اور اُس حلقہ میں شامل ہوا..........تھوڑی دیر میں ان میں سے ایک نے میرے
ہاتھ میں وہی جام پکڑایا.......خمار میں تھا......ایک ہی لمحہ میں سارا جام چڑھا گیا........رقص
کرتے کرتے مجھے لگا، کہ آسماں کے تارے میرے قریب ہی کہیں آ گئے ہوں......بلکہ ایک دو
کو تو ہاتھ بڑھا کر میں نے پکڑنا چاہا......اسی دوران میں معرفت کی دنیا میں اتر گیا........اور
پھر میری آنکھ اگلی صبح ہی کھلی..........فوراً کمر کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو خبر ہوئی
کہ وہ بھی میرے درویش بھائی تھے......اور مجھے دنیا کے علائق سے ہٹا دینے پہ مامور
تھے...........حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھے...............
تیسرا درویش: اے پیر جواں سال........ابھی
سے سر دو اسپرین والی درد سے بھر گیا ہے.......اپنی داستان کو کل رات تک اٹھا.........کہ
آج رات مجھے کل رات کی تھکن اتارنا ہے........وہ والی تھکن جو پرسوں رات چوتھے درویش
کے چوتھے عشق کا قصہ سنتے سنتے ہوئی تھی.........
پانچواں درویش: بھلے لوگو! مدت
ہوئی ملائی کا برف کھائے........تم میں سے کوئی شہر جائے اور کسی نیک دل تاجر کو سفوفِ
دلپذیر سنگھا کرصبح تک کے لیے میٹھی نیند سلا کر اس کی دعائیں لے.........اور ملائی
کا برف اُس کے برفاب خانے سے لائے.........کیا کہا تھا گنجوی خراسانی نے
اک آگ لگی میری سینے میں
ہائے ظالم نے کیا مصرعہ کہا..........تیر
ہی تو مار ڈالا سینے میں...........
چھٹا درویش: تیر سے یاد آیا
.........درویش بھائیو! تمہیں بھی کچھ یاد آیا.........؟؟
ایک تھا تیر انداز ، ایک تھی
کمان اور ایک ہی تھا تیر.............
اُس مردِ نیک نہاد نے کمان کا
چلہ کھینچا........تیر چڑھایا...........اور پھر.........
ساتواں درویش: پھر کیا ہوا؟
آٹھواں درویش:پھر خاک ہونا تھا...........دن
چڑھنے کو آ گیا ہے اور ابھی ملائی کا برف نہیں آیا......تف ہے ایسی درویشی پہ.....................
پہلا درویش: بھائیو! دنیا فانی
ہے اور آنی جانی ہے............کیوں خواہشات دنیا میں اتنا مگن ہوتے ہو.........عبرت
سرائے دہر میں ہر منظر سے عبرت پکڑو................ہمارے ہمسائے ہی میں ایک خوبرو
، فرشتہ صفت عطار کا لونڈا دوائیں بیچتا تھا.......کل میں اس سے دوا لینے گیا تو بھلا
چنگا تھا......حیرت ہے کہ آج شام میں اس کوچے میں گیا تو اسے دیکھ کر میری سٹی گم ہو
گئی........کچھ دیر میں اپنی سٹی ڈھونڈتا رہا........جب مل گئی تو کیا دیکھتا ہوں........کہ
وہ بدستور بھلا چنگا ہی تھا.........کیا زمانہ آ گیا ......کیا زمانہ آ گیا............
آٹھواں درویش: رات تمام ہوئی...........مگر
نہ میری داستانِ درد تم نے سماعت کی اور نہ خس خانہ برفاب کا وہ جگر پارہ آیا......جسے
کہیں تو شہنشاہِ اثمارکے رس میں ملا کے پیش کرتے ہیں تو کہیں مرکب اسود یعنی موسوم
بہ چکلیت میں ملا کے نوش جاں کرتے ہیں .........کہیں رس بھری کارس اس میں ملاتے ہیں
تو کہیں میوہ ہائے خشک کا انبار اس کے تودہ پہ استادہ کرتے ہیں...........ہائے نواب
اجہل الزماں کے دیوان خانہ کی رونق !
وائے ملک یسارالدولہ کے زنان
خانہ کی رونق!!..........استغفراللہ! یہ کیا ہفوات بک گئے ہم............
ہم کہنا چاہ رہے تھے ملک یسارالدولہ
کے نعمت خانہ کی رونق یہی ملائی کا برف ہی تو ہوتی تھی.......قسما قسم ذائقوں اور فواکہات
میں ملوث و ملفف کر کے نقرئی طشتریوں میں ادھ کھلے چاند کی رات ...............
اے چشم فلک! دہائی ہے............دہائی
ساتواں درویش: صاحبو! دیکھتا
ہوں کہ لذائذ جسمانی و نفسانی کے بہت دلدادہ ہوتے جاتے ہو......نفس کا غلام اور تربوز
کا بیج ایک ہی خاصیت رکھتے ہیں.....کچھ عرصہ قبل تک تو یہ خاصیت مجھے یاد تھی....اب
بھولنے لگا ہوں......ایک تجویز ہے کہ ہم آٹھوں بھائی آج رات نکلیں اور گلیوں کوچوں
میں آوارگی کریں......نئے لوگ، نئی کہانیاں،نئی خوشبوئیں، نیا کوتوال اور نئے سپاہی.......کوتوالی
کے سابقہ ملازم تو ہم آٹھوں بھائیوں کی جان کے درپے ہی ہو گئے تھے.........
قرارداد منظور ہوتی ہے.......
آدھی رات کے قریب کا وقت ہے،
چاند ڈیڑھ نیزے پہ اور سورج بستر میں پڑا ہے........تارے دون کی لے رہے ہیں اور ستارے
خرگوش کی نیند سے حظ اٹھاتے ہیں.....ایسے میں یہ قلندر صفت مردان باصفا شہر کی سیر
کو نکلتے ہیں........
اگلی شب: تکیے پہ آٹھوں درویش
ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈال کے حال کھیل رہے ہیں........تزکیہ نفس اور اسرار معرفت
کی یہ مجلس.......اللہ اللہ.......
پہلا دریش کہ عمر اور قفس کے
تجربے میں سب سے فائق تھا.....یوں گویا ہوا.....اے چمنستان معرفت کی بلبلو! کل رات
کی داستاں جلد سناؤ، کہ عقل جلا مانگتی ہے ......
ذرا یہ نمدہ تو ادھر کھسکانا.......
آٹھواں درویش: صاحبو! کل رات
جو میں تکیے سے نکل شہر میں وارد و صادر ہوا.....تو بیڑی جلانے کو لمحہ بھر ایک گلی
کی نکڑ پہ رکا........ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گدھا ایک پختہ عمر کو کان سے پکڑ کے کھینچے
جا رہا تھا......دم بخود، انگشت بدنداں.....فہم نماند.....یا خدا یہ کیا ہو رہا اس
شہر میں......
تھوڑا آگے چلا تو ایک درویش
کو شرطوں کی وردی میں دیوار پھلانگ کر ایک تاجر کے گھر جاتے دیکھا........پوچھا ، اے
درویش بھائی تم تو بندی خانے میں تھے......کہنے لگا، چپ کر.......
میں چپ ہو رہا.......آگے چلا
تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑھیا غازہ و خم کاکل لگائے سجائے بیچ رستے کے تخت بچھائے
بیٹھی ہے اور ہر آنے جانے والے کو آخرت سے ڈرا رہی ہے.......
صاحبو! یہ دیکھ کر میری تابِ
مجال جواب دی گئی.......اور شہر سے صحرا کو نکل آیا......البتہ اتنا ضرور ہوا کہ نکلتے
نکلتے ایک بھاگتے ہوئے چور کی لنگوٹی ضرور لے آیا......شکر ہے وہ درویش بھائیوں میں
سے نہیں تھا...................اللہ بس باقی ہوس
ساتواں درویش: صاحبو! میں جب
شہر پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ امیر شہر کی سواری جاتی ہے.......خدام حشم جلو میں قطار
اندر قطار چلتے تھے......یہ دیکھ کرحصول خلعت شاہی کی پرانی خواہش میرے اندر عود کر
آئی اور میں نے آوازہ ہوس بلند کر دیا.......افسوس ہے اس نفس پہ........میں نے صدا
دی! اے امیر شہرتیری توصیف کو تملق بھی کمتر صنعت ہے اور تیری صورت کی مدح کو خود نظیفی
و اباابائی قصیدہ لکھ کر لائیں تو حق ادا نہ کر سکیں گے........شجاعت کا تذکرہ کروں
یا سخاوت کا...............ابھی یہ سب کہہ رہاتھا کہ امیر نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے
روک دیا ور کہا .........درویش لگتے ہو..........میں بھی کبھی درویش تھا........یہ
بتاؤ بستہ الف کے درویش ہو یا بستہ ی کے........میں حیران ہی تو رہ گیا........امیر
شہر نےمیری تلاشی کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پچھلے ہفتے جو ہار ہم نے شربت روح افزا پلا
کر فارس کے تاجر سے ہدیتاً وصول کیا تھا...........اُس کو دیکھ کر کہنے لگا........ایسی
رعایا مالک دوجہاں ہر ایک کوعنایت فرمائے.........کہ بادشاہ کی زیارت کو آویں تو ایسے
خوبصورت تحفے لے کر آویں.............ہم تیرا یہ ہدیہ قبول کرتے ہیں...........
سر پیٹنے کا مقام تھا........سو
خوب پیٹا.........جانب صحرا آئے اور سر میں مٹی ڈال کر رقص درویش کیا...........اور
اس شعر کی قوالی کیا کیے
درویشی بھی ہے عیاری، سلطانی
بھی ہے عیاری
چھٹا درویش: تکیے کے بھائیو!
مدت ہوئی میں بادیہ گردی کا اسیر ہوا.........اور شہروں کی بود و باش سے تائب......اور
صرف صحراؤں میں بھٹکے قافلوں کو مزید بھٹکا کر نان شبینہ کا انتظام کیا کرتا تھا......کل
جب آپ کی تجویز و قرارداد پہ شہر میں جا موجود ہوا.......تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک
مانوس شکل سرائے کی انتظارگاہ میں قہوے کے فنجان کے فنجان لنڈھا رہی ہے.......غور کیا
تو یہ اعلیٰ حضرت نادرکلوروی ثم بغدادی تھے...........ان کے ایک قافلے کو ایک دفعہ
بیچ صحرا کے اس فقیر نے دنیاوی مال و دولت کے دلدر سے چھرایا تھا..........
حضرت کی نظر مجھ پہ پڑی تو اپنے
چار ہٹے کٹے مریدوں سمیت فوراً آن ملے........انتہائی محبت سے ملے.......ان چاروں نے
بھی باری باری معانقہ کیا.......اس عمل میں ہماری تین پسلیاں مجروح ہوئیں اور باقی
مضروب........اسس کے بعد وہ مجھے باصرار اپنے حجرے میں لے گئے اور ان چاروں احباب کو
میرے ساتھ حال بے حال کھیلنے کا حکم دیا........انہوں نے تعجیل سے تعمیل کی............اس
سے آگے بیان میرے بس میں نہیں...........
بس یہی کہہ رہا ہوں تب سے ............
درویش کی موت آئے تو شہر کا
رخ کرتا ہے.............
پانچواں درویش: بھائیو! اب تم
سے کیا چھپاؤں، جب رات میں نے شہر کا قصد کیا تو مجھ پہ نیند کا غلبہ ہوا............اتنا
غلبہ اتنا غلبہ ہوا.......کہ میں چلتے چلتے رستے میں موجود ایک کٹیا میں پڑ کے سو رہا.......دن
چڑھے ہوش آئی.........تو واپس آ گیا........نادم ہوں .......معافی کا خواستگار ہوں........
ہاں اتنا ضرور ہے کہ رستے میں
ایک پان فروش کو چونا لگاتے دیکھا تو خود اس کو چونا لگا کر سکھایا کہ اصل میں چونا
کیسے لگاتے ہیں.........یہ جو ہندوستان کے خوشبو دار پتوں میں خوشبو کی لپٹیں مارتا
قوام آپ چبا رہے ہین...........یہ اسی مرد حق پرست کا ہی آپ بھائیوں کے لیےتحفہ تو
تھا............
چوتھا درویش: یہ شہر بھی عجیب
ہوتے ہیں............ایسے ایسے لوگ ان میں جا بستے ہیں .............جن کی جیبیں بھری
اور دل و دماغ خالی ہوتے ہیں............مدت سے میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا احقر
العباد قدس سرہ العزیز کے دروس ہائے فلسفہ سے اپنے علمی پیاس بجھایا کرتا ہوں..........آج
جو شہر کا رخ کیا تو ان کا مدرسہ سامنے آ گیا.....دل کی ضد کہ شیخ کی قدم بوسی کی جائے
اور ادھر سے آپ بھائیوں کے حکم کی بجا آوری.........سو میں نے ایک درمیانی راہ نکالی
اور سنیما میں لگی تازہ نمائشِ متحرک تصاویر(فلموں) کے اشتہار دیکھنے لگا........ان
میں سے ایک مجھے بہت بھایا.........نام کچھ یوں تھا ’’اندلس کے باغات میں لختئی رقص‘‘
بمعہ چہار ہزلیات از نواب مسؤل امبیٹھوی.......... :):):)
نصف درم خرچ کر میں وسطی طبقے
میں جا بیٹھا.........پردہ سیمیں پہ عجب مناظر تھے.....عجب .......
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی
، کہ برق خود مختار بعد از تبسم رخصت ہوئی........ہمیں وطن مالوف کی بہت یاد آئی.........جہاں
ایسی ہی برکات و فیوض رئیس سلطنت کے دم قدم سے جاری تھیں ..........صاحبو! اُن کانام
نامی تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے..............میں نے نعرہ مستانہ بلند کیا
......... تمام ناظرین وجد میں آ گئے اور رقص بسمل شروع کیا........موقع سے فائدہ اٹھاتے
ہوئے ہم نے ٹکٹیں ان کی جیبوں میں اور نقدی و ماکولات اپنے جبہ میں منتقل کرنا شروع
کیں........پھر اسی ہاؤ ہو میں سے نکلے........شہروالوں کی عاقبت ناندیشی پہ سخت تاسف
کرتے کرتے آپ بھائیوں کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا................
شک نہیں کہ کبوتر با کبوتر.........باز
بہ باز
باری تھی تیسرے درویش کی............لیکن
اس نے ہوشیار ریل مسافر کی طرح عین وقت پہ ایک ہزار رکعت نفل کی نیت کی.........تاکہ
مالِ مسروقہ شریفہ میں درویش بھائیوں کو شامل کرنے کی نوبت نہ آئے........
کیا وقت آ گیا.......کیسے لوگ
چہرہ زمین پہ آن بسے........اتنی حرص.........اتنا لالچ........الحفیظ و الامان......
دوسرے درویش کی ڈھنڈیا پڑی................تو
پتہ چلا کہ وہ پہلے درویش کی معیت میں پچھلی رات کا تمام مال غنیمت سمیٹ کر کب کے یاد
خدا میں مصروف ہونے کو پہاڑ کی کھوہ کا رخ کر چکے............
نفل پڑھتے درویش نے کمر کے پٹکے
کو اور زور سے باندھا اور سلام پھیرے بغیر ہی جانب مشرق برہنہ پا دوڑ لگا دی................
بقیہ پانچ درویشوں نے ایک دوسرے
کی داڑھیاں اور جبے ہاتھوں میں لیے اور حال کھیلنے لگے...........
وہ دن اور آج کادن
..............................سب درویش ویرانوں میں بستے ہیں.........ہاں کبھی کبھار
شہروں کا رخ کرتے ہیں تو براہ راست ایوانوں میں پہنچائے جاتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے
جاتے ہیں...........
چلتے ہو تو صحرا کو چلیے................
ماشا اللہ ابھی دو دن پہلے ہی قصہ باغ و بہار پھر سے پڑھی اور آج آپ کے بلاگ پر پھر سے عمدہ نثر پڑھنے کو ملی ۔ لکھتے رہئیے
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ ریاض شاہد صاحب۔۔۔۔حوصلہ افزائی کے لیے
حذف کریںاے! اے بھلے مانس! اے رہوار قلم کے شاہ سوار! کاہے کو درویشانِ پریشان کو مزید ہلکان کرتے ہو! جانتے بھی ہو کہ تلوار کا قلم کیا تو بھلے پھر سے بھلا چنگا ہو جائے پر اس موئے قلم کے گھائل کم کم مائل بہ جاں بری ہوتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںوے دسواں درویش کہ دو ساگروں کے بیچ، ریتا تھر کے عین بیچوں بیچ بیٹھ ریت کے گھروندے بناتا ہے، اس کو کیا کہا جائے! دور دیش کا درویش کیا جانے کس مٹی کا ہے کس جل کا ہے۔ پر یہ بھی کیا گھاٹ ہے کہ کوئی ہے تو سہی۔ نام میں باغ بغیچے سجانے سے بغچے میں پھول تو نہیں بھرتی، دھول ہی بھرتی ہے۔ ریتا تھر کی یہی تو راگنی ہے جو سب سے ہٹ کر ہے۔ سننے میں تو ایسا بھی کچھ بہت آتا ہے کہ اس خشک ناگر بے ساگر میں کم کم ہی کوئی جا کے جا بناتا ہے۔ سادھو، سنت، جوگی، درویش ناؤں کہاتا ہے پر اب کیا کہیں سادھو سنت برا مان جائیں گے پر کہنے کی کہہ ہی ڈالی جائے۔ من میں رہے گی تو اچلک لگی رہے گی۔
ایک سادھو وہ ہوتا ہے یہاں کہ خود کو پنچھی کہے تو وے کہتے ہیں نام تیرا اونٹ ہے اور خود کو اونٹ کہتے تو چوپائے کہتے ہیں یہ پنکھ اور چونچ کچھ اور ہی کتھا کہہ رہی ہے۔ وہ بے چارہ دونوں دھِروں کا دھتکارا مارا مارا اس ریگستان میں آ بسا تو اس کی گھر والی انڈے ریت میں ڈال، آپ بھاگ گئی کہ لے بھڑوے ان کو سے بھی بچوں کے دانے چاگے کا بھی کچھ کر، میں تو چلی!
کاہے کو کہلاتے ہو راہوارِ قلم کے شاہ سوار کہ وہ باپ کی بپتا اور ماں کی ممتا دونوں کو کیوں کر پورتا ہے۔ بھلے کہ بھی دیں تو دسوان درویش جان کو آئے گا۔ سو، یہاں جیب پر تالا ہی بھلا۔