ہفتہ، 15 فروری، 2014

دریا کے اُس پار کیا ہے

دریا کے اُس پار کیا ہے؟؟

آج دوست مجھ سے کہنے لگے
تم جو بہت چرب زباں ہو
اور روز تمہارے بستر پہ 
نئی کتاب کی زلفیں پریشاں ہوتی ہیں
تم بولو، تو لگتا ہے​ 
ادب،نقد،شعر،تصویر
سُر،رقص،خواب اور تعبیر
سب تمہارے لہجے میں ڈھلنے کو بے تاب ہوں
حرف اور عرفان گلے ملنے کو بے تاب ہوں
ہماری بھی ایک مشکل حل کرو
یہ تو بتاؤ
آخر اِس محبت کا اسرار کیا ہے؟
اِس دریا کے اُس پار کیا ہے؟
معمہ یا بجھارت؟
کرشمہ یا نعمت؟
خطا یا عبادت؟
اِس کی نمود کن زمینوں سے ہوتی ہے؟
اور اِس کی وحی کن سینوں پہ اترتی ہے؟
میں جو مشہور ہوں اتنا
سات زبانیں بولنے میں
دلائل کے انبار لگانے میں
اورلوگوں کو نیچا دکھانے میں
ایک لمحے کو تو مجھے چپ سی لگی
مگر.......پھر میں
اپنی ناک بچانے اور
جولانی طبع دکھانے
کے لیے گویا ہوا
اور خوش بیان واعظ کی طرح لفظوں کے محل اُسارنے لگا
میں نے کہا، دیکھو!
محبت ایک پرندہ ہے
ہزار رنگ، ہفت خواں
جس شاخ پہ بھی اترتا ہے
اُس سے کونپل نہیں، نغمہ پھوٹتا ہے
اور پھول نہیں، دھنک کھلتی ہے
میں نے اُنہیں بتایا، سنو!
محبت ایک کہانی ہے
جس کے کردار
تتلی، پھول اور ستارہ
دریا، کشتی اور کنارہ
جنگل، بیلے اور بنجارہ
کہا، یارو!
محبت ایسا طلسم ہے
جس کا توڑ خلق ہی نہیں کیا گیا
یہ تو ہر ذی روح کا حسنِ ازل کو سلام ہے
یہ تو ہر گونج کی
ندائے اول سے سعی کلام ہے
مجھ سے پوچھتے ہو، محبت کا اسرار کیا ہے
تو سنو!
اِس کے روپ کئی صد ہزار ہیں
فراق، وصل، نالہ، شہنائی؛
یہ تو صرف دو چار ہیں
ہر جہاں کی ہر کروٹ اِسی کے حضور سے
سب چہروں پہ سب شفق، اِسی کے طُور سے
نادِ اوّل سے اذانِ آخر تلک
محبّت ہی سب زمانوں کی فاتح
اور یہی سب قرنوں کی نقیب
آنے والے سب زمانوں میں بھی
روزوشب اسی سے تجلّی پائیں گے
اِسی کے دامن سے روشنی کا رزق جُڑا رہے گا
اور
اِسی کے بطن سے نئے سُر تخلیق ہوں گے
میرے دوست یہ سب سُن کر
میرے علم و فضل کا لوہا مانتے ہوئے
سر ہلاتے، دور اندھیرے میں جا گُم ہوئے
مگر..........
اِس کے بعدمجھے 
مریم ایسے پاک اس جذبہ کی 
اپنے ہاتھوں بے توقیری کا بے طرح قلق ہوا
پھر یوں ہوا کہ
مجھ سنگ دِل کی آنکھ نے چہرے کو وضو کرایا
توبہ کی نیت سے ڈرتے ڈرتے
میں نے آنکھ بند کی
اور چشم تخیل وا کی
اور عرض کیا...
اے ڈیلفی کے معبد کی معبود!
آخر تیرا اسرار کیا ہے؟
تیرے دریا کے اُس پار کیا ہے؟

(فلک شیر)

3 تبصرے: