اتوار، 28 فروری، 2016

اے جذبہ دل گر میں چاہوں ــــــــــــ بہزاد لکھنوی



اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

کشتی کو خدا پر چھوڑ بھی دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے
مشکل تو نہیں ان موجوں میں بہتا ہوا ساحل آ جائے

اے شمع! قسم پروانوں کی، اتنا تو مری خاطر کرنا
اس وقت بھڑک کر گُل ہونا جب بانیِ محفل آ جائے

اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں
اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ مرا دل آ جائے

اے راہبرِ کامل! چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے
اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے
میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا
اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اب کیوں ڈھونڈوں وہ چشمِ کرم، ہونے دے ستم بالائے ستم
میں چاہتا ہوں اے جذبۂ غم، مشکل پسِ مشکل آ جائے

اے برقِ تجلّی کیا تُو نے مجھ کو بھی موسیٰ سمجھا ہے؟
میں طُور نہیں جو جل جاؤں، جو چاہے مقابل آ جائے

اے دل کی لگی! چل یونھی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں
اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

بہزاد لکھنوی