منگل، 23 ستمبر، 2014

مجھے جینے دے!!!

مجھے جینے دے!!!


فصیلِ جاں سے ذرا اُدھر
خبرگاہ سے ذرا  اِدھر
ایک اور دنیا ہے
اعراف والوں کی
ہمہ دم طواف والوں کی
کم اطراف والوں کی
دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں
بجتا ہے  ایک ساتھ
  تمنا کا  نقارہ اور نفس کا ساز
بے چاری دنیا!!!


اے حُسنِ ازل!!
اس دنیا کے باسی
ہزار جاں سے تجھ پہ فدا بھی
 گھٹتی ہوئی  اک صدا بھی
تیرے ساتھ بھی، آس پاس بھی
اور
تجھ سے دور بھی۔۔۔
تیرے لشکر کے ہراول بھی
اُس کے رستے میں 
سرِ راہ بیٹھے مسافر بھی

وہ چاہیں۔۔۔اے حسنِ ازل!
کہ خود کو۔۔۔تجھ پہ
دان کریں
اپنے جسم و جاں سے
تیرے اسم گرامی کا اعلان کریں
جو کچھ ہے۔۔۔۔اُن کے پاس
سب۔۔۔سب تیرے نام کریں

ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔کبھی کبھی
ایک خیال کا آسیب انہیں آن لیتا ہے
کہ تو!
اے حسنِ ہرطرف۔۔۔۔تو!!!
اُنہیں اپنے سایوں سے بات کرنے دے
اُن کے ساتھ بھی کبھی
دن رات کرنے دے
خود اپنے ساتھ بھی کبھی
ملاقات کرنے دے
الگ جزیرے بسانے دے
اپنی دنیا آپ سجانے دے
جِن سے اُنہیں اُنس ہے
صرف انہی سے 
ایک ہو جانے دے
خداوند!۔۔۔۔بس کبھی کبھی


 فلک شیر










0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں