جمعرات، 24 دسمبر، 2015

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ایک قریبی عزیز فوج میں ڈاکٹر تھے ـــــــ اور جماعت اسلامی کے رکن بھی ـــــ انتہائی متقی اور بھلے آدمی ـــــــ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا ـــ تو وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ کی مدد اور تعاون کے فیصلہ سے دلبرداشتہ ہوئے اور افواج سے استعفا دے دیا ـــــــــــ بعد ازاں غالباً وہ اسی جذبہ کے تحت ایسے لوگوں کے قریب ہوتے گئے ، جو شریعت اسلامی کی عملی تنفیذ و قیام کے داعی تھے ــــــ اور اس سلسلہ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افواج سے برسر پیکار تھے ـــــــــ اسی شک میں ایک دن ڈاکٹر صاحب اور ان کے بڑے بیٹے کو خفیہ اداروں نے اٹھا لیا ـــــــــ بہت کوششوں کے باوجود ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی ــــــــــــ آج قید ہی میں انہوں نے جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ـــــــــ اللہ اکبر
سمجھ نہیں آتی ــــــــ اس بیوہ کا سامنا کیسے کروں گا ــــــــــ اسے یہ کیسے سمجھا پاؤں گا ، کہ ان کے خاوند کے قاتل کون ہیں !
1) وہ سب علماء، سکالرز اور دانشور ، جنہوں نے اپنے کچے پکے نظریات کو جذبات کو تڑکا لگا کر نوجوانوں کے سامنے پیش کیا اور پھر اس کے لیے جان قربان کرنے کا درس دیا ۔
2) وہ شخصیات اورادارے ، جنہوں نے قلیل المدت فوائد کے لیے طویل المدت خطرات مول لیے اور وہ زہر ہماری رگوں میں انڈیلا، جس کا تریاق خود ان کے پاس بھی نہ تھا
3) وہ جنرل یا سویلین حکمران ، جو اقتدار کی طوالت کے لیے غیر ملکیوں کے مفادات کے سامنے سر جھکا کر اپنے ہمسایہ ممالک سے متعلق پالیسیاں ان کے احکام کے مطابق ترتیب دیتے رہے ہیں 
4) وہ اسلامی جماعات ، جو اپنے سیاسی چہروں کو صرف اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں ور یوں مخلص نوجوانوں کو خود سے متنفر ہو کر عسکریت کے دامن میں پناہ لینے کا سبب بنتی رہی ہیں ۔
میں تو بچپن سے پاک فوج میں جانے کے لیے ترسا کرتا تھا ـــــــــــــــ حتی کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد تحریری امتحان پاس کیا، لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں آگے نہ جا سکا ــــــ اس پر میں اس قدر افسردہ ہوا، کہ اس کے بعد کبھی دل سے کسی کام کے لیے کوشش ہی نہ کی ، اس روز میں فورٹریس سے یادگار پیدل واپس آیا تھا ـــــ افواج پاکستان میرا رومانس تھا ـــــــ اور 
مذہبی طبقات سے قربت بھی ہمیشہ سے رہی تھی۔

دل دکھی ہے ــــــــ بہت دکھی ہے ــــــــــــــ ان مراحل سے کتنے گزرے، کتنے گزر ررہے ہیں اور کتنے ابھی گزریں گے ـــــــــــــ کون اس کا ذمہ دار ہے ـــــــــ کون اس کا بوجھ روز قیامت اپنے کندھوں پہ اٹھائے گا ـــــــــــ علماء، سیاستدان، جنرل یا ہم سب؟

7 تبصرے:

  1. آپ کی تحریر ایک کڑوے سچ کو سموئے ہوئے ہیں۔ چیمہ صاااب۔۔۔ یہ ایک عزیز کی بات نہیں۔۔۔ ایسے کتنے ہی عزیزوں کی کہانیاں ہمارے گردوپیش بکھری ہوئی ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم سب محاسبے کی عادت ڈالیں۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. نین بھائی! محاسبہ ہم ہی کریں ــــــــــ ان کا بھی کوئی محاسبہ ہو گا کبھی ؟
      ان سب مذکورہ بالا "طاقتوروں" کا

      حذف کریں
    2. رعیت کے بارے میں آپ کے معاملات صرف اسی صورت بہتر ہو سکتے ہیں جب خود احتسابی کی عادت ہو۔ باقی رہا طاقتوں کے محاسبے کی بات۔۔۔۔ تو مجھے آپ ہی کوئی اہل ہند کی مٹی سے ایسا انقلاب دکھا دیں جس میں حکمرانوں کا محاسبہ کیا گیا ہو۔ کبھی بھی۔۔۔۔ میں تو تاریخ کا طالب علم نہیں لیکن آپ چونکہ "استاد آدمی" ہیں سو ہو سکتا ہے ایسا کوئی واقعہ ڈھونڈ نکالیں۔ اہل ہند نے دنیا کو کیا دیا میں ضرور لکھتا لیکن آپ اس ایجاد کو سننے کے بھی روادار نہ ہوں گے۔

      حذف کریں
  2. دراصل ان سب باتوں پر سب کو مل کر بہت زیادہ سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر یہ طے کیا جائے کہ کس سمت کو اختیار کیا جائے اور کس سے اعراض برتا جائے۔

    دعا ہے کہ اللہ مرحوم سے راضی ہو جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آمین
      سوچ بچار کرنے والے ہی تو لوگوں کو ان دیکھے رستوں کے راہی بناتے ہیں احمد بھائی ۔ خود دامن جھاڑ کر اپنا رستہ ناپتے ہیں۔
      سوال یہ ہے، کہ اتنے سالوں کی جھک جھک ، بک بک کے بعد ریاست یا مملکت کے ذمہ دار طبقے کوئی واضح بات ، کھل کر بات کرنے یا سامنے لانے کے قابل نہیں ہوئے ـــــــــ وہی ریت میں سر دیے شتر مرغ جیسے بیٹھے ہیں ۔۔۔

      حذف کریں
  3. ایک نہیں کئی داستانیں ہیں بکھری یہاں

    جواب دیںحذف کریں
  4. بجا فرمایا ۔۔۔ ایسی سینکڑوں داستانیں ہیں ۔۔ایسے سینکڑوں والدین اور ایسے سینکڑوں بیٹے

    جواب دیںحذف کریں