منگل، 28 جولائی، 2015

بدلتی ہوئی دنیا میں مسجد کا کردار ــــــــــــــــــــچند معروضات (قسط اوّل)



مسجد قرون اولیٰ میں  :
طلوع اسلام کے بعد مسلمانوں کے قدم جس جس زمین پہ بھی پڑے، وہاں انہوں نے سب سے پہلے جو عمارت کھڑی کی ، وہ ان کی سجدہ گاہ تھی۔ مسلم اورسجدہ میں جو تعلق  ہے ، اس سے کوئی ذی شعور غافل و جاہل نہیں ہے۔   مسجدکو اِس سے پہلے لوگوں کی عبادت گاہوں سے یہ امتیاز حاصل ہوا، کہ اُن کے برعکس یہ ایک  زندہ عمارت تھی ، معاشرے کے سینے میں دھڑکتی ہوئی   ـــــــــ صاف خون سے پورے جسم کو سیراب کرتی اور آلودہ کو صفائی کے لیے واپس کھینچتی ۔یہی وجہ ہے، کہ محسن انسانیت ، سید وُلد آدم ؑ سیدنا حضرت محمد ﷺاس چیز کا ازحد التزام فرماتے ، کہ جہاں جہاں مسلمان موجود ہوں، وہاں مسجد تعمیر ہو اور سب وہاں نماز کے لیے وقت مقررہ پہ آ موجود ہوں ــــــچھوٹے بڑے،امیر غریب، مالک اورملازم، کسان اور سپاہی، غلام اور آقا،دور والے اور قریب والے ، مسافر اور مقیم، مصروف اور فارغ ــــــــــــ سب  ــــــ سب کلمہ گو کسی تفریق، رعایت اور سستی کے بغیر آوازہ صلاۃ اور ندائے فلاح بلند ہوتے ہی حاضر ہو جائیں ۔ اس امر سے سستی جناب پیغمبرﷺ کو کسی قیمت پہ گوارا نہ تھیــــــ وہ صحابی تو آپ کو یاد ہی ہوں گے، جنہوں نے بڑھاپے، نابینا پن، بے سہارا ہونے ،رستے کی وحشت،دوری اور سواری نہ ہونے کے متعدد عذر باری باری پیش کیے ـــــــــــــــ لیکن جواب میں حکم ملا، کہ اذان سنتے ہو، تو مسجد میں حاضر ہونا ہو گا ۔ اور پھر جناب رحمت عالم ﷺ کا نماز باجماعت کے لیے نہ آنے والوں کے گھروں کو جلانے تک کا ارادہ ظاہر فرمانا ـــــــ یہ سب سمجھنے، جاننے اور عمل کے لیے بہت کافی ہے ۔لیکن نماز اور مسجد کے ان فضائل و فرائض کا علم ہونے کے باوجود خالی صفیں اور اِن کے گرداگرد بسنے والے مسلمانوں کا کسی خاص قلبی تعلق کا عدم اظہار بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔

بدلے ہوئے حالات اور ان کا تقاضا:
            پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی بعثت کو پندرہ سو برس ہونے کو آئے ہیں ۔ ان بے شمار بیتے شب وروز میں اہل اسلام نے عروج و زوال کی کیا کیا منازل نہیں دیکھ لیں ۔ عرب سے چین ، افریقہ سے یورپ تک ان کے بیٹے توحید کا پیغام اور عدل کی داستانیں چھوڑ آئے ۔ پھر وہ وقت بھی انہوں نے دیکھا، کہ الٰہی شرائع کی جو تنفیذ اُن حضرات کے ہاتھ چہار دانگ عالم میں ہوئی، وہ اپنے ہی گھروں تک میں اجنبی ہو کر رہ گئی ۔ آج کا عالم اسلام اس سلسلہ کی کس سٹیج پہ ہے، آپ اس سے واقف ہیں ۔
ایسا کیوں ہے ــــــــ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے!! اس سوال کے بے شمار جوابات اور اپنے جوابات کے حق میں بیسیوں دلائل ہر گروہ، جماعت اور پارٹی کے پاس ہیں ـــــــــ اور بدقسمتی سے اپنی ان توجیہات کی نشرو اشاعت  بھی ان کے نزدیک افضل ترین اعمال میں  شمار  ہوتی ہے ۔ ایسے میں بہت سے اہل علم نے اس اہم موضوع پہ اپنے فکر وتخیل کے گھوڑے دوڑائے اور رشحات قلم ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ اس اجتماعی زوال کا حل کیا ہوــــــــــ اس پر اگر غور کیا جاے، تو ایک بنیادی وجہ  ــــــــ مسجد کا کردار "متحرک" سے "غیر فعال" اور "زندہ" سے "نیم مردہ"   ہو جانا بھی  ہے ۔ 
آج کا مسلمان،  سائنسی ترقی کی بدولت مغرب سے مرعوب ہے ـــــ اور ایجادات سے مستفید ہونا چاہتا ہے ــــــ اس سے وہ کسی قیمت پہ ہاتھ نہیں دھونا چاہتا، خواہ اس استفادے کا ایک نتیجہ اُسے آیات و روایات سے دور کر دینا ــــاور  دوسرا مادیت پرستی کے اندھے کنویں میں گرا دینا ہی کیوں نہ ہو ۔آج کا مسلم نوجوان اپنے معاشرے میںـــــ "روحانی تسکین"کے اتنے مہیا کنندگان و دعویداران ـــــــموجود پاتا ہے ، کہ اُسے اس ضمن میں کسی "کمی" کا احساس ہی نہیں ہونے پاتا۔ ہیرو ورشپ کی حس کی تسکین کے لیے بھیــــ جسٹن بیبر، لائنل میسی اور پال واکر ـــــــ آ موجود ہوتے ہیں ۔ "انسانیت" اور "رواداری"کی مثالیںـــــــــــ اُسے بالی ووڈ سے بکثرت مل جاتی ہیں ۔ایام منانے کی باری آئے توــــــــ اس سلسلہ میں فراوانی ہی فراوانی ہے ۔نسبتیں ، سلسلے اور زنجیریں کبھی باعثِ  فخر ہوتی تھیں ــــــــ اب "آزادی" ــــــــ "جیسے چاہے جینے "ــــــــــــاور "کھل کر جینے " کا دور ہے ۔

لیکن اے میرے محترم اسلام پسند بھائی!
کیا یہ سب طعنے دے کر ـــــــــــاہل مسجد ـــــــــــــاس آہوئے حرم کو سُوئے حرم  واپسی پہ مجبور یا قائل کر سکتے ہیں !؟

مسجد کا جدید کردار!؟
            یہ ہماری بدقسمتی ہے ، کہ آج ہم اہل مذہب کی اصطلاح اُن مسلمانوں کے لیے کر رہے ہیں ، جو عبادات کے نظام کی کسی نہ کسی حد تک پیروی کرتے ہیں ، مگر یہ حالات کا جبر ہے ، سوا س کے سوا چارہ نہیں ۔
تو اہل مذہب نے ان حالات میں ـــــــــــجب کہ ایک وسیع تر کشمکش بے شمار محاذوں پہ جاری ہے
§       اپنی تیاری کے لیے کیا سامان اور ہتھیا رجمع کیے ہوئے ہیں ؟
§       اپنے انسانی وسائل (مربی ، ائمہ ،خطباء،منتظمین)کہاں سے لیے  ہیں اور اُن کی تربیت ــــ کہاں ، کیا اور کیسےـــــــ کی ہے؟
§       ائمہ مساجد اور قراء وخطباءکو روایتی اسلوب سے ہٹ کر اور چلاؤ کام سے آگے نکل کر معاشرے میں اثرپذیر ہونے کی کس قدر مہارت،آزادی اور تربیت دی  ہے؟
§       مسجد اور کمیونٹی کے درمیان تعلق صرف عبادت گاہ کا متعین  کیاہے ـــــــــــــــیاــــــــــــــــایک زندہ مرکزاور اس کے گرد گھومتے سیاروں کا؟
§       دین کے بنیادی متون ـــــــــــقرآن وفرامین پیغمبرﷺ ـــــــ ضروری فقہیات اور منتخب فکری و تکنیکی اسباق  کوـــــــاپنی کمیونٹی کے چھوٹے بڑوں  اور مردوزن تک ایک یا دوسرے طریقے /رستے سے پہنچانے/سکھانے /عامل بنانے کے لیے کیا شعوری اور دلی کوششیں کی ہیں؟
§        معاشرہ اگر لفظ "اسلام" کی "بیان شدہ تشریحات"سے خوف/ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے ــــــــتو جن ناموں /اصطلاحات سے وہ مانوس ہےــــــــــاُنہیں استعمال کرنے کے مواقع سےفائدہ اٹھایا ہے؟
§        شریعت کی بیان کردہ اصطلاحـــــ "علم"ــــــ کو اس کے اصل اور وسیع تر مفہوم ــــــیعنی ـــــفلاحِ دارین ــــ کے تناظر میں اپنی کمیونٹی کا حال اور مستقبل بنانے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں؟

کیا یہ سب کچھ اہل مسجد کے بھی ذمہ ہے؟
"دین سراسر خیرخواہی ہے " ــــــ اس فرمانِ پیغمبرﷺ کی سمجھ جن کو آ جائے ـــــــوہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اردگرد پھیلی آگ کا تماشادیکھ ہی نہیں سکتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا  ـــــــــــکہ اپنے جیسے انسانوں کو پروانوں کی مانند "شمعِ تہذیب"کی لو کا رزق ہوتے دیکھیں ـــــاور پھر دامنِ عافیت سمیٹ کر ایک محدود سے "روحانی تجربے  "تک خود کو محدود کر لیں ۔ اُن کے سامنے صرف اپنی فلاح کے لیے بھاگ دوڑ کرنا نہیں رہتا ـــــــــ انہیں سامنے اپنے اہل و عیال نظر آتے ہیں ــــــجنہیں اُس آگ سے بچانے کا حکم آسمان سے نازل ہو اہے ــــــجو ہر سالم و کامل کو مکسور و منشور کر دے گی ــــــجس کی ایک لپٹ اور بھبک ہی تکلیف کا ایسا باب کھول دے گی، کہ جس کا مداوا آسمان اور زمین میں کسی سے نہ ہو گا ۔ایسے حضرات و خواتین اہل و عیال کے بعد اعزہ و اقارب ، اہل محلہ اور اپنی بساط کے مطابق اگلے بڑے دائروں میں کام کے رستے تلاش کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کے سوا اُن کو کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔
اب ایسے حالات میں ، کہ جب مسلم عوام بالعموم اور مسلم شباب بالخصوص اپنے "عبد"کے سٹیٹس اور "امت" کے تصور سے زیادہ مانوس نہیں ہیں ـــــــــــــکیا یہ اہل مسجد ـــــاور اُن تمام اربابِ حل و عقد (مقتدر علماء، زعمائے مدارس،جدید و قدیم پہ دسترس رکھنے والے اہل علم ، حکومتی عہدیداران، دینی جماعات ،طلباء تنظیمات)،جو مسجد اور اہل مسجد کے لیے آئیڈیل، شعوری لائحہ عمل اور لاشعوری رہنمائی ـــکا انتظام کرتے ہیں ــــــ کے ذمہ نہیں ہے، کہ اس سلسلہ میں اپنا کرنے کا کام پہچانیں ۔ اگر  کفر و عصیان سائنسی انداز میں آپ کی نئی نسل پہ حملہ آور ہے ـــــــــتو آپ بھی اس سلسلہ میں کچھ وقت سوچنے کے لیے نکالیں ـــــــــــخالی برا بھلا کہنے سے تو کچھ نہ ہو گا۔اور یہ کام آپ نہ کریں گے، تو کون کرے گا؟ـــــــــآسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ، نصرت کا نہیں ــــــــــــــــشرط نیک نیتی ،علمی پختگی،داعیانہ بصیرت اور استقامت کے ساتھ اس میدان میں اترنا ہے ۔ (جاری ہے)



نیویں لوک نے جنے ـــــــــــــــــــــپنجابی غزل

پنجابی غزل


نیویں لوک نیں۔۔ جنے سارے
اُچے کوٹھے ۔۔۔۔ پائی جاندے


اندروں اندری ۔۔لُٹ کے حاکم
باہرو باہر ۔۔ ۔۔ گھلائی جاندے


کُھلیاں کرن نوں ۔۔محلاں اپنیاں
ساڈی ڈھاری۔۔ ڈھائی جاندے


کُرسی خاطر ۔۔مرگئے جیہڑے
اوہ وی شہید ۔۔کہوائی جاندے


آپ نے سُندے۔۔ آنند بھیرویں
سانوں بِین ۔۔۔۔ سُنائی جاندے


فلک شیر​


بدھ، 1 جولائی، 2015

قصہ حاجی محمد ڈوگر کا (قسط دوم)

قصہ حاجی محمد  ڈوگر کا (قسط  دوم)

 چوپالوں، بیٹھکوں، ڈیروں اور اوطاقوں کے رزق میں ازل سے "قصہ"لکھ دیا گیا تھا۔قصہ، جس میں بات سے بات نکلتی ہے اور انسانی زندگیوں کے ایسے ایسے گوشے سامنے آتے ہیں ،کہ کسی کتاب میں  کہاں لکھے ہوں گے۔فی زمانہ بدلتے حالات،مقامات اور وسائل نے قصہ خوانی کے رنگ ڈھنگ اور انداز بدل کر رکھ دیے ہیں ۔ یہ قصہ جو میں بطور راوی آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں، یہ ایک استاد  اور شاگرد کی کہانی ہے ، واقعہ پہلی قسط "قصہ حاجی محمد ڈوگر ـــــ قسط اول"میں مذکور سیکرٹری بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور،حاجی محمد ڈوگر سے متعلق ہے، آئیے اُنہی کی زبانی سنتے ہیں :

"یہ آج سے کتنے ہی برس پہلے کی بات ہے، میں بھر پور زندگی گزار رہا تھا اور کسی قسم کی پریشانی مجھے لاحق نہ تھی۔ میٹھے پھلوں کے طباق کی طرح زندگی نے اپنی تمام مٹھاس میرے سامنے لا ڈھیر کی تھی۔ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ میں سوشل سرکلز میں ایک باہمت، توانا اور مستعد آدمی کے طور پر  بھی جانا جاتا تھا۔

ایک دن میں سو کر اٹھا، تو مجھے محسوس ہوا ، کہ میری آواز ٹھیک سے نہیں نکل رہی اور گلے میں کوئی مسئلہ ہے ۔ معمولی دوا دارُو کے بعد جب فرق نہ پڑا، تو مجھے پریشانی  لاحق ہوئی ۔ویسے ہی بیماری سے بندہ پریشان ہوتا ہےاور استاذ کے لیے تو اُس کا گلا خاص طور پر اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہوتا ہے۔بہرحال میں ایک اچھے ہسپتال میں چلا گیا اور اپنا چیک اپ کروایا۔ڈاکٹروں نے تفصیلی معائنے کے بعد کچھ ٹیسٹ تجویز کیے، جو میں نے اچھی لیبارٹری سے کروا لیے۔ آواز تھی، کہ بیٹھتی ہی چلی جارہی تھی۔ اگلے دن جب ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، تو میری تو دنیا ایک دم اندھیر ہو گئی ۔ مجھےبتایا گیا، کہ مجھے گلے کا کینسر ہو گیا ہے۔ اس موذی مرض کا تو نام ہی مریض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ مجھے لگا، اب میرا کچھ نہیں ہونے والا اور میرا معاملہ ختم ہونے والا ہے۔

ڈاکٹروں نے مجھے ہسپتال میں داخل کر لیا اور یوں میں اپنی بھری پری دنیا سے اٹھ کر اسپتال کے بستر پہ ہمہ دم کم ہوتی آواز اور گلے کے کینسر کے ساتھ آن پڑا تھا۔ جیسے کوئی فوجی اباؤٹ ٹرن ہو لے اچانک، ایسے ہی ایک ایک سو اسی درجے کا موڑ آ گیا تھا میری زندگی میں ۔ چند دن ایسے ہی اسپتال میں پڑا رہا ، میرے اعصاب آہستہ آہستہ جواب دیتے جا رہے تھے۔دوسری یا تیسری رات میں بستر میں پڑا سوچ رہا تھا، کہ یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ۔ آخرکس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے!

جونہی یہ سوچ میرے ذہن میں آئی، میں سنجیدگی سے اس طرف سوچنے لگا، کہ زندگی میں مجھ سے آخر کون سی ایسی بڑی غلطی سرزد ہو ئی ہے، جس کا بدلہ مجھے اس ناگہانی آفت کی صورت میں دیکھنا پڑ  رہا ہے۔سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی  اور میں نے خود کو لگی ڈرپس وغیرہ اتار کر ایک طرف کر دیں اور باہر کی سمت لپکا۔ تھوڑی ہی دیر میں ، میں اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا اور میری گاڑی شہر کے ایک معروف رہائشی علاقے کی سمت رواں دواں تھی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، کہ اسپتال سے فرار کا یہ واقعہ کسی فلم میں تو ہو سکتا ہے، حقیقت میں نہیں ۔ لیکن یہ حقیقت تھی، کہ بستر پہ لیٹے لیٹے مجھے اپنے  دورِ طالبعلمی کے ایام یاد آ گئے تھے ، جب میں پاکستان کی مشہور ترین جامعہ میں زیرِ تعلیم اور ایک طلباء تنظیم سے منسلک تھا۔ جوانی دیوانی کا دور دورہ  تھا اور رستے میں آنےوالی ہر چیز کوروند کر رکھ دینے کا جذبہ عروج پہ۔ ایسے میں طرہ یہ کہ جس طلباء تنظیم سے میں نے تعلق جوڑا تھا، اس کے متعلقین اپنے جوش و جذبے اور ولولہ انگیز مہما ت کے لیے معرف و مقبول تھے اور کسی حد تک اب بھی ہیں ۔

انہی ایام کے دوران ایک دن میں یونیورسٹی آیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ میری تنظیم کے لوگوں کی کچھ اساتذہ سے تلخ کلامی ہوئی ہے اور ایک استاذ ،قریشی صاحب(فرضی نام) نے ہماری تنظیم کے مقامی ذمہ دار کو برا بھلا بھی کہا ہے اور شاید ایک آدھ گالی وغیرہ بھی دی ہے۔ یہ سُن کر میرا خون کھولنے لگا اور میں نے دیوانگی میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور  قریشی صاحب کو ڈھونڈنے لگا ـــــــــــــ کہ  انہوں نے میری تنظیم کے ذمہ دار کو برا بھلا کیسے کہہ ڈالا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے روکنے اور ٹھنڈا کرنے کی بھر پور کوشش کی ، لیکن مجھ پہ تو تنظیمی بھوت سوار تھا، میں کہاں رکنے والا تھا ۔ آخر جب قریشی صاحب مجھے مل گئے، تو میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر انہیں ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ قریشی صاحب تو جیسے زمین میں گڑ گئے ، کہ ایک طالب علم نے ان پہ ہاتھ ہی اٹھا دیا تھا، وہ بھی سب کے سامنے ۔اُن کا سارا مان، وقار اور عزت خاک ہی میں تو مل گئی تھی۔ قریشی صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، اور مجھے انہوں نے صرف ایک جملہ ہی کہنے پہ اکتفا کیا:
میرا کوئی بیٹا نہیں ہے ـــــــــــــــــــــــ اگر ہوتا، تو تم سے بدلہ لیتا

یاد رہے، کہ پروفیسر موصوف کی کوئی نرینہ اولاد نہٰن تھی، صرف بیٹیا ں ہی بیٹیاں تھیں۔ یہ واقعہ ہوا، وقت گزرا اور میرے سمیت دیگر لوگ بھی بھول بھال گئے ۔ لیکن آج بستر پہ لیٹے جب میں نے اپنی زندگی کی پچھلی  فلم چلائی، تاکہ اپنی غلطیاں ڈھونڈ سکوں، تو مجھے قریشی صاحب اور ان کے ساتھ کی گئی اپنی زیادتی یاد آ گئی۔ اور یہ تو اب آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، کہ میری گاڑی کا رُخ انہی کی رہائش کی طرف تھا، کہ اُن سے تہِ دل سے معافی مانگ سکوں، شاید اسی سے میں کینسر جیسے موذی  مرض کے چنگل سے چھوٹ پاؤں۔ کیونکہ مسلمان یونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے، کہ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ہماری پکڑ کر لیتا ہے اور مقصد ہمارے لیے آخرت میں آسانی کرنا ہوتا ہے اور حقوق العباد تو اس سلسلہ میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

خیر ، میں  پروفیسر صاحب کی اس رہائش پہ پہنچا، جس کا مجھے آج سے کئی برس قبل تک پتہ تھا۔ سامنے وہ گھر آ یا، میں نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور ایک صاحب باہر نکلے ۔ میں نے اُن سے قریشی صاحب سے متعلق پوچھا، انہوں نے مجھے جو جواب دیا، وہ جواب ایسا تھا، کہ میں بس گرنے ہی والا تھا ۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ، کہ اس  نے مجھے کئی برس قبل قریشی صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کا بتایا تھا۔ میرا دل میرے بس میں نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا، کہ یہی سہارا تھا، اب قریشی صاحب کو کہاں سے ڈھونڈوں ، کہاں جاؤں، کیا کروں۔

تب مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ان صاحب سے پوچھا، کہ ان کی بیٹیا ں بھی تو تھیں ، وہ کیا ہوئیں؟

انہوں نے  کہا، کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان میں سے ایک اسی گھر میں مقیم ہیں اور وہ اس خاتون کے خاوند ہیں۔ اس پر میری کچھ ڈھارس بندھی اور میں نے اُن صاحب سے درخواست کی، مجھے اُس محتر م خاتون سے ملوا دیں، کہ کچھ ضروری بات کرنا ہے ۔ وہ تھوڑے ہچکچائے، لیکن پھر تیار ہو گئے ۔ کچھ ہی لمحوں بعد ہم اندرونی نشست گاہ میں تھے ۔ وہ خاتون تشریف لائیں ، ان کے خاوند بھی وہیں بیٹھ گئے ۔ میں نے انہیں ساری کہانی سنائی ، اس واقعے سے لے کر آج رات تک کی ساری کہانی۔ اور پھر اُن سے کہا،کہ قریشی صاحب تو اس دنیا سے چلے گئے ، اب آپ ہی ان کی وارث ہیں۔ میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں ۔وہ خاتون اس عظیم آدمی کی بیٹی تھی، اُس نے کہا:

جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا، ابو بھی چلے گئے ، آپ اب بیمار ہیں ، میں آپ کو اُن کی طرف سے معاف کرتی ہوں

یہ سُن کر مجھے لگا، کہ میرے سینے کا بوجھ اتر گیا ہے، کچھ دیر میں وہاں رہا اور پھر اپنی گاڑی میں واپس اسپتال چلا آیا۔ ڈاکٹر اور نرسیں حیران تھیں ، کہ میں کہاں چلا گیا تھا ور خود ہی واپس بھی آ گیا ہوں ۔ میں نے انہیں کسی طرح مطمئن کر دیا۔میں خود کو روحانی طور پر بہتر محسوس کر رہا تھا۔

اگلا دن چڑھا، ڈاکٹروں نے دوپہر کو میرے کچھ اور ٹیسٹ لیے ۔ دوست احباب آئے اور دن یونہی گزر گیا ۔ رات گزری اور اگلا دن آن پہنچا۔ اس دوپہر کو ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، ڈاکٹر تقریباً دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا، کہ آپ کی تو رپورٹس بالکل کلئیر آئی ہیں ۔ میری آواز بھی اس دن پہلے سے کچھ بہتر تھی۔ یہ سُن کر مجھے لگا، میں دنیا میں واپس آ گیا ہوں ۔ بہر حال اگلے چند دنوں  میں مزید ٹیسٹ ہوئے ، جو بالکل کلئیر تھے ۔ میری آواز معجزانہ طور پہ بالکل ٹھیک ہو گئی، پہلے کی طرح کڑک دار۔

اس واقعے نے میرا ایمان اُستاد اور شاگرد کے رشتے پہ ایسا قائم کیا ہے، کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں، یہ بات سُنا کر بچوں اور بچیوں  کو بتاتا  ہوں  کہ ماں باپ اور اساتذہ کے سامنے ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے ، آنکھ  اور خیال بھی بلند نہیں کرنا۔ ان کی اطاعت و عزت اور مان کر چلنے میں دنیا آخرت کی کامیابیاں تمہارے پاؤں چومیں گی۔اُن کے دامن سے چمٹے رہنے میں خیر ہی خیر ہے ۔اُن کے جوتے سیدھے کرنے والے بادشاہی کرتے ہیں ۔ہماری اسلامی روایات ہمیں یہی درس دیتی ہیں "

قصے کی روایت میری (فلک شیر) ہے ۔ دس ایک برس پہلے سنا تھا، شاید حافظہ کی کمزوری کے سبب کہیں کہیں واقعات تھوڑے بہت آگے پیچھے ہو گئے ہوں،لیکن سپرٹ  اور کردار وہی ہیں ، بعینہ ۔

حاجی صاحب کا قصہ آپ نے پڑھ لیا ، امید ہے آپ اسے آگے شئیر بھی کریں گے اور بچوں بچیوں کو خاص طور پہ پڑھوائیں گے ، شاید کسی دل میں یہ بھولا ہوا قصہ تازہ ہو جائے ۔