جمعہ، 11 جولائی، 2014

ساز و مغنٌی ........ایک مکالمہ

مغنی نے گود میں لیے ساز کے تاروں کو سرسری چھیڑا ....... منہ بسورتے طفل کی سی صدا اُن میں سے برآمد ہوئی ........گویا ناراض ہوں.....اور رخصت کے طلب گار ہوں......مغنی مسکرایا اور سوال کیا .......
م:خفا کیوں ہو......تمہارا اور میرا کیا پردہ......کیا ہوا............بولو!
س:گاہے تمہاری انگلی مجھ پہ یوں پڑتی ہے.......جیسے ہجر کے بعد وصال میسر آنے والےباہم ملیں......اور گاہے یہی انگلیاں اجنبی لگتی ہیں.....کیوں؟
م: ارے بھئی تمہارا وہم ہے؟
س:تمہارے لیے تو میں محض تار کے چند ٹکڑوں کا مجموعہ ہوں.........آواز جس کے پہاڑ پچھم سے نکلتی اور تمہارے اُتر دکھن کو آسودہ کرتی ہے........ایک آلہ، جو بولتا ہے......ہنساتا ، رُلاتا اور رقص پہ آمادہ کرتا ہے........اوربس.......
م :ارے ارے نہیں.............تم تو سچ میں خفا ہونے لگے..........تم !............تو وہ ہو............دور والوں کوجو پاس بلاتا اور......پاس والوں کو دور لے جاتا ہے ........وادیوں، چراگاہوں، جھیلوں اور اونچی نیچی چھتوں والے مکانوں سے بہت دور ......آگے ، جہاں صرف خیال پہنچتا ہے........اُس سے بھی آگے، اُس چشمے تک......جہاں خود خیال جنم لیتا ہے .........تمنا کی وسعت کی خبر گاہے تم ہی دے پاتے ہو......کہ آفاق تک تمہاری رسائی ہے اور انفس کو آفاق کے رنگ میں تُم رنگ دیتے ہو.........ہمیشہ نہ سہی.........گاہ گاہ سہی........
س: تو پھر اکثریہ اجنبیت کیوں ..........لمس میں سچائی کیوں نہیں ؟.........کیوں؟..........باتیں تم بہت بناتے ہو .......اور گلا تمہارا بہت کھُلا ہے.........باتوں میں تم سے کون جیت پایاہے......مغنی جو ہوئے........
م:تمہارے بغیر مغنی ادھورا ہے........راگ کی شکل ابھارنا اُس اکیلے کے بس کی بات نہیں .........صرف گلے میں سوزنہیں ہوتا ......تمہاری تاروں سے بھی پھوٹتا ہے ، وہ مثل پھوار کے.....اور سنو، جادو ہاتھ میں نہیں .........تیرے وجود میں ہے ........تیرے وجود میں
س:میرے وجود میں؟ِ
م:تو اور کیا!.........تیرے وجود میں .........تمہارے اندر جو چھپا ہے.......اسے کون ڈھونڈ پایا ہے..........کن کن زمانوں کے راز .......کون کون سے مقامات کی سیر کی ہے تمہاری نواؤں نے........اور تیرے طفیل میں نے ایسے لمحے پائے ہیں .........کہ بولا جانے والا کوئی حرف بھی جن کا اظہار نہ کر پائے گا ..........خود کو سات سُروں تک محدود جانتے ہو تم .......اور نہیں جانتے کہ تم ہی تو ہو .........تم ہی !!
س: میں جانتا ہوں ........میں کیا ہوں .......کیا تھا .......اور آنے والے وقتوں میں کیا ہو کے رہوں گا ........جب میری آنکھیں بند ہوتی ہیں .......اور تمہاری انگلیوں میرے تاروں کو جھنجھوڑتی ہیں .......ایک ایسے سفر پہ میں نکلتا ہوں .........جہاں منزل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ........رستہ کہاں سے ہو گا ........کائنات کے وہ گوشے ، جہاں کسی مخلوق کی نگاہ کبھی نہ پڑی ہو گی .....اُن میں سے کتنے ہی میں نے ان اسفار میں دیکھے ہیں ......تم میرے پاس بیٹھتے ہو......لیکن کم ہی میرے خیال کی رو کے راہی بن پاتے ہو .........کم ہی ......قلق ہے........قلق رہے گا
م:ایک بات تو بتاؤ ........یہ محرومی میرے مقدر میں کیوں ہے.........پاس ہو تے ہوئے دور ہونے کی .........اور.............دور ہو کے پاس نہ ہوپانے کی ..........
س:یہ سوال تم اُس سے کرنا
م:کس سے؟
س:جس کا شعر تم اکثر الاپتے ہو
ج:ابو معین؟
س: ہاں ہاں وہی
م:ہاں ، شاید وہ مجھے بتا سکے .......کہ لفظ اُسے اپنی باگ پکڑاتے ہیں ، کہ جدھر چاہے اُن کے قافلے کو موڑے ............اور جب چاہے اُن سے دان لے .........
س: اور کیا !
م: تمہیں یقین ہے، وہ دے پائے گا ان سوالوں کے جواب؟؟
س: شاید ...............لیکن ..............مجھے لگتا ہے ............شہر سے دوری اور صحرا سے قربت .........نامعلوم کے سفر اور اَن سُنے راگوں کی تلاش............ان سب سے آگے ہے کہیں میرے اور تیرے سوال کا جواب .........شاید ...........شاید ابو معین نے اس سے آگے سفر کیا ہو .........
م:شاید..............شاید


7 تبصرے:

  1. میں نے آج دوپہر کو بھی اس پر تبصرہ کیا تھا۔ لیکن وہ شاید کہیں غائب ہوگیا ہے۔ بہت ہی عمدہ و اعلیٰ تحریر ہے چیمہ صاحب۔ ہم جیسے نوآموزوں کے لئے سیکھنے کا بہت سامان کرتی تحریر۔

    جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے
    جو ساز پہ گزری ہے وہ کس دل کو پتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. اتم بیتی تو وہ ہے مہا منشو! جو جیو پر بیتی ہے، اور جس سے انگلیوں کی پوروں پر سرگم دوڑا۔ تار آپ سے آپ تو نہیں بولتا۔ وے بولے گا تب جب کانپے گا اور کانپے گا تب جب انگلی اس کو چھیڑے گی۔ نہیں تو چپ ہی چپ ہے، ایک ان انت گھمبیر چپ! اس چپ کو کیا نام دو گے؟ شانتی؟ نہیں تو! تب؟ ست؟ نہیں، وہ بھی نہیں؟ تو؟ تو کیا اس کا کوئی نام نہیں، نہ تو اس کا کچھ ہونا ہے اور نہ اس کا نہ ہونا۔ بات بہت دور نکل گئی بالکے! ہاں گورو جی! پر بات پھر وہیں آ گئی جہاں سے چلی تھی۔ بات پہونچی اسی من بالک تک جس کی دھڑکن سے انگلی کانپی، پھر تار کانپا اور اور اور اور ۔۔۔ راگ اٹھا! کان پڑا پھر من تک پہونچا۔ ٹھیک کہا بالکے تو نے۔ لگتا ہے گیانی ہو گیا ہے تو۔ پر دیکھ! اس گیان کی تپش کو سہنا کڑا کام ہے! ہاں بہت کڑا، بہت ہی کڑا۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. دیکھا نا ـــــــــــ بزرگ بات کو اس کی جڑ تک پہنچا کر چھوڑتے ہیں ــــــــــــ :)
      مہربانی سر بات آگے بڑھانے اور سمجھانے کے لیے ۔

      حذف کریں
  3. جوابات
    1. شکریہ کھوکھر صاحب ـــــــــــــــ عنایت ہے آپ کی

      حذف کریں