جمعرات، 31 دسمبر، 2015

عشق اور محبت میں فرق

عرض کچھ یوں ہے، کہ زندگی، انسان ، خدا ، زمانے اور کائنات کے باہم تعلق کی مانند محبّت بھی ایسا اسرار ہے، جسے علم کی ہر شاخ کے لوگوں نے مخصوص تناظر میں دیکھا اور جانا ہے............

اہلِ شریعت (اسلامی) کے ہاں اصل متون میں محبّت لفظ ملتا ہے.........عشق نہیں.......اور اُس کا مفہوم کامل اطاعت اور خود سپُردگی کاہے........

اہلِ طریقت یعنی راہِ سلُوک کے مسافر،جو دنیا کے ہر کلچر اور مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ..........اُن کے ہاں عشق کا لفظ زیادہ مستعمل ہے....اور ظاہر ہے کہ ایشیائی زبانوں میں..........

تیسری طرف اگر اِن دونوں الفاظ کا اہلِ سُخن یعنی شعراء کے ہاں استعمال دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اِن کا استعمال اساتذہ تک کے ہاں قریب قریب ایک ہی معنی میں ہوتا چلا آیا ہے...........فراق کا شعر دیکھیے:
ترکِ محبّت کرنے والو، کون بڑا جگ جیت لیا​
عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون ایسا سُکھ ہوتا تھا​

اس کی یہ تقسیم میرے انتہائی محدودعلم کے مطابق اقبال سے زیادہ واضح ہونا شروع ہوئی، اور میرے خیال میں کچھ زیادہ لمبا چلی نہیں..........کیونکہ اہلِ طریقت محبّت کے مدارج گنواتے ہیں، جومحبّت سے چلتے چلتے خُلّت (مقامِ ابراہیمیّ)تک جاتے ہیں اور اقبال اس فلسفہ حیات سے ایک حد تک متاثر بھی تھے......البتہ باقی ادبی روایات اور تحاریک نے اِس کا کوئی لمبا چوڑا اثر قبول نہیں کیا...........​

اگر ہم محبّت کو زمین اور عشق کو آسمان سے جوڑیں، تو معاملہ پھر بھی نہیں سلجھتا..........​

اگر ہم محبّت کو محض کارِ طفلاں قرار دیں...........اور عشق کو اِس سے بے حد آگے کی چیز قرار دیں، تو میری دانست میں معاملہ پھر بھی کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھتا........کیونکہ حدیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم میں خود آنجناب اپنی محبّت کو ایمان کے اہم ترین متقاضیات میں سے قرار دیتے ہیں..........آپ صرف اِسی ایک مثال سے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں،کہ محبّت اور عشق میں کوئی میلوں کی تفاوت ہر گز نہیں............آج بھی اہل عرب اعلیٰ ترین محبّت یعنی کسی دوسرے سے محض خدا کے لیے محبت کا اظہار ’’انی احبک فی اللہ‘‘ کہہ کر کرتے ہیں.............اور یہی جذبہ برصغیر پاک و ہند میں عشق کے نام سے زیادہ معروف ہے............​

سراج اورنگ آبادی کا شعر ہے، کہ​
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق کا​
کہ کتاب عقل کی طاق میں ، جیوں دھری تھی تیوں دھری رہی​

سو اگر لامحالہ یہ تقسیم ضروری ہو، تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ محبّت ’’شعور و حواس کے ساتھ کسی ذات کے ساتھ وابستگی ‘‘...................جب کہ عشق ’’عقل کی کتاب طاق میں رکھ کر اُس ذات سے وابستگی‘‘.........اسی کو شاید مغربی علماء crimson loveبھی کہتے ہیں.........اور اِس کے ساتھ دیگر platonic lovesکے حقدار تو متعدد ہوتے ہیں............اعزہ و اقارب وغیرہ وغیرہ​

اور اردو ادب میں ذرا اس اعلیٰ ترین وابستگی اور کامل ترین اطاعت و تسلیم کا نمونہ یہ شعر دیکھیے .........شاید یہی عشق ہے:​
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے​
عشق بن یہ ادب نہیں آتا​

اب اگر یہ بات چل ہی نکلی ہے، تو اِس موضوع کے میرے چند انتہائی پسندیدہ اشعار بھی سنتے جائیے:​
اختر الایمان کا شعر ہے...........الوہی عشق کی طرف بہت عمدہ اشارہ ہے:​

بِنائے عشق ترا حُسن ہی نہیں اے جان​
وہ ایک شعلہ جو عریاں نہیں ہے،وہ بھی ہے​

اور رئیس فروغ کا یہ شعر:​
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے​
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے​

اور آخر میں اطہر نفیس کا یہ شعر غالباً محبّت سے عشق کا سفر بیان کرتا ہے:​
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے​
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا​

فلک شیر

ــــــــــــــــــــــمندرجہ بالا تحریر ایک فورم پہ اسی موضوع کی بحث میں ایک نشست میں لکھا گیاــــــــــــــــــــــــــ

جمعرات، 24 دسمبر، 2015

عامر مرزا ــــــــ عمل مرزا

ایک خوبصورت آدمی کے سینے میں دل بھی خوبصورت ہو اور اسے مامور بھی خوبصورتی کی تخلیق پہ کر دیا جائے ــــــــ ساتھ ہی اسے یہ لگے کہ میرے ذمے دوسروں میں چھپی خوبصورتی اجاگر کرنا بھی ہے ـــــــ تو آپ اس شخص کو بلا جھجک عامر مرزا کہہ سکتے ہیں۔

موصوف ہمارے محترم زبیر مرزا بھائی کے برادر خورد ہیں ـــــــــ مگر ان کا کہنا ہے اور شاید بجا بھی، کہ لگتے یہ بڑے ہیں ۔ کلے ٹھلے کے بلند قامت آدمی ہیں اور چاروں کھونٹ کھلے بھی۔ کسی مضمون میں بند نہیں ، جس طرف چل پڑو، آپ کو اکثر ایک متوازن رائے کے ساتھ پہلے سے ہی اس میدان میں موجود ملیں گے۔ پیشہ ور ڈیزائنر ہیں اور اس ڈسپلن کی تدریس کراچی کی معروف ترین سرکاری اور نجی جامعات (یقین کیجیے، اردو میں یونیورسٹی کو جامعہ کہتے ہیں)  میں پڑھا رہے ہیں اور انتظامی ذمہ داریاں ھبی ادا کرتے رہے ہیں ، بلکہ ان کے بقول تو بھگتاتے رہے ہیں ـــــــــ کیونکہ ان کا ماننا ہے، کہ تدریس ہی وہ عمل ہے، جس سے اپنے نظریات اور آئیڈیلز کی تکمیل کے سفر کے لیے وہ ایندھن پاتے ہیں اور دوسروں میں اسے منتقل بھی کرتے ہیں ۔ 


"عمل"  کے نام سے ایک خواب آگے بڑھا رہے ہیں ـــــــــ اور خواب وہی ہے ، انسنی معاشروں میں خیر بانٹنے، عدل اور توازن کے قیام اور استقرار کا خواب ـــــــ آسانیاں بانٹنے اور خیر کی چابی بننے کے اس سفر میں ان کی پچھلی اور آئندہ نسل، دونوں ان کے شریک کار ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم ان کے لیے دعا گو ہیں ۔


عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں ، گو کہ ہمارے گرائیں ہیں اور پنڈوری نام کے گاؤں سے متعلق ہیں ، جو ہمارے گاؤں کے قریب ہی ہے۔ اس دفعہ چند روز کے لیے گاؤں آئے، تو تین دنوں میں ان سے دو تفصلی ملاقاتیں ہوئیں ــــــــ سماج، مذہب، ایوولیوشن سے ریولولیوشن، تدریس، جمالیات، سماجی انصاف، سیاست ، مشترکات، مختلفات، پیرنٹنگ، دیسی ولائتی ــــ سب پہ بات ہوئی ــــــــ آوارہ گردی بھی کی تھوڑی سی ــــ شہر سے دور ایک ہوٹل پہ چائے در چائے ـــــــــــ امرتیاں بھی کھائیں ـــــرات ٹھنڈ میں موٹر سائیکل پہ سواری کا ایڈونچر بھی رہاـــــــ کتاب کا تحفہ بھی وصولا ــــــ کچھ چیزیں مستقبل کے لیے سوچیں بھی مل کر "حیطہ عمل " میں لانے کی ــــــ مختصر یہ کہ ایک خواب دیکھنے والا آدمی دوسرے آدرش وادی سے ملے، تو جیسے مناظر دیکھنے کو اور باتیں سننے کو مل سکتی ہیں ، وہ ان صحبتوں میں بھی تھیں۔ 

جلال اور جمال کا مظہر عامر مرزا ہمیں اپنا اسیر کر گئے، امید ہے آئندہ بھی شفقت جاری رکھیں گے ۔


وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ایک قریبی عزیز فوج میں ڈاکٹر تھے ـــــــ اور جماعت اسلامی کے رکن بھی ـــــ انتہائی متقی اور بھلے آدمی ـــــــ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا ـــ تو وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ کی مدد اور تعاون کے فیصلہ سے دلبرداشتہ ہوئے اور افواج سے استعفا دے دیا ـــــــــــ بعد ازاں غالباً وہ اسی جذبہ کے تحت ایسے لوگوں کے قریب ہوتے گئے ، جو شریعت اسلامی کی عملی تنفیذ و قیام کے داعی تھے ــــــ اور اس سلسلہ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افواج سے برسر پیکار تھے ـــــــــ اسی شک میں ایک دن ڈاکٹر صاحب اور ان کے بڑے بیٹے کو خفیہ اداروں نے اٹھا لیا ـــــــــ بہت کوششوں کے باوجود ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی ــــــــــــ آج قید ہی میں انہوں نے جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ـــــــــ اللہ اکبر
سمجھ نہیں آتی ــــــــ اس بیوہ کا سامنا کیسے کروں گا ــــــــــ اسے یہ کیسے سمجھا پاؤں گا ، کہ ان کے خاوند کے قاتل کون ہیں !
1) وہ سب علماء، سکالرز اور دانشور ، جنہوں نے اپنے کچے پکے نظریات کو جذبات کو تڑکا لگا کر نوجوانوں کے سامنے پیش کیا اور پھر اس کے لیے جان قربان کرنے کا درس دیا ۔
2) وہ شخصیات اورادارے ، جنہوں نے قلیل المدت فوائد کے لیے طویل المدت خطرات مول لیے اور وہ زہر ہماری رگوں میں انڈیلا، جس کا تریاق خود ان کے پاس بھی نہ تھا
3) وہ جنرل یا سویلین حکمران ، جو اقتدار کی طوالت کے لیے غیر ملکیوں کے مفادات کے سامنے سر جھکا کر اپنے ہمسایہ ممالک سے متعلق پالیسیاں ان کے احکام کے مطابق ترتیب دیتے رہے ہیں 
4) وہ اسلامی جماعات ، جو اپنے سیاسی چہروں کو صرف اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں ور یوں مخلص نوجوانوں کو خود سے متنفر ہو کر عسکریت کے دامن میں پناہ لینے کا سبب بنتی رہی ہیں ۔
میں تو بچپن سے پاک فوج میں جانے کے لیے ترسا کرتا تھا ـــــــــــــــ حتی کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد تحریری امتحان پاس کیا، لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں آگے نہ جا سکا ــــــ اس پر میں اس قدر افسردہ ہوا، کہ اس کے بعد کبھی دل سے کسی کام کے لیے کوشش ہی نہ کی ، اس روز میں فورٹریس سے یادگار پیدل واپس آیا تھا ـــــ افواج پاکستان میرا رومانس تھا ـــــــ اور 
مذہبی طبقات سے قربت بھی ہمیشہ سے رہی تھی۔

دل دکھی ہے ــــــــ بہت دکھی ہے ــــــــــــــ ان مراحل سے کتنے گزرے، کتنے گزر ررہے ہیں اور کتنے ابھی گزریں گے ـــــــــــــ کون اس کا ذمہ دار ہے ـــــــــ کون اس کا بوجھ روز قیامت اپنے کندھوں پہ اٹھائے گا ـــــــــــ علماء، سیاستدان، جنرل یا ہم سب؟