عرض کچھ یوں ہے، کہ زندگی، انسان ، خدا ، زمانے اور کائنات کے باہم تعلق کی مانند محبّت بھی ایسا اسرار ہے، جسے علم کی ہر شاخ کے لوگوں نے مخصوص تناظر میں دیکھا اور جانا ہے............
اہلِ شریعت (اسلامی) کے ہاں اصل متون میں محبّت لفظ ملتا ہے.........عشق نہیں.......اور اُس کا مفہوم کامل اطاعت اور خود سپُردگی کاہے........
اہلِ طریقت یعنی راہِ سلُوک کے مسافر،جو دنیا کے ہر کلچر اور مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ..........اُن کے ہاں عشق کا لفظ زیادہ مستعمل ہے....اور ظاہر ہے کہ ایشیائی زبانوں میں..........
تیسری طرف اگر اِن دونوں الفاظ کا اہلِ سُخن یعنی شعراء کے ہاں استعمال دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اِن کا استعمال اساتذہ تک کے ہاں قریب قریب ایک ہی معنی میں ہوتا چلا آیا ہے...........فراق کا شعر دیکھیے:
ترکِ محبّت کرنے والو، کون بڑا جگ جیت لیا
عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون ایسا سُکھ ہوتا تھا
اس کی یہ تقسیم میرے انتہائی محدودعلم کے مطابق اقبال سے زیادہ واضح ہونا شروع ہوئی، اور میرے خیال میں کچھ زیادہ لمبا چلی نہیں..........کیونکہ اہلِ طریقت محبّت کے مدارج گنواتے ہیں، جومحبّت سے چلتے چلتے خُلّت (مقامِ ابراہیمیّ)تک جاتے ہیں اور اقبال اس فلسفہ حیات سے ایک حد تک متاثر بھی تھے......البتہ باقی ادبی روایات اور تحاریک نے اِس کا کوئی لمبا چوڑا اثر قبول نہیں کیا...........
اگر ہم محبّت کو زمین اور عشق کو آسمان سے جوڑیں، تو معاملہ پھر بھی نہیں سلجھتا..........
اگر ہم محبّت کو محض کارِ طفلاں قرار دیں...........اور عشق کو اِس سے بے حد آگے کی چیز قرار دیں، تو میری دانست میں معاملہ پھر بھی کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھتا........کیونکہ حدیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم میں خود آنجناب اپنی محبّت کو ایمان کے اہم ترین متقاضیات میں سے قرار دیتے ہیں..........آپ صرف اِسی ایک مثال سے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں،کہ محبّت اور عشق میں کوئی میلوں کی تفاوت ہر گز نہیں............آج بھی اہل عرب اعلیٰ ترین محبّت یعنی کسی دوسرے سے محض خدا کے لیے محبت کا اظہار ’’انی احبک فی اللہ‘‘ کہہ کر کرتے ہیں.............اور یہی جذبہ برصغیر پاک و ہند میں عشق کے نام سے زیادہ معروف ہے............
سراج اورنگ آبادی کا شعر ہے، کہ
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق کا
کہ کتاب عقل کی طاق میں ، جیوں دھری تھی تیوں دھری رہی
سو اگر لامحالہ یہ تقسیم ضروری ہو، تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ محبّت ’’شعور و حواس کے ساتھ کسی ذات کے ساتھ وابستگی ‘‘...................جب کہ عشق ’’عقل کی کتاب طاق میں رکھ کر اُس ذات سے وابستگی‘‘.........اسی کو شاید مغربی علماء crimson loveبھی کہتے ہیں.........اور اِس کے ساتھ دیگر platonic lovesکے حقدار تو متعدد ہوتے ہیں............اعزہ و اقارب وغیرہ وغیرہ
اور اردو ادب میں ذرا اس اعلیٰ ترین وابستگی اور کامل ترین اطاعت و تسلیم کا نمونہ یہ شعر دیکھیے .........شاید یہی عشق ہے:
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
اب اگر یہ بات چل ہی نکلی ہے، تو اِس موضوع کے میرے چند انتہائی پسندیدہ اشعار بھی سنتے جائیے:
اختر الایمان کا شعر ہے...........الوہی عشق کی طرف بہت عمدہ اشارہ ہے:
بِنائے عشق ترا حُسن ہی نہیں اے جان
وہ ایک شعلہ جو عریاں نہیں ہے،وہ بھی ہے
اور رئیس فروغ کا یہ شعر:
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
اور آخر میں اطہر نفیس کا یہ شعر غالباً محبّت سے عشق کا سفر بیان کرتا ہے:
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا
فلک شیر
ــــــــــــــــــــــمندرجہ بالا تحریر ایک فورم پہ اسی موضوع کی بحث میں ایک نشست میں لکھا گیاــــــــــــــــــــــــــ
فلک شیر
ــــــــــــــــــــــمندرجہ بالا تحریر ایک فورم پہ اسی موضوع کی بحث میں ایک نشست میں لکھا گیاــــــــــــــــــــــــــ
میں آپ کی تحریر سے متفق نہیں ہوں ۔۔۔ تصوف کو بھی اپنی جگہ رکھیں ۔۔ ( میں بھی تصوف کو نہیں مانتا ) مگر تحقیقی طور پر ۔۔پیار ، محبت اور عشق کو مذہبی اور معاشرتی لحاظ سے علیحدہ علیحدہ یا اکھٹا رکھ کر اس پر مواد لکھئے ۔۔۔۔ صرف اقبال یا دوسرے شعراء کا حوالہ دینا میرے نزدیک اس اہم موضوع پر مستند نہیں کہا جاسکتا
جواب دیںحذف کریںنجیب بھائی! معاشرتی حوالے سے بات واقعی ہی نہیی کی گئی ــــــ البتہ مذہبی ھوالے سے ان دونوں الفاظ سے متعلق مختصراً عرض کیا ہے اور ادبی حوالے سے بھی
حذف کریںآپ شاید چاہ رہے ہیں ، کہ ایک مجموعی تھیسس پیش کیا جائے ـــــــــ اس کا مطلب ہے کہ آپ ان دونوں لفظوں کو ایک مان رہے ہیں ــــــــــ جیسا کہ یہ دونوں قریب قریب ہم معنی کے طور پر مستعمل بھی ہیں ــــ تو ایک مختصر مضمون میں تو شاید ممکن نہ ہو ، البتہ کچھ نہ کچھ مزید کوشش ضرور کروں گا ــــ توجہ کے لیے شکرگزار ہوں :)
عشق، محبت اور حسن کی تعریف کرنے اور ہر پہلو زندگی پر اس کے اثرات کا بہت تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔ میں کیا کہوں کہ آپ خود ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں۔۔۔۔ ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی۔۔۔
جواب دیںحذف کریںعشق، محبت اور حسن کی تعریف کرنے اور ہر پہلو زندگی پر اس کے اثرات کا بہت تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں آپ۔۔۔۔۔۔۔ میں کیا کہوں کہ آپ خود ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں۔۔۔۔ ہم کچھ کہیں گے تو شکایت ہوگی۔۔۔
جواب دیںحذف کریںیوں نہیں، چیمہ صاحب! اپنی حد تک تو بات پوری کیجئے نا۔
جواب دیںحذف کریںجیسا آپ نے لکھ بھی کہ یہ کہیں تبصرہ کیا تھا آپ نے، اس کا کوئی سیاق سباق بھی رہا ہو گا۔ اسی کو یہاں بیان کر دیا ہوتا تو بھی شاید بات کچھ کھل جاتی۔ وہ سب کچھ نہ سہی، آپ کا اپنا تھیسس بھی یہاں پورا بیان نہیں ہو پایا۔
احباب منتظر رہیں گے۔
آپ نے کچھ بھی نہیں فرمایا۔ جنوری کی بات تھی اب تو اکتوبر آن پہنچا ہے۔
جواب دیںحذف کریںہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی
خیر۔ اپنے نزدیک یہ دو لفظ "عشق" اور "محبت" اگر صد فی صد ہم معنی نہیں تو قریب المعانی ضرور ہیں۔ جہاں سیاق و سباق بدلے گا معانی کی الگ الگ پرتیں دکھائی دیں گی۔ فلسفیانہ موشگافیاں اپنے بس کا روگ نہیں، جس کا کام اسی کو ساجے۔ میری جنوری 2016 کی گزارش کو درخورِ اعتنا جانئے، تو بھی نوازش اور نہ جانئے تو بھی نوازش۔ دعاؤں کا طالب رہا کرتا ہوں۔