اتوار، 28 جون، 2015

قصہ حاجی محمد ڈوگر کا ـــــــــــ قسط اول

قصہ حاجی محمد  ڈوگر کا ــــ(اول)

کوئی دس ایک برس ہوتے ہیں ۔  شیخوپورہ میں میرے ایک محترم بزرگ سکول چلاتے تھے۔ میں تازہ تازہ ایف ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہوا تھااور ویہلا مصروف تھا۔ ایک دن انہوں نے مجھے سکول حاضر ہونے کا حکم دیا، جو میں نے آنکھیں بند کر کے قبول فرما لیا۔ چند ایک کلاسز انہوں نے میرے ذمہ لگا دیں، جن میں چند ایک ہی بچے پڑھنے والے تھے ۔ عموماً اس نواح میں بچے پڑھائی وغیرہ کو شغل میلے کے طور پر ہی ٹریٹ کرتے ہیں اور زیادہ تراپنی "سرداری"اور "ڈوگریت "کو  ہی مونچھوں کی طرح تیل وغیرہ لگا کر چمکاتے رہتے ہیں ۔ اس لیے کلاس میں زیادہ کام کاج ہوتا نہیں تھا۔

خیر،اسی اثناء میں ایک دن دفتر بیٹھے بیٹھے پتا چلا، کہ سکول کا لاہور بورڈ سے الحاق ہونا ہے اور اسی سلسلہ میں ایک آدھ روز میں کوئی چیکنگ ٹیم وارد ہونے والی ہے۔ میری جانے بلاـــــــــ کہ اس طرح کی ٹیموں سے کس طرح نپٹا جاتا ہے اور ان کے کیا کیا ناز نخرے اٹھانا ضروری ہوتا ہے ۔ مجھے یہ خبر بھی نہ تھی ،کہ اس سلسلہ میں کوئی "پری پول"قسم کی ملاقات میرے رشتے کے نانا جان لاہور تعلیمی بورڈ کے سیکرٹری صاحب سے فرما چکے ہیں ۔ اتنا البتہ مجھے پتا چل گیا  ،کہ لاہور بورڈ کے چئیرمین خواجہ ذکریا صاحب ہیں اور سیکرٹری صاحب کوئی حاجی محمد ڈوگر ہیں ۔ مجھے سمجھ آ گئی ، کہ برخوردار، یہ یقیناً وہی معاملہ ہے ، جس کا اشارہ مجھے ایک دن قبل نانا جان کا  معتمد شیخ انور دے چکا ہے ، یعنی
ڈوگر کو ملے ڈوگر ـــــــــــــکر کر لمبے ہاتھ

اگلا دن آیا، سکول پہنچنے پہ خبر ہوئی کہ ایک مفصل ضیافت کا انتظام فرمایا گیا ہے اور اسی سلسلہ میں شیخ انور صاحب بھر پور مصروف بھی پھر رہے ہیں ۔ میں نے حسب معمول اپنی کلاسز لیں ۔ سکول کے کلرک جناب بھٹی صاحب اپنے رجسٹر وغیرہ سیدھے پدھرے کر رہے تھے اور تما م عملہ گویا ایڑیو کے بل کھڑا مہمانوں کا انتظار کر رہا تھا۔میں دس ایک بجے کے قریب جب دفتر آیا، تو فون کی گھنٹی بجی ۔ دوسری طرف کوئی صاحب تھے ، جو اپنا تعارف اسی چیکنگ ٹیم کے نمائندے کے طور پہ کروا رہے تھے۔ان سے میرا مندرجہ ذیل مکالمہ ہوا ۔

نمائندہ : ہم مارکیٹ تک پہنچ گئے ہیں ۔ ہمیں رستہ نہیں مل رہا۔

فلک شیر: آپ مین گیٹ سے آگے آئیں، طوبیٰ مسجد سے دائیں ہو جائیں اور پھر بائیں ہو جائیں ، آگے ہمارا سکول ہے۔

نمائندہ:یار ہمیں سکول نہیں مل رہا، آپ لوگوں نے چیکنگ کروانی ہے یا نہیں ؟ جلدی سے کسی کو کمبوہ مارکیٹ بھیج دیں اور ہمیں ریسیو کریں ۔

فلک شیر: جناب میرے پاس کوئی اضافی بندہ نہیں ، کس کو بھیج دوں ، آپ کسی سے پوچھ لیں اور آ جائیں۔

(اس پر نمائندہ صاحب نے غصہ میں فون سیکرٹری لاہور بورڈ جناب حاجی محمد ڈوگر صاحب کو دیا، وہ غالباً کچھ غصہ میں گویا ہوئے)

حاجی صاحب: یار تمہیں پتہ ہے کچھ، تم لوگوں نے الحاق کروانا ہے یا نہیں؟

(اس پر میرا "جاٹ پن "جاگ اٹھا اور میں نے انہیں قومی و اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے کہا )

فلک شیر: سر! آپ جس کام کے لیے نکلے ہیں ، یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ آپ مجھ پہ احسان نہیں کر رہے۔ آپ کو پہنچنا ہے، رستہ پتا کریں اور آ جائیں ۔

اس کے ساتھ ہی فون بند ۔

تھوڑی ہی دیر میں کیا دیکھتا ہوں ، کہ مذکورہ ٹیم سرکاری گاڑی میں سکول کے مرکزی دروازے کے باہر کھڑی ہے اور زرخیز خاں خالص فوجی سلیوٹ مار کر انہیں ریسیو کر رہا ہے ۔ میرے رشتے کے محترم نانا جان نے باہر نکل کر ٹیم کا استقبال کیا اور انہیں دفتر میں لے آئے ۔ حاجی صاحب نے چھوٹتے ہی سوال کیا، کہ ان کا فون کس نے سنا تھا۔ یہ سنتے ہی میں باہر برآمدے کی طر ف کھسک لیا، کہ  بعض اوقات پسپائی ہی بہترین حکمت عملی ہوتی ہے  ۔

بہرحال تھوڑی دیر میں ٹیم نے سکول کا دورہ کیا، کاغذی کارروائی کی اور اس کے بعد پر تکلف کھانے سے دو دوہاتھ کیے، جس سے ہم اپنی روایتی جھجک کی وجہ سے محروم  رہے۔اب حاجی ڈوگر صاحب نے ظہر کی نماز ادا کرنا تھی، مجھے حکم ہوا کہ انتظام کروں ۔ میں حاجی صاحب کو لے کر پرنسپل آفس میں آ گیا، جہاں انہوں نے صبح کے فون والے واقعہ پہ کچھ خوشگوار جملے ارشاد فرمائے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ نماز پڑھنے کے بعد انہوں نے ایک قصہ سنایا، جو مجھے آپ کو پیش کرنا تھا۔ لیکن تمہید کچھ طولانی ہو گئی اور قصہ رہ گیا۔ خیر اسے اگلی قسط تک اٹھا رکھتے ہیں ۔ اتنا ضرور بتا  دوں، کہ قصہ تب سے اب تک میرے دل پہ لکھا ہے اور شاید آپ کے بھی لکھا رہ جائے ـــــــــــــکہ بات ہی ایسی ہے


8 تبصرے:

  1. یہ سادہ اندازِ بیاں دلنشن ہے اور کچھ مانوس بھی نجانے لہجہ کا اثرہے یا اپنے آبائی علاقے سے تعلق داری کی مہک -

    جواب دیںحذف کریں
  2. واہ جی۔ دوسری قسط کا انتظار رہے گا

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مہربانی جناب عمیر صاحب ۔ دوسری قسط مارکیٹ میں آ چکی ہے ۔

      حذف کریں
  3. آخر شیر اے نا، اوہ وی آسماناں دا شیر! گجے گا تے سہی۔
    یہ تو خیر جملہء معترضہ تھا۔ یہاں مجھے نہیں معلوم کوئی تنقیدی نکات اٹھانے مناسب ہیں یا نہیں۔ کچھ باتیں کہنے کی ضرور ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں