منگل، 6 جنوری، 2015

ازل سے ابد تک کا سفر اور میں


کوئی سال پہلے میں چھٹیوں میں گاؤں تھا، ڈیرے پر ہم چند ایک لوگ بیٹھے تھے، گاؤں کے ایک بزرگ"میرزادے" یعنی میراثی(بطور تضحیک نہیں لکھ رہا)تشریف لائے ۔ بعد از سلام دعا، میں نے عرض کیا ، چا چا جی، شجرہ تو سنا دیں ایک دفعہ ہمارا۔ بزرگوں نے حقے کی نے سے لمبا کش لگایا اور دھویں کا مرغولہ بطرف آسمان چھوڑ کر گویا ہوئے ۔ فلک شیر چیمہ ولد فیاض الرحمان چیمہ ولد احسان اللہ چیمہ ولد سردار احمد چیمہ ولد فیض اللہ چیمہ ولد سردار جگت سنگھ چیمہ ولد سردار دلجیت سنگھ چیمہ ۔۔۔۔اور اس کے بعد اک لمبی فہرست پرکھوں کی ۔۔

 آج میں بیٹھا سوچ رہا تھا، کہ کن کن زمینوں سے ہم اگتے ہیں اور کن پشتوں میں چھپے رہتے ہیں ہزاروں سال ۔۔۔عقائد کی ایک فہرست ہے، بلاواسطہ یا بالواسطہ جن سے ہم متعلق رہے ہیں۔۔۔کن کن رنگوں میں ۔۔۔۔کہاں کہاں کی ہواؤں میں ۔۔۔کہاں کہاں کی بہاروں خزاؤں میں میرا حصہ آج بھی ہے اور کب تک رہے گا ۔۔۔ایسے لگتا ہے ، اربوں حصے ہیں میرے ازل سے ابد تک ۔۔۔۔یا شاید اتنے کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں کون ہے، جو اُن سب زمانوں،زمینوں، پانیوں،خشکیوں، فضاؤں،بہاروں،
خزاؤں،خوابوں،حقیقتوں اور سرابوں میں میرے ساتھ رہاے اور رہے گا ـــبس ــــــایکـــــــایک ہی ــــمیرا خالق




3 تبصرے:

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بے شک و شبہ۔ ہمارے ساتھ رہ جاتا ہے تو صرف ہمارا اللہ۔ تو پھر کیوں نہ اسی ایک سے بنا کر رکھی جائے جو ہمارے ساتھ رہ سکتا ہے۔ بنا کر کیسے رکھی جائے؟ اس کے چارٹر کو نافذ کر کے! وہی پوری انسانیت کا چارٹر جو اُس نے سب سے پہلے انسان کو ازبر کرا دیا؛ اور اپنی نشانیاں بھی ظاہر کر دیں۔ وہی چارٹر جس کا نام اس نے خود "اسلام" رکھا۔ وہی چارٹر جس کی تکمیل کا اعلان حجۃ الوداع کے موقع پر فرما دیا۔ الیوم اکملتُ لکم دینکم و اتممتُ علیکم نعمتی و رضیتُ لکم الاسلام دینا۔ وہ کتاب جس کے متن میں شامل ہے کہ: ذٰلک الکتٰب لا ریب فیہ ھدی للمتقین۔
    اللہ کریم توفیقات سے نوازے۔ آمین!

    جواب دیںحذف کریں