مسجد قرون اولیٰ
میں :
طلوع
اسلام کے بعد مسلمانوں کے قدم جس جس زمین پہ بھی پڑے، وہاں انہوں نے سب سے پہلے جو
عمارت کھڑی کی ، وہ ان کی سجدہ گاہ تھی۔ مسلم اورسجدہ میں جو تعلق ہے ، اس سے کوئی ذی شعور غافل و جاہل نہیں
ہے۔ مسجدکو اِس سے پہلے لوگوں کی عبادت
گاہوں سے یہ امتیاز حاصل ہوا، کہ اُن کے برعکس یہ ایک زندہ عمارت تھی ، معاشرے کے سینے میں دھڑکتی
ہوئی ـــــــــ صاف خون سے پورے جسم کو
سیراب کرتی اور آلودہ کو صفائی کے لیے واپس کھینچتی ۔یہی وجہ ہے، کہ محسن انسانیت
، سید وُلد آدم ؑ سیدنا حضرت محمد ﷺاس چیز کا ازحد التزام فرماتے ، کہ جہاں جہاں
مسلمان موجود ہوں، وہاں مسجد تعمیر ہو اور سب وہاں نماز کے لیے وقت مقررہ پہ آ
موجود ہوں ــــــچھوٹے بڑے،امیر غریب، مالک اورملازم، کسان اور سپاہی، غلام
اور آقا،دور والے اور قریب والے ، مسافر اور مقیم، مصروف اور فارغ ــــــــــــ
سب ــــــ سب کلمہ گو کسی تفریق، رعایت
اور سستی کے بغیر آوازہ صلاۃ اور ندائے فلاح بلند ہوتے ہی حاضر ہو جائیں ۔ اس امر
سے سستی جناب پیغمبرﷺ کو کسی قیمت پہ گوارا نہ تھیــــــ وہ صحابی تو آپ کو یاد
ہی ہوں گے، جنہوں نے بڑھاپے، نابینا پن، بے سہارا ہونے ،رستے کی وحشت،دوری اور
سواری نہ ہونے کے متعدد عذر باری باری پیش کیے ـــــــــــــــ لیکن جواب میں حکم
ملا، کہ اذان سنتے ہو، تو مسجد میں حاضر ہونا ہو گا ۔ اور پھر جناب رحمت عالم ﷺ کا
نماز باجماعت کے لیے نہ آنے والوں کے گھروں کو جلانے تک کا ارادہ ظاہر فرمانا
ـــــــ یہ سب سمجھنے، جاننے اور عمل کے لیے بہت کافی ہے ۔لیکن نماز اور مسجد کے
ان فضائل و فرائض کا علم ہونے کے باوجود خالی صفیں اور اِن کے گرداگرد بسنے والے
مسلمانوں کا کسی خاص قلبی تعلق کا عدم اظہار بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، جن کا
جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
بدلے ہوئے حالات اور ان کا تقاضا:
پیغمبر
آخر الزماں ﷺ کی بعثت کو پندرہ سو برس ہونے کو آئے ہیں ۔ ان بے شمار بیتے شب وروز
میں اہل اسلام نے عروج و زوال کی کیا کیا منازل نہیں دیکھ لیں ۔ عرب سے چین ،
افریقہ سے یورپ تک ان کے بیٹے توحید کا پیغام اور عدل کی داستانیں چھوڑ آئے ۔ پھر
وہ وقت بھی انہوں نے دیکھا، کہ الٰہی شرائع کی جو تنفیذ اُن حضرات کے ہاتھ چہار
دانگ عالم میں ہوئی، وہ اپنے ہی گھروں تک میں اجنبی ہو کر رہ گئی ۔ آج کا عالم
اسلام اس سلسلہ کی کس سٹیج پہ ہے، آپ اس سے واقف ہیں ۔
ایسا کیوں ہے ــــــــ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے!! اس سوال
کے بے شمار جوابات اور اپنے جوابات کے حق میں بیسیوں دلائل ہر گروہ، جماعت اور
پارٹی کے پاس ہیں ـــــــــ اور بدقسمتی سے اپنی ان توجیہات کی نشرو اشاعت بھی ان کے نزدیک افضل ترین اعمال میں شمار ہوتی ہے ۔ ایسے میں بہت سے اہل علم نے اس اہم
موضوع پہ اپنے فکر وتخیل کے گھوڑے دوڑائے اور رشحات قلم ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ اس
اجتماعی زوال کا حل کیا ہوــــــــــ اس پر اگر غور کیا جاے، تو ایک بنیادی وجہ ــــــــ مسجد کا کردار "متحرک" سے
"غیر فعال" اور "زندہ" سے "نیم مردہ" ہو
جانا بھی ہے ۔
آج کا مسلمان،
سائنسی ترقی کی بدولت مغرب سے مرعوب ہے ـــــ اور ایجادات سے مستفید ہونا
چاہتا ہے ــــــ اس سے وہ کسی قیمت پہ ہاتھ نہیں دھونا چاہتا، خواہ اس استفادے کا
ایک نتیجہ اُسے آیات و روایات سے دور کر دینا ــــاور دوسرا مادیت پرستی کے اندھے کنویں میں گرا دینا
ہی کیوں نہ ہو ۔آج کا مسلم نوجوان اپنے معاشرے میںـــــ
"روحانی تسکین"کے اتنے مہیا کنندگان و دعویداران ـــــــموجود
پاتا ہے ، کہ اُسے اس ضمن میں کسی "کمی" کا احساس ہی نہیں ہونے پاتا۔
ہیرو ورشپ کی حس کی تسکین کے لیے بھیــــ جسٹن
بیبر، لائنل میسی اور پال واکر ـــــــ آ موجود ہوتے ہیں ۔ "انسانیت"
اور "رواداری"کی مثالیںـــــــــــ
اُسے بالی ووڈ سے بکثرت مل جاتی ہیں ۔ایام منانے کی باری آئے توــــــــ اس
سلسلہ میں فراوانی ہی فراوانی ہے ۔نسبتیں ، سلسلے اور زنجیریں کبھی باعثِ فخر ہوتی تھیں ــــــــ اب
"آزادی" ــــــــ "جیسے چاہے جینے "ــــــــــــاور
"کھل کر جینے " کا دور ہے ۔
لیکن اے میرے محترم اسلام پسند بھائی!
کیا یہ سب طعنے دے
کر ـــــــــــاہل مسجد ـــــــــــــاس
آہوئے حرم کو سُوئے حرم واپسی پہ مجبور یا
قائل کر سکتے ہیں !؟
مسجد کا جدید کردار!؟
یہ ہماری
بدقسمتی ہے ، کہ آج ہم اہل مذہب کی اصطلاح اُن مسلمانوں کے لیے کر رہے ہیں ، جو
عبادات کے نظام کی کسی نہ کسی حد تک پیروی کرتے ہیں ، مگر یہ حالات کا جبر ہے ،
سوا س کے سوا چارہ نہیں ۔
تو اہل مذہب نے ان حالات میں ـــــــــــجب کہ ایک وسیع تر
کشمکش بے شمار محاذوں پہ جاری ہے
§
اپنی تیاری کے لیے کیا سامان اور ہتھیا رجمع کیے ہوئے ہیں ؟
§
اپنے انسانی وسائل (مربی ، ائمہ ،خطباء،منتظمین)کہاں سے لیے ہیں اور اُن کی تربیت ــــ کہاں ، کیا اور کیسےـــــــ کی
ہے؟
§
ائمہ مساجد اور قراء وخطباءکو روایتی اسلوب سے ہٹ کر اور
چلاؤ کام سے آگے نکل کر معاشرے میں اثرپذیر ہونے کی کس قدر مہارت،آزادی اور تربیت
دی ہے؟
§
مسجد اور کمیونٹی کے درمیان تعلق صرف عبادت گاہ کا متعین کیاہے
ـــــــــــــــیاــــــــــــــــایک زندہ مرکزاور اس کے گرد گھومتے سیاروں کا؟
§
دین کے بنیادی متون ـــــــــــقرآن وفرامین پیغمبرﷺ ـــــــ
ضروری فقہیات اور منتخب فکری و تکنیکی اسباق
کوـــــــاپنی کمیونٹی کے چھوٹے بڑوں
اور مردوزن تک ایک یا دوسرے طریقے /رستے سے پہنچانے/سکھانے /عامل بنانے کے
لیے کیا شعوری اور دلی کوششیں کی ہیں؟
§
معاشرہ اگر لفظ
"اسلام" کی "بیان شدہ تشریحات"سے خوف/ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے
ــــــــتو جن ناموں /اصطلاحات سے وہ مانوس ہےــــــــــاُنہیں استعمال کرنے کے
مواقع سےفائدہ اٹھایا ہے؟
§
شریعت کی بیان کردہ اصطلاحـــــ
"علم"ــــــ کو اس کے اصل اور وسیع تر مفہوم ــــــیعنی ـــــفلاحِ
دارین ــــ کے تناظر میں اپنی کمیونٹی کا حال اور مستقبل بنانے کے لیے
کیا کوششیں کی ہیں؟
کیا یہ سب کچھ اہل مسجد کے بھی ذمہ ہے؟
"دین سراسر خیرخواہی ہے " ــــــ اس
فرمانِ پیغمبرﷺ کی سمجھ جن کو آ جائے ـــــــوہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اردگرد
پھیلی آگ کا تماشادیکھ ہی نہیں سکتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا ـــــــــــکہ اپنے جیسے انسانوں کو پروانوں کی
مانند "شمعِ تہذیب"کی لو کا رزق ہوتے دیکھیں ـــــاور
پھر دامنِ عافیت سمیٹ کر ایک محدود سے "روحانی تجربے "تک خود کو محدود کر لیں ۔ اُن کے سامنے
صرف اپنی فلاح کے لیے بھاگ دوڑ کرنا نہیں رہتا ـــــــــ انہیں سامنے اپنے اہل و
عیال نظر آتے ہیں ــــــجنہیں اُس آگ سے بچانے کا حکم آسمان سے نازل ہو اہے
ــــــجو ہر سالم و کامل کو مکسور و منشور کر دے گی ــــــجس کی ایک لپٹ اور بھبک
ہی تکلیف کا ایسا باب کھول دے گی، کہ جس کا مداوا آسمان اور زمین میں کسی سے نہ ہو
گا ۔ایسے حضرات و خواتین اہل و عیال کے بعد اعزہ و اقارب ، اہل محلہ اور اپنی بساط
کے مطابق اگلے بڑے دائروں میں کام کے رستے تلاش کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کے سوا اُن
کو کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔
اب ایسے حالات میں ، کہ جب مسلم عوام بالعموم اور مسلم شباب
بالخصوص اپنے "عبد"کے سٹیٹس اور "امت" کے تصور سے زیادہ مانوس
نہیں ہیں ـــــــــــــکیا یہ اہل مسجد ـــــاور اُن تمام اربابِ حل و عقد (مقتدر
علماء، زعمائے مدارس،جدید و قدیم پہ دسترس رکھنے والے اہل علم ، حکومتی عہدیداران،
دینی جماعات ،طلباء تنظیمات)،جو مسجد اور اہل مسجد کے لیے آئیڈیل، شعوری لائحہ عمل
اور لاشعوری رہنمائی ـــکا انتظام کرتے ہیں ــــــ کے
ذمہ نہیں ہے، کہ اس سلسلہ میں اپنا کرنے کا کام پہچانیں ۔ اگر کفر و عصیان سائنسی انداز میں آپ کی نئی نسل پہ
حملہ آور ہے ـــــــــتو آپ بھی اس سلسلہ میں کچھ وقت سوچنے کے لیے نکالیں
ـــــــــــخالی برا بھلا کہنے سے تو کچھ نہ ہو گا۔اور یہ کام آپ نہ کریں گے، تو
کون کرے گا؟ـــــــــآسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ، نصرت کا نہیں
ــــــــــــــــشرط نیک نیتی ،علمی پختگی،داعیانہ بصیرت اور استقامت کے ساتھ اس
میدان میں اترنا ہے ۔ (جاری ہے)
بہترین ۔
جواب دیںحذف کریںجی ہاں چیمہ صاحب۔ یہ صرف اہلِ مسجد کی ذمہ داری ہیں! ۔۔
جواب دیںحذف کریںحیران مت ہوئیے۔ اہلِ مسجد کو میں کسی اور حوالے سے جانتا ہوں۔ وہ جس کا مسجد سے تعلق ہے اور وہ بھی جس کا مسجد سے تعلق ہونا چاہئے مگر نہیں ہے۔ اس میں ساری امتِ مسلمہ آ گئی۔ اور وہ جو خطیب ہے وہ اصولی طور پر استاد بھی ہے، مبلغ بھی ہے، اور نمونہ بھی۔ آج کے خطیب کی بے چارگی بھی دیکھ لیجئے اور آج میرا اپنا مسجد سے تعلق بھی دیکھ لیجئے۔
آپ کا مضمون جاری ہے، میری اس گزارش پر بھی توجہ فرمائیے گا، اور اس امر پر بھی کی خطیب اور "ادخلوا فی السلم کافۃ" کے درمیان کیا کچھ حائل ہے۔
ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اقبال)
ایک اہم موضوع، آپ کے ذہن میں یقیناً ہوگا، پھر بھی یاد دلاتا چلوں۔
جواب دیںحذف کریںمغلیہ دور سے پہلے، مغلیہ دور میں، برطانوی قبضے کے دوران، اور آزادی سے اب تک ۔۔
مدرسے کا کردار اور اہمیت اور مسجد سے فارغ التحصیل ہونے والی شخصیات ، مدرسے اور سکول کا فرق۔ کردار سازی میں استاد کی شخصیت کا عمل دخل اور نمونہ اور تربیت پر اس کے اثرات۔
میں وہ موضوع یہاں ڈھونڈ رہا تھا "اسکول کیسا ہو"۔ وہ مضمون اگر آپ اپنے بلاگ پر لے آئیں تو شاید بہتر اور سنجیدہ گفتگو کی جا سکے۔ سوفسطستان میں مجھ جیسا کم علم بات کرتے بھی ڈرتا ہے کہ پتہ نہیں میری ان سوفسطائیوں سے لغات بھی ملتی ہے یا نہیں۔
جواب دیںحذف کریںاسکول، مکتب، مسجد، مدرسہ، کلیہ، جامعہ، یہ سب موضوعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مگر یہ موضوع کسی خاص سیاسی جماعت، عسکری گروہ، گزشتہ موجودہ یا آئندہ صدور و وزرائے اعظم سے نہیں جڑا ہوا۔
توجہ فرمائیے گا۔
بہترین موضوع ، فلک شیر صاحب ، جزاکم اللہ خیرا.
جواب دیںحذف کریںمسجد کا کردار کیا ہے ؟ یہ بھی خوب خوب واضح ہونا چاہیے .
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بیان بہت ضروری ہے کہ صرف امام و خطیب یا متولی مسجد پر پورے معاشرے کی ذمہ داری ڈال کر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ جانا بھی درست رویہ نہیں ۔