جمعہ، 28 مارچ، 2014

سیلاب کی دلہن ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ Wedding in the Flood







سیلاب کی دلہن

شہنائی دھنیں بکھیر رہی ہے
اور باراتی واپسی کے لیے اٹھ رہے ہیں
دلہن کی ماں سسکیاں بھرتی ہوئی کہتی ہے
"میری رانی کو یہ لوگ ہمیشہ کے لیے لے چلے۔۔۔
ان اجنبی چہروں کے ساتھ اُس بیگانےگھر تک
میری شرمیلی بچی کیسے سفر کرے گی"

آج کا دن کتنا کٹھن تھا
تمام دن آسمان سے پانی برستا رہا
ہاں، بارات کو کھانا کھلانے کے وقت ضرور رکا تھا
دلہن کو پالکی میں بٹھایا جا رہا ہے
اور بوندیں پھر سے گرنے لگی ہیں
شاید لڑکی برتن بہت زیادہ چاٹتی تھی
دو تکڑے جوان جہیز کا سامان، جس میں
ایک چارپائی،شیشہ، نیلا اور زرد رنگ کیا ہوا ایک صندوق
اٹھائے چل رہے ہیں
اور ان سے پیچھے چار کہار ڈولی کو کندھوں پہ اٹھائے ہیں
بارات کو رخصت کرنے والے اب تو بہت پیچھے رہ چکے ہیں

دلہا چوری آنکھ سے
پالکی پکڑے ہوئے حنائی ہاتھ دیکھتاہے
"اگر اس کا چہرہ بھی ان ہاتھوں جیسا خوبصورت ہوا
اور
اس نے گھر میں کوئی فساد کھڑا نہ کیا
تو!!! تھوڑے جہیز کی خیر ہے جی۔۔
یہ بارش کب رکے گی بھئی؟
میری قسمت میں یہ برتن چاٹنے والی ہی لکھی تھی!!!
اب ساری بات ملاح پہ ہے"

پالکی میں دلہن خود سے گویا ہوئی
"اس کی تو چھت سے بھی پانی بہہ رہا ہے
میرے پاؤں تک بھیگ چلے ہیں
اندھیرا بھی کس قدر ہے
اور اردگرد کوئی اپنا بھی تو نہیں ۔۔
ٹھنڈ لگ رہی ہے اور ڈر بھی
یہ بارش میرا جہیز برباد کر کے چھوڑے گی
میرا گھر والا ۔۔۔ پتا نہیں، وہ کس مزاج کاہے!!
باراتی۔۔۔ تیز تو چلیں بے چارے
مگر پاؤں ہی پھسل پھسل پڑتے ہیں
ہاں۔۔۔ ابھی چڑھا ہوا دریا بھی تو رستے میں ہے!!!!!

دلہے کا باپ دلہن والوں کوکوس رہاہے
"انہوں نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟؟
ایک بیل تک نہیں دے سکے۔۔
جوڑی بیلوں کی ہی دے دیتے
تو اگلی فصل اچھی ہو جاتی!!
کھاٹ، شیشہ اور صندوق ۔۔یہ سب کچھ
یہ تو لڑکی خود ہی استعمال کرے گی نا!!
ربا سوہنیا! بارش کیاچاہتی ہے!!!
یقیناً یہ بےوقوف لڑکی برتن چاٹتی رہی ہو گی
صبح جب ہم آئے تھے
تو دریا کے تیور اچھے نہیں لگ رہے تھے
ملاح نے بھی کہا تھا
"تین بجے سے ضرور لوٹ آنا
ورنہ۔۔۔
مجھے یہاں نہیں پاؤ گے"

مجھے امید ہے، وہ ہمارا انتظار ضرور کرے گا
لگتا ہے ہمیں ایک سے دو گھنٹے دیر ہو چکی ہے
پر بھائی جی! طے شدہ وقت پہ
کبھی کوئی بارات پہنچی بھی ہے؟؟؟
روشنی بھی کم ہے اور رستہ بھی دغا باز ہے
لیکن مجھے سب سے زیادہ ڈر دریا سے لگ رہا ہے
ملاح ادھر ہی ہو گا، مجھے پتا!
دیکھو ذرا، کشتی والا ہمارا انتظار کر رہا ہے
اسے پتہ تھا، دلہا دلہن اور ہم سارے
اس کے بغیر پار کیسے جا سکیں گے!!
بارات سے تو پیسے بھی کچھ زیادہ ہی ملتے ہیں نا !!!
چلو جلدی سے اپنا یہ ڈھیروں جہیز اٹھاؤ
اور کشتی میں سوا رہو جاؤ
گھر ابھی بہت دور ہے

اللہ !!!!!!
دریا کو اتنے غصے میں کس نےدیکھا ہوگا
کس کے پاس وہ لفظ ہیں ، جن سے
اس راستے کی کٹھنائی کو بیان کر سکے
جس پہ وہ بدقسمت کشتی روانہ ہوئی تھی
اور پھر
کشتی نے مسافروںکو باہر اٹھا مارا
شہنائی سے پانی کا ساز نکلتا تھا
ملاپ ہو ہی گیا آخر، اور کیسا ملاپ ہے یہ:
دلہے کے با پ کو لہروں نے سینگوں پہ اٹھا لیا
اور
دلہے کے پہنے ہوئے تیس کے تیس ہار
جھومتے چڑھتے پانی کے گلے میں پڑے تھے
اُتھلی جانب بید کی طرح رقصاں بھنور میں
بالآخر
وہ شرمیلی دلہن سیلاب سے بیاہ دی گئی

نظم:توفیق رفعت
ترجمہ: فلک شیر

3 تبصرے:

  1. بشمول شاعر کے کسی کو بھی شبہ دلہا پر کیوں نہ ہوا۔۔۔
    کم علمی بھرے سوال پر معذرت۔۔بہت خوب ترجمہ

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. پوری نظم اسی ایک شبے کا ہی تو جواب ہے - شاعر بھی انہی خیالات کا حامل لگتا ہے ، فرق اتنا ہے کہ اچھا آرٹ کود کو چھپاتا ہے اور اس نے بھی یہی کوشش کی ہے ۔
      پسندیدگی کے لیے شکرگزار ہوں ۔

      حذف کریں