جمعرات، 31 دسمبر، 2015

عشق اور محبت میں فرق

عرض کچھ یوں ہے، کہ زندگی، انسان ، خدا ، زمانے اور کائنات کے باہم تعلق کی مانند محبّت بھی ایسا اسرار ہے، جسے علم کی ہر شاخ کے لوگوں نے مخصوص تناظر میں دیکھا اور جانا ہے............

اہلِ شریعت (اسلامی) کے ہاں اصل متون میں محبّت لفظ ملتا ہے.........عشق نہیں.......اور اُس کا مفہوم کامل اطاعت اور خود سپُردگی کاہے........

اہلِ طریقت یعنی راہِ سلُوک کے مسافر،جو دنیا کے ہر کلچر اور مذہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ..........اُن کے ہاں عشق کا لفظ زیادہ مستعمل ہے....اور ظاہر ہے کہ ایشیائی زبانوں میں..........

تیسری طرف اگر اِن دونوں الفاظ کا اہلِ سُخن یعنی شعراء کے ہاں استعمال دیکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ اِن کا استعمال اساتذہ تک کے ہاں قریب قریب ایک ہی معنی میں ہوتا چلا آیا ہے...........فراق کا شعر دیکھیے:
ترکِ محبّت کرنے والو، کون بڑا جگ جیت لیا​
عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون ایسا سُکھ ہوتا تھا​

اس کی یہ تقسیم میرے انتہائی محدودعلم کے مطابق اقبال سے زیادہ واضح ہونا شروع ہوئی، اور میرے خیال میں کچھ زیادہ لمبا چلی نہیں..........کیونکہ اہلِ طریقت محبّت کے مدارج گنواتے ہیں، جومحبّت سے چلتے چلتے خُلّت (مقامِ ابراہیمیّ)تک جاتے ہیں اور اقبال اس فلسفہ حیات سے ایک حد تک متاثر بھی تھے......البتہ باقی ادبی روایات اور تحاریک نے اِس کا کوئی لمبا چوڑا اثر قبول نہیں کیا...........​

اگر ہم محبّت کو زمین اور عشق کو آسمان سے جوڑیں، تو معاملہ پھر بھی نہیں سلجھتا..........​

اگر ہم محبّت کو محض کارِ طفلاں قرار دیں...........اور عشق کو اِس سے بے حد آگے کی چیز قرار دیں، تو میری دانست میں معاملہ پھر بھی کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھتا........کیونکہ حدیثِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم میں خود آنجناب اپنی محبّت کو ایمان کے اہم ترین متقاضیات میں سے قرار دیتے ہیں..........آپ صرف اِسی ایک مثال سے معاملے کو سمجھ سکتے ہیں،کہ محبّت اور عشق میں کوئی میلوں کی تفاوت ہر گز نہیں............آج بھی اہل عرب اعلیٰ ترین محبّت یعنی کسی دوسرے سے محض خدا کے لیے محبت کا اظہار ’’انی احبک فی اللہ‘‘ کہہ کر کرتے ہیں.............اور یہی جذبہ برصغیر پاک و ہند میں عشق کے نام سے زیادہ معروف ہے............​

سراج اورنگ آبادی کا شعر ہے، کہ​
وہ عجب گھڑی تھی کہ جس گھڑی، لیا درس نسخہ عشق کا​
کہ کتاب عقل کی طاق میں ، جیوں دھری تھی تیوں دھری رہی​

سو اگر لامحالہ یہ تقسیم ضروری ہو، تو یوں کہہ لیتے ہیں کہ محبّت ’’شعور و حواس کے ساتھ کسی ذات کے ساتھ وابستگی ‘‘...................جب کہ عشق ’’عقل کی کتاب طاق میں رکھ کر اُس ذات سے وابستگی‘‘.........اسی کو شاید مغربی علماء crimson loveبھی کہتے ہیں.........اور اِس کے ساتھ دیگر platonic lovesکے حقدار تو متعدد ہوتے ہیں............اعزہ و اقارب وغیرہ وغیرہ​

اور اردو ادب میں ذرا اس اعلیٰ ترین وابستگی اور کامل ترین اطاعت و تسلیم کا نمونہ یہ شعر دیکھیے .........شاید یہی عشق ہے:​
دور بیٹھا غبارِ میر اُس سے​
عشق بن یہ ادب نہیں آتا​

اب اگر یہ بات چل ہی نکلی ہے، تو اِس موضوع کے میرے چند انتہائی پسندیدہ اشعار بھی سنتے جائیے:​
اختر الایمان کا شعر ہے...........الوہی عشق کی طرف بہت عمدہ اشارہ ہے:​

بِنائے عشق ترا حُسن ہی نہیں اے جان​
وہ ایک شعلہ جو عریاں نہیں ہے،وہ بھی ہے​

اور رئیس فروغ کا یہ شعر:​
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے​
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے​

اور آخر میں اطہر نفیس کا یہ شعر غالباً محبّت سے عشق کا سفر بیان کرتا ہے:​
عشق فسانہ تھا جب تک، اپنے بھی بہت افسانے تھے​
عشق صداقت ہوتے ہوتے کتنا کم احوال ہوا​

فلک شیر

ــــــــــــــــــــــمندرجہ بالا تحریر ایک فورم پہ اسی موضوع کی بحث میں ایک نشست میں لکھا گیاــــــــــــــــــــــــــ

جمعرات، 24 دسمبر، 2015

عامر مرزا ــــــــ عمل مرزا

ایک خوبصورت آدمی کے سینے میں دل بھی خوبصورت ہو اور اسے مامور بھی خوبصورتی کی تخلیق پہ کر دیا جائے ــــــــ ساتھ ہی اسے یہ لگے کہ میرے ذمے دوسروں میں چھپی خوبصورتی اجاگر کرنا بھی ہے ـــــــ تو آپ اس شخص کو بلا جھجک عامر مرزا کہہ سکتے ہیں۔

موصوف ہمارے محترم زبیر مرزا بھائی کے برادر خورد ہیں ـــــــــ مگر ان کا کہنا ہے اور شاید بجا بھی، کہ لگتے یہ بڑے ہیں ۔ کلے ٹھلے کے بلند قامت آدمی ہیں اور چاروں کھونٹ کھلے بھی۔ کسی مضمون میں بند نہیں ، جس طرف چل پڑو، آپ کو اکثر ایک متوازن رائے کے ساتھ پہلے سے ہی اس میدان میں موجود ملیں گے۔ پیشہ ور ڈیزائنر ہیں اور اس ڈسپلن کی تدریس کراچی کی معروف ترین سرکاری اور نجی جامعات (یقین کیجیے، اردو میں یونیورسٹی کو جامعہ کہتے ہیں)  میں پڑھا رہے ہیں اور انتظامی ذمہ داریاں ھبی ادا کرتے رہے ہیں ، بلکہ ان کے بقول تو بھگتاتے رہے ہیں ـــــــــ کیونکہ ان کا ماننا ہے، کہ تدریس ہی وہ عمل ہے، جس سے اپنے نظریات اور آئیڈیلز کی تکمیل کے سفر کے لیے وہ ایندھن پاتے ہیں اور دوسروں میں اسے منتقل بھی کرتے ہیں ۔ 


"عمل"  کے نام سے ایک خواب آگے بڑھا رہے ہیں ـــــــــ اور خواب وہی ہے ، انسنی معاشروں میں خیر بانٹنے، عدل اور توازن کے قیام اور استقرار کا خواب ـــــــ آسانیاں بانٹنے اور خیر کی چابی بننے کے اس سفر میں ان کی پچھلی اور آئندہ نسل، دونوں ان کے شریک کار ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم ان کے لیے دعا گو ہیں ۔


عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں ، گو کہ ہمارے گرائیں ہیں اور پنڈوری نام کے گاؤں سے متعلق ہیں ، جو ہمارے گاؤں کے قریب ہی ہے۔ اس دفعہ چند روز کے لیے گاؤں آئے، تو تین دنوں میں ان سے دو تفصلی ملاقاتیں ہوئیں ــــــــ سماج، مذہب، ایوولیوشن سے ریولولیوشن، تدریس، جمالیات، سماجی انصاف، سیاست ، مشترکات، مختلفات، پیرنٹنگ، دیسی ولائتی ــــ سب پہ بات ہوئی ــــــــ آوارہ گردی بھی کی تھوڑی سی ــــ شہر سے دور ایک ہوٹل پہ چائے در چائے ـــــــــــ امرتیاں بھی کھائیں ـــــرات ٹھنڈ میں موٹر سائیکل پہ سواری کا ایڈونچر بھی رہاـــــــ کتاب کا تحفہ بھی وصولا ــــــ کچھ چیزیں مستقبل کے لیے سوچیں بھی مل کر "حیطہ عمل " میں لانے کی ــــــ مختصر یہ کہ ایک خواب دیکھنے والا آدمی دوسرے آدرش وادی سے ملے، تو جیسے مناظر دیکھنے کو اور باتیں سننے کو مل سکتی ہیں ، وہ ان صحبتوں میں بھی تھیں۔ 

جلال اور جمال کا مظہر عامر مرزا ہمیں اپنا اسیر کر گئے، امید ہے آئندہ بھی شفقت جاری رکھیں گے ۔


وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے

ایک قریبی عزیز فوج میں ڈاکٹر تھے ـــــــ اور جماعت اسلامی کے رکن بھی ـــــ انتہائی متقی اور بھلے آدمی ـــــــ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا ـــ تو وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ کی مدد اور تعاون کے فیصلہ سے دلبرداشتہ ہوئے اور افواج سے استعفا دے دیا ـــــــــــ بعد ازاں غالباً وہ اسی جذبہ کے تحت ایسے لوگوں کے قریب ہوتے گئے ، جو شریعت اسلامی کی عملی تنفیذ و قیام کے داعی تھے ــــــ اور اس سلسلہ میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں افواج سے برسر پیکار تھے ـــــــــ اسی شک میں ایک دن ڈاکٹر صاحب اور ان کے بڑے بیٹے کو خفیہ اداروں نے اٹھا لیا ـــــــــ بہت کوششوں کے باوجود ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی ــــــــــــ آج قید ہی میں انہوں نے جاں جانِ آفریں کے سپرد کی ـــــــــ اللہ اکبر
سمجھ نہیں آتی ــــــــ اس بیوہ کا سامنا کیسے کروں گا ــــــــــ اسے یہ کیسے سمجھا پاؤں گا ، کہ ان کے خاوند کے قاتل کون ہیں !
1) وہ سب علماء، سکالرز اور دانشور ، جنہوں نے اپنے کچے پکے نظریات کو جذبات کو تڑکا لگا کر نوجوانوں کے سامنے پیش کیا اور پھر اس کے لیے جان قربان کرنے کا درس دیا ۔
2) وہ شخصیات اورادارے ، جنہوں نے قلیل المدت فوائد کے لیے طویل المدت خطرات مول لیے اور وہ زہر ہماری رگوں میں انڈیلا، جس کا تریاق خود ان کے پاس بھی نہ تھا
3) وہ جنرل یا سویلین حکمران ، جو اقتدار کی طوالت کے لیے غیر ملکیوں کے مفادات کے سامنے سر جھکا کر اپنے ہمسایہ ممالک سے متعلق پالیسیاں ان کے احکام کے مطابق ترتیب دیتے رہے ہیں 
4) وہ اسلامی جماعات ، جو اپنے سیاسی چہروں کو صرف اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں ور یوں مخلص نوجوانوں کو خود سے متنفر ہو کر عسکریت کے دامن میں پناہ لینے کا سبب بنتی رہی ہیں ۔
میں تو بچپن سے پاک فوج میں جانے کے لیے ترسا کرتا تھا ـــــــــــــــ حتی کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد تحریری امتحان پاس کیا، لیکن میڈیکل ٹیسٹ میں آگے نہ جا سکا ــــــ اس پر میں اس قدر افسردہ ہوا، کہ اس کے بعد کبھی دل سے کسی کام کے لیے کوشش ہی نہ کی ، اس روز میں فورٹریس سے یادگار پیدل واپس آیا تھا ـــــ افواج پاکستان میرا رومانس تھا ـــــــ اور 
مذہبی طبقات سے قربت بھی ہمیشہ سے رہی تھی۔

دل دکھی ہے ــــــــ بہت دکھی ہے ــــــــــــــ ان مراحل سے کتنے گزرے، کتنے گزر ررہے ہیں اور کتنے ابھی گزریں گے ـــــــــــــ کون اس کا ذمہ دار ہے ـــــــــ کون اس کا بوجھ روز قیامت اپنے کندھوں پہ اٹھائے گا ـــــــــــ علماء، سیاستدان، جنرل یا ہم سب؟

منگل، 25 اگست، 2015

ارشادات غامدیہ ـــــــــــــــــــایک جائزہ

ارشادات غامدیہ ـــــــــــــــــــایک جائزہ
جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اس ویڈیو میں "اسلامی دہشت گردی"سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ، اس پہ 

اس طالب علم نے چند سطریں لکھیں ہیں ، جو پیش خدمت ہیں۔

غامدی صاحب فرما رہے ہیں ، کہ مسلمانوں کی طرف سے دہشت گردیکے جو واقعات سامنے آ رہے ہیں ، یہ فکری گمراہی 

کا نتیجہ ہیں اور اس کی وجہ مدارس اور مذہبی شخصیات کی طرف سے سکھائی پڑھائی جانے والی چار باتیں ہیں :

1)دنیا بھر میں جہاں شرک اور ارتداد ہے، اس کی سزا قتل ہےــــــــــــ اور اس سزا کا نفاذ ہمارے ذمہ ہے

2)حکومت کا حق صرف مسلمانوں کو ہے ـــــــــــاور غیر مسلموں کی کوئی بھی حکومت جائز حکومت نہیں ہے ــــــــہمیں 
جب بھی موقع ملے گا، ہم اسے ان سے چھین لیں گے

3)نیشن سٹیٹس (پاکستان ، سعودی عرب، ترکی ،انڈونیشیا وغیرہ) کفریہ ریاستیں ہیں ۔ ان کو شرعی بنیاد فراہم نہیں ہے

4)خلافت اسلامیہ کا قیام فرض ہے اور مسلمانوں کی الگ الگ ریاستیں اور حکومتیں مطلوب و مستحسن نہیں ہیں ۔

اب ذرا نمبر وار ان پہ مختصر ترین الفاظ میں تبصرہ ہو جائے۔

1)غامدی صاحب کو یہ کس نے کہہ دیا، کہ ہر مدرسہ یا مذہبی مفکر کھلے یا چھپے یہ سکھاتا ہے ، کہ دنیا میں جہاں کہیں ، 

شرک یا بالخصوص ارتداد ہے ، اس کی سزا موت ہے اور اس سزا کے نفاز کا ذمہ دار وہ مدرسہ یا عالم ہے ۔ اس سلسلہ میں 

غامدی صاحب کی لاعلمی بتاتی ہے، کہ ان کے "جوابی بیانیے"میں کتنی جان ہے اور اس کی علمی و فکری حیثیت کیا ہے۔

2) غامدی صاحب کو اہل اسلام کے اس خیال، کہ حکومت مسلمانوں کا حق ہے، پہ تو شدید اعتراض ہے ــــــــلیکن اسی کرہ 

ارضی کے لمحہ موجود کے "اصلی تے وڈے حاکم"کی اسی خواہش ــــــــبلکہ پرزور اور پر اصرار خواہش تو نظر نہ آتی 

ہوگی ـــــــــــ وہ اصلی حاکم ، جو اپنی اس خواہش کو فرمان امروز کا درجہ دیتے ہیں اور اس کے رستے میں آنے والے ہر 

کہ و مہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے اور پتھر کے دور تک پہنچا دینے کا کھلے عام اعلان فرماتے ہیں ۔ اور ان کی اس 

خواہش کے سامنے صرف مسلم ہی نہیں ، جو کوئی بھی کھرا ہونے کا خوہاں ہے یا رہا ہے ، اس سے ان کا رویہ اور سلوک 

یہی رہا ہے ۔ غامدی صاحب سیاسی مسائل ، معاشی بدمعاشیوں اور اپنے کلچر کو دوسروں کے گلے میں زبردستی منڈھنے 

سمیت بہت سی وجوہات میں سے ایک یاد رکھتے اور پورے وثوق سے بیان بھی فرماتے ہیں ــــــــــــــــــاور باقی سب ؟؟؟

3)یہ کہنا ، کہ نیشن سٹیٹس پہ تمام مدارس اور مذہبی زعماء کا یہی نکتہ نظر ہے ــــــــــــــایک گمراہ کن سویپنگ سٹیٹمنٹ 

ہے ــــــــــــ اب آتے ہیں اس طرف، کہ خلافت کے اس تصور سے کسی کو کیا مسئلہ ہے ــــــــــــــــتو بھائی نیٹو نامی اتحاد 

بنانے والوں سے بھی کبھی آپ نے پوچھا، کہ تمہارے منہ میں کتنے دانت ہیں ــــــــــــــــ کس کے خلاف اتنی تیاریاں ہیں 

ـــــــــــــ کیوں تمہارا سکہ ایک اور سرحدیں معدوم ہیں ؟

غامدی صاحب! سر ریت میں دینے سے طوفان گزر نہیں جاتے ــــــــــــــ مغرب کو خوش کرنے کی دھن میں ہم کہاں تک 

چلے جائیں ـــــــــــوہ کریں ، تو "معاشی ناہمواریوں کا حل تلاش کرنے کی کوشش"اور ہم کریں ۔ تو "خلافت اسلامیہ "کا 

ہوا!!!

اب یہ بھی سن لیں ، کہ مسلم ممالک کی اکثریت ، بشمول علماء و مذہبی قیادت ـــــــــیہ بات بخوبی سمجھتی ہے، کہ مسلم 

زمینیں محفوظ رہنی چاہییں ـــــــــوہاں کسی قسم کی عسکریت ان سرزمینوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گی۔ شیخ اسامہؒ 

کے دنیا کے مختلف علاقوں کی جہادی قیادتوں کو ایسے اشارے ملتے رہے، جن میں قاعدہ تنظیم کی مسلم سر زمینوں میں 

عسکری کارروائیاں کرنے کی غلطی سے اجتناب کا مشورہ تھا۔ تو بھائی! یہ پاکستان، مصر، ترکی، انڈونیشیا اہل اسلام کی 

سرزمینیں ہیں ـــــــــــ ان کا تحفظ ہمارے ذمے ہے ــــــاللہ نے توفیق دی، تو مل جل کر بھی بسر کریں گے ــــــــــابھی انہیں 

کفر کی سرزمینیں کہنا بعض لوگوں کے شذوذ میں شامل ہے ـــــــــــالبتہ ان سرزمینوں میں اہل ہوا کے بنائے ہوئے ایسے 

قوانین، جو شرع اللہ سے ٹکراتے ہیں ، اس کے لیے آئینی اور پرامن جدوجہد پہ تمام مذہبی حلقوں کا یقین اور عمل ہے۔ ایسے 

میں آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں، کہ نیشن سٹیٹس سے متعلق تمام اہل اسلام پر تشدد رویہ پالتے ہیں ؟؟

4)خلافت اسلامیہ سے متعلق کچھ بات تو اوپری پوائینٹ میں ہو گئی ـــــــــ کچھ یہاں

اسلامی حکومت کیسے قائم ہو ــــــــــــیہ ایک سوال ہے، جس کا جواب مختلف اہل علم نے اپنی تحاریر اور امت کے جید 

لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی عمل سے مختلف صدیوں میں دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ کہنا، کہ یہ قطعاً مطلوب نہیں ہے 

ــــــــــــایک جھوٹ ہے ــــــ اور یہ کہنا، کہ اس سے کم تر ایک لمحے کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ـــــــــــــایک جذباتی 

بیان

غامدی صاحب کے اس سارے جوابی بیانیے اور نظام فکر کی جو بنیاد ، یہ فقیر قلم کار سمجھ پایا ہے، وہ یہی ہے ، کہ اسلام 

، بلکہ کوئی بھی مذہب "فرد" کا مسئلہ ہے، ریاست کا نہیں ــــــــــــــ تو اس بات کو چھپانے کی آپ کو کیا ضرورت 

ہےـــــــــــــــدوسری طرف آپ کے مسلم بھائیوں کا یہ خیال ہے، کہ یہ فرد کا بھی معاملہ ہے اور ریاست کا بھی !!!

آپ سے ویسے یہ سوال ہےــــــــــــکہ مسلمانوں کو جوابی بیانیے کی نصیحت فرماتے ہوئے آپ کو کبھی خیال آیا، کہ اپنی 

دانشورانہ صلاحیتوں سے "مغرب کے نیک لوگوں"کو ان کی "نیکیوں"سے باز رہنے کا بھی کوئی حل اور طریقہ سمجھا دیں


والی اللہ المشتکی

فلک شیر

جمعہ، 14 اگست، 2015

بدلتی ہوئی دنیا میں مسجد کا کردار ــــــــــــــــــــچند معروضات (قسط دوم)

آئیے ، تھوڑے سے شرو ع کریں:
 قدم اٹھانے والے سے آسمان والے کا دعوا ہے ـــــــــــــکہ رستے ہم سجھائیں گے ــــــاور آسان بھی کریں گے۔ طریقِ نبویﷺ کی پیروی کےساتھ ــــــــتخلیقیقت اور فطرت سلیم اس سلسلہ میں آپ کی انتہائی  مددگار ہوں گی۔سوچیے ــــــــــــــاوپر کے نکات اور ہماری ذمہ داریوں کے بارے میں خوب سوچیے ـــــــرستے رزق میں ملیں گے اور چلنا آسان تر ہو گا۔
یہاں ہم  ایسے چند اقدامات کا تذکرہ کریں گےـــــــ جو اس سلسلہ میں اہل مسجد کو اپنا کردار ادا کرنے میں تیار کریں گے اور مواقع پیدا کریں گے۔ان میں سے کچھ چیزیں مختلف اہل علم نے اپنے مقالہ جات اور نصائح میں ذکر کی ہیں ــــــاور ـــــکچھ ہم عرض کر رہے ہیں ۔
·       مسجد اللہ کا گھر ــــــاس کے کلام کی تدریس و تشہیر کا مرکزــــــاوپر سے دیکھ کر پڑھنا، حفظ کا اہتمام ــــترجمہ کی تدریس و تفہیم (مکمل نہیں ـــــتو منتخب نصاب کی)ـــــ حفظ و تفسیر اور ترجمہ و معلومات کے مقابلہ جات ــــیہ سب مسجد کا طرہ امتیاز ہونا چاہیے ـــــــاہل مسجد کو سوچنا چاہیے ، کہ لوگ اپنے نونہالوں کو اوپر بیان کیے گئے کاموں کے لیے مسجد میں بھیجنے کے بجائے "قاری صاحب" سے گھر ہی میں کیوں پڑھوانے لگے ؟
کیا اس محرومی ـــــــــظاہر ہے کمیونٹی کی ــــ
ــکا کوئی تجزیہ اور تدارک ـــــاہل مسجد نے فرمانے کی کوشش کی؟ـــــــــــــــــــنہیں کی، تو یہ کرنے کا وقت ہے ـــــاور مسجد کے ذمہ اہم ترین کاموں میں سے سر فہرست بھی۔اس میں ناکامی سے آپ نہ صرف اپنے ہاتھ سے ایک مؤثر ترین ہتھیار خود ہی نیچے رکھ دیں گے ـــــ بلکہ قرآن کو خدانخواستہ "ٹیوشن"لی گئی کتب میں سے ایک کا درجہ نوجوان کے ذہن میں بٹھا دیں گے ــــاوور ظاہر ہے ، اس کا کوئی سدباب کل آپ نہ کر پائیں گے، جب وہ نوجوان معاشرے کے عملی دھاروں میں سے کسی ایک میں کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔
قرآن سے محبت پیدا کرنا مسجد کا ایک بنیادی وظیفہ ہے ــــــــکیونکہ معلومات کے اس سیلاب میں اگر آپ نوجوان کو "الکتاب"سے آشنا نہ کروائیں گے ـــــتو کل اس سے توقعات باندھنا ایک لایعنی امر ہو گا ـــــاسلاف اسی لیے تو  فرمایا کرتے تھے :
"تم اپنے بچوں کو قرآن سکھا دوــــــــــــــــــقرآن انہیں سب کچھ سکھا دے گا"
ایک زندہ کتاب سے ایک زندہ ترتعلق ــــــــــــــــــــــ اے اہل مسجد !!
ایک زندہ تر تعلق!!
تو اے میرے عزیز اہل مسجد!
چند بنیادی چیزوں پہ نظر دوڑا لیں ؟
1.     مساجد میں متعین قراء کرام اور ائمہ حضرات کا طالب علموں سے تعلق خوف کا ہے یا محبت کا ــــــ یا ان دونوں کے درمیان درمیان کسی جذبے کا ــــــــــ یا پھر خدا نہ کرے ــــــوہی جو ـــــایک "استاد" کا کسی "چھوٹے"سے ہوتا ہے ۔
2.     قرآنی عربی پڑھانے کے لیے ہماری مہارت اور طریقہ کار ــــــــــــ آج کے طالب علم کے دیگر زبانیں سیکھنے کے طریقہ سے کچھ میل کھاتا ہے؟
اگر نہیں ، تو کیا ہمیں اس سلسلہ میں لسانی مہارتوں اور دیگر معاونات کا استعمال کرنے کی طرف کچھ توجہ کرنے کی ضرورت ہے؟
3.     ایک عجمی کے دل میں قرآن کی محبت کیسے پیدا کی جائے ـــــــــــــــشاید مضامین قرآن کی دلچسپ طریقہ سے پیش کاری (متعدد تحریری ،زبانی اور تکنیکی ذرائع سے)اس کا ایک ذریعہ ہےـــــــــــتو اس کی طرف کچھ توجہ کی جائے۔دیگر اہل علم سے اس ضمن میں تفصیل سے کلام کی درخواست کر رہا ہوں ۔
4.     اوامر و نواہی کی تلخیص کر کے ابتدائی عمر ہی میں ذہن نشین اور بڑھتی عمر کے ساتھ دل نشین کروانے کی کوشش کی جائے۔
یہ محض چند نکات برائے انگیخت ہیں ـــــــــــتاکہ اس سلسلہ میں دیگر اہل علم اپنے تجربات اور علم کی روشنی میں عملی اقدامات و تجاویز سامنے لائیں۔
·       خطباتِ جمعہ اور وعظ و تذکیر کے لیے مقرر کیے گئے حضرات محض "بولنے"کی صلاحیت سے آگے بڑھ کر قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں ــــــــــــــاس سلسلہ میں اہل مساجد کو انتخاب خوب سوچ سمجھ کر فرمانا چاہیے۔ بہت سی جگہوں پہ دیکھا گیا ہے ، کہ خطیب کے انتخاب میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ، وہ خطابت کا جوہر ہوتا ہے ـــــــــــــــــشک نہیں، کہ یہ بھی اہم ہے، لیکن بات یہ ہے کہ اہم تر چیز تدین، علمی رسوخ ، قدیم و جدید پہ کسی حد تک یکساں نظر، فی زمانہ الحاد و تشکیک کے فتنوں سے نمٹنے اور ان کی ناکہ بندی کی استعداد، دین کو بطور ایک کُل عوام کو سمجھانے اور عمل کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی جہد و صلاحیت ـــــ
آپ کا کہنا بجاــــکہ ایسے افراد کہاں سے لائے جائیں ـــــتو ہم اوپر عرض کر چکے ہیں ، کہ جب ہم اہل مسجد کو مخاطب کرتے ہیں ـــــتو اس میں کچھ دیگر گروہ اور افراد بھی آ تے ہیں ــــــجو یقیناً اس سب کو کرنے کی خاطر خواہ صلاحیت رکھتے ہیں ــــــدعا ہے، کہ خواہش بھی پیدا ہو جائے ۔
·       دینی اجتماعات (محافل قراءت،مجالسِ نعت نبویﷺ، دروس قرآن و حدیث، تفہیم مسائل )کے انعقاد کے سلسلہ میں بے شک مساجد ایک اہم مرکز ہیں ــــــاور کسی نہ کسی شکل میں اپنا کردار ادا بھی کرتی ہیں ۔ کوشش البتہ یہاں بھی ہونا چاہیے، کہ روایتی طریقوں سے ہٹ کر ایسے غیر روایتی پروگرام بھی ترتیب دیے جائیں، جو اپنی شباہت و ترتیب میں بے شک خالصتاً مذہبی نہ ہوں ــــــــــکتب کی نمائش اس کی ایک مثال ہے، جو مسجد کے روایتی تصور سے آگے بڑھ کر نمازی کے علاوہ "کتاب دوست"حلقوں کو آپ کے قریب کرنے میں معاون ہو سکتی ہے ۔ ذرا ذہن پہ زور دیجیے ــــــــــــــــیہیں بیٹھے بیٹھے ایسے کتنے ہی اجتماعات کے خاکے آپ کے ذہن میں ابھرنے لگے ہیں ۔
·       خواتین ـــــــــمعاشرے کا وہ محترم طبقہ ہیں ، جو "ہمسایوں"اور سات سمندر پار کے"محسنوں"کے ثقافت اور آزادی کے نام پہ پھینکے گئے دل کش جال کی اسیرہو چکی ہیں ــــــــــــگو میں انہیں اس سلسلے کا اولین مجرم نہیں ٹھہراتا ـــــــتو اے میرے محترم اہل مسجد!
ان کی اس قید سے رہائی کا کل سامان جو ہم کر چکے ہیں
ـــــوہ کیا ہے؟
 سالانہ بنیادوں پہ رمضان کے چند دروس ــــــــمیلاد کی مروجہ محافلــــــنصیحت کے لیے چھپنے والے  چند مجلاتــــبس ـــــــبس؟؟
ذرا دل تھام کر مجھے جواب دیجیے ـــــــجن  گودوں میں "مسلم"اور"مسلمین"کی پرورش ہو رہی ہوـــــاُن کو اس بے خدا تہذیب اور طرزِ حیات سے خبردار کر  کے راہِ حق کا مسافر بننے پہ قائل کرنے کے لیے اتنا کچھ کافی ہے؟؟
یقیناً نہیں ــــــــــــــتو چلیے اتنے سے شروع کرتے ہیں
1.     خواتین کی صحت کے حوالہ سے ہلکے پھلکے معلوماتی طبی پروگرامات اور کیمپس
2.     بچیوں ، بالخصوص نوعمر سکول کالج جانے والی بچیوں کے لیے ذہنی پختگی کا سامان ـــــــ مختصر قرآنی دورہ جات، فقہ و حدیث اور خواتین کے مخصوص مسائل کے حوالہ سے ان کی رہنمائی ،زناو نکاح کے فرق اور اس طرف رغبت دلانے والے عوامل کے نعم البدل کی فراہمی ــــــــــــ کرنے کے بنیادی کام ہیں ــــــــــکچھ اس طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اہل مسجد کو ایک سے ایک نئے ڈھنگ اور معاشرے کو مقبول ایسے انداز اختیار کرنے کی بھی، جو شرع سے ٹکراتے نہ ہوں ۔
3.     معاشرہ کو درکار مختلف پیشوں میں جن خواتین کی ضرورت ہے ــــــــــــــــوہ مطیع اور مسلم خواتین ہوں ، اس کا بندوبست میڈیا اور جدید تعلیم کے مراکز تو ہر گز نہ کریں گے ــــــــیہ تو ہے ہی اہل مسجد کا "مسئلہ"!!
تو کیا وہ اپنی بچیوں کو خود سے دنیاوی تعلیم کے ان شعبوں میں آگے بڑھانے کے لیے کچھ کدوکاوش فرماتے ہیں ـــــــــــــــــ اگر جواب نہیں میں ہے، تو اہل مسجد کو اب جاگ جانا چاہیے ۔
4.     "ماں " بننے کی سعادت حاصل کرنا بچیوں کے لیے نیا تجربہ ہوتا ہے ـــــــــــ اس حوالہ سے انہیں جدید خاندانی مسائل ، اسلام کو عورت سے مطلوب رویوں اور عام روزمرہ کے گھریلو کام کاج کو منظم انداز میں کرنے سمیٹنے کے حوالہ سے تربیت ــــــــــــــــــ کچھ توجہ اس طرف بھی دی جا سکتی ہے۔

اسی طرح مسجد اور معاشرے کے دیگر طبقات کے حوالہ سے مزید معروضات رفتہ رفتہ ہم یہاں پیش کرتے رہیں گے ان شاءاللہ

منگل، 28 جولائی، 2015

بدلتی ہوئی دنیا میں مسجد کا کردار ــــــــــــــــــــچند معروضات (قسط اوّل)



مسجد قرون اولیٰ میں  :
طلوع اسلام کے بعد مسلمانوں کے قدم جس جس زمین پہ بھی پڑے، وہاں انہوں نے سب سے پہلے جو عمارت کھڑی کی ، وہ ان کی سجدہ گاہ تھی۔ مسلم اورسجدہ میں جو تعلق  ہے ، اس سے کوئی ذی شعور غافل و جاہل نہیں ہے۔   مسجدکو اِس سے پہلے لوگوں کی عبادت گاہوں سے یہ امتیاز حاصل ہوا، کہ اُن کے برعکس یہ ایک  زندہ عمارت تھی ، معاشرے کے سینے میں دھڑکتی ہوئی   ـــــــــ صاف خون سے پورے جسم کو سیراب کرتی اور آلودہ کو صفائی کے لیے واپس کھینچتی ۔یہی وجہ ہے، کہ محسن انسانیت ، سید وُلد آدم ؑ سیدنا حضرت محمد ﷺاس چیز کا ازحد التزام فرماتے ، کہ جہاں جہاں مسلمان موجود ہوں، وہاں مسجد تعمیر ہو اور سب وہاں نماز کے لیے وقت مقررہ پہ آ موجود ہوں ــــــچھوٹے بڑے،امیر غریب، مالک اورملازم، کسان اور سپاہی، غلام اور آقا،دور والے اور قریب والے ، مسافر اور مقیم، مصروف اور فارغ ــــــــــــ سب  ــــــ سب کلمہ گو کسی تفریق، رعایت اور سستی کے بغیر آوازہ صلاۃ اور ندائے فلاح بلند ہوتے ہی حاضر ہو جائیں ۔ اس امر سے سستی جناب پیغمبرﷺ کو کسی قیمت پہ گوارا نہ تھیــــــ وہ صحابی تو آپ کو یاد ہی ہوں گے، جنہوں نے بڑھاپے، نابینا پن، بے سہارا ہونے ،رستے کی وحشت،دوری اور سواری نہ ہونے کے متعدد عذر باری باری پیش کیے ـــــــــــــــ لیکن جواب میں حکم ملا، کہ اذان سنتے ہو، تو مسجد میں حاضر ہونا ہو گا ۔ اور پھر جناب رحمت عالم ﷺ کا نماز باجماعت کے لیے نہ آنے والوں کے گھروں کو جلانے تک کا ارادہ ظاہر فرمانا ـــــــ یہ سب سمجھنے، جاننے اور عمل کے لیے بہت کافی ہے ۔لیکن نماز اور مسجد کے ان فضائل و فرائض کا علم ہونے کے باوجود خالی صفیں اور اِن کے گرداگرد بسنے والے مسلمانوں کا کسی خاص قلبی تعلق کا عدم اظہار بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، جن کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔

بدلے ہوئے حالات اور ان کا تقاضا:
            پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی بعثت کو پندرہ سو برس ہونے کو آئے ہیں ۔ ان بے شمار بیتے شب وروز میں اہل اسلام نے عروج و زوال کی کیا کیا منازل نہیں دیکھ لیں ۔ عرب سے چین ، افریقہ سے یورپ تک ان کے بیٹے توحید کا پیغام اور عدل کی داستانیں چھوڑ آئے ۔ پھر وہ وقت بھی انہوں نے دیکھا، کہ الٰہی شرائع کی جو تنفیذ اُن حضرات کے ہاتھ چہار دانگ عالم میں ہوئی، وہ اپنے ہی گھروں تک میں اجنبی ہو کر رہ گئی ۔ آج کا عالم اسلام اس سلسلہ کی کس سٹیج پہ ہے، آپ اس سے واقف ہیں ۔
ایسا کیوں ہے ــــــــ یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے!! اس سوال کے بے شمار جوابات اور اپنے جوابات کے حق میں بیسیوں دلائل ہر گروہ، جماعت اور پارٹی کے پاس ہیں ـــــــــ اور بدقسمتی سے اپنی ان توجیہات کی نشرو اشاعت  بھی ان کے نزدیک افضل ترین اعمال میں  شمار  ہوتی ہے ۔ ایسے میں بہت سے اہل علم نے اس اہم موضوع پہ اپنے فکر وتخیل کے گھوڑے دوڑائے اور رشحات قلم ہمارے سامنے رکھے ہیں۔ اس اجتماعی زوال کا حل کیا ہوــــــــــ اس پر اگر غور کیا جاے، تو ایک بنیادی وجہ  ــــــــ مسجد کا کردار "متحرک" سے "غیر فعال" اور "زندہ" سے "نیم مردہ"   ہو جانا بھی  ہے ۔ 
آج کا مسلمان،  سائنسی ترقی کی بدولت مغرب سے مرعوب ہے ـــــ اور ایجادات سے مستفید ہونا چاہتا ہے ــــــ اس سے وہ کسی قیمت پہ ہاتھ نہیں دھونا چاہتا، خواہ اس استفادے کا ایک نتیجہ اُسے آیات و روایات سے دور کر دینا ــــاور  دوسرا مادیت پرستی کے اندھے کنویں میں گرا دینا ہی کیوں نہ ہو ۔آج کا مسلم نوجوان اپنے معاشرے میںـــــ "روحانی تسکین"کے اتنے مہیا کنندگان و دعویداران ـــــــموجود پاتا ہے ، کہ اُسے اس ضمن میں کسی "کمی" کا احساس ہی نہیں ہونے پاتا۔ ہیرو ورشپ کی حس کی تسکین کے لیے بھیــــ جسٹن بیبر، لائنل میسی اور پال واکر ـــــــ آ موجود ہوتے ہیں ۔ "انسانیت" اور "رواداری"کی مثالیںـــــــــــ اُسے بالی ووڈ سے بکثرت مل جاتی ہیں ۔ایام منانے کی باری آئے توــــــــ اس سلسلہ میں فراوانی ہی فراوانی ہے ۔نسبتیں ، سلسلے اور زنجیریں کبھی باعثِ  فخر ہوتی تھیں ــــــــ اب "آزادی" ــــــــ "جیسے چاہے جینے "ــــــــــــاور "کھل کر جینے " کا دور ہے ۔

لیکن اے میرے محترم اسلام پسند بھائی!
کیا یہ سب طعنے دے کر ـــــــــــاہل مسجد ـــــــــــــاس آہوئے حرم کو سُوئے حرم  واپسی پہ مجبور یا قائل کر سکتے ہیں !؟

مسجد کا جدید کردار!؟
            یہ ہماری بدقسمتی ہے ، کہ آج ہم اہل مذہب کی اصطلاح اُن مسلمانوں کے لیے کر رہے ہیں ، جو عبادات کے نظام کی کسی نہ کسی حد تک پیروی کرتے ہیں ، مگر یہ حالات کا جبر ہے ، سوا س کے سوا چارہ نہیں ۔
تو اہل مذہب نے ان حالات میں ـــــــــــجب کہ ایک وسیع تر کشمکش بے شمار محاذوں پہ جاری ہے
§       اپنی تیاری کے لیے کیا سامان اور ہتھیا رجمع کیے ہوئے ہیں ؟
§       اپنے انسانی وسائل (مربی ، ائمہ ،خطباء،منتظمین)کہاں سے لیے  ہیں اور اُن کی تربیت ــــ کہاں ، کیا اور کیسےـــــــ کی ہے؟
§       ائمہ مساجد اور قراء وخطباءکو روایتی اسلوب سے ہٹ کر اور چلاؤ کام سے آگے نکل کر معاشرے میں اثرپذیر ہونے کی کس قدر مہارت،آزادی اور تربیت دی  ہے؟
§       مسجد اور کمیونٹی کے درمیان تعلق صرف عبادت گاہ کا متعین  کیاہے ـــــــــــــــیاــــــــــــــــایک زندہ مرکزاور اس کے گرد گھومتے سیاروں کا؟
§       دین کے بنیادی متون ـــــــــــقرآن وفرامین پیغمبرﷺ ـــــــ ضروری فقہیات اور منتخب فکری و تکنیکی اسباق  کوـــــــاپنی کمیونٹی کے چھوٹے بڑوں  اور مردوزن تک ایک یا دوسرے طریقے /رستے سے پہنچانے/سکھانے /عامل بنانے کے لیے کیا شعوری اور دلی کوششیں کی ہیں؟
§        معاشرہ اگر لفظ "اسلام" کی "بیان شدہ تشریحات"سے خوف/ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے ــــــــتو جن ناموں /اصطلاحات سے وہ مانوس ہےــــــــــاُنہیں استعمال کرنے کے مواقع سےفائدہ اٹھایا ہے؟
§        شریعت کی بیان کردہ اصطلاحـــــ "علم"ــــــ کو اس کے اصل اور وسیع تر مفہوم ــــــیعنی ـــــفلاحِ دارین ــــ کے تناظر میں اپنی کمیونٹی کا حال اور مستقبل بنانے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں؟

کیا یہ سب کچھ اہل مسجد کے بھی ذمہ ہے؟
"دین سراسر خیرخواہی ہے " ــــــ اس فرمانِ پیغمبرﷺ کی سمجھ جن کو آ جائے ـــــــوہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اردگرد پھیلی آگ کا تماشادیکھ ہی نہیں سکتے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا  ـــــــــــکہ اپنے جیسے انسانوں کو پروانوں کی مانند "شمعِ تہذیب"کی لو کا رزق ہوتے دیکھیں ـــــاور پھر دامنِ عافیت سمیٹ کر ایک محدود سے "روحانی تجربے  "تک خود کو محدود کر لیں ۔ اُن کے سامنے صرف اپنی فلاح کے لیے بھاگ دوڑ کرنا نہیں رہتا ـــــــــ انہیں سامنے اپنے اہل و عیال نظر آتے ہیں ــــــجنہیں اُس آگ سے بچانے کا حکم آسمان سے نازل ہو اہے ــــــجو ہر سالم و کامل کو مکسور و منشور کر دے گی ــــــجس کی ایک لپٹ اور بھبک ہی تکلیف کا ایسا باب کھول دے گی، کہ جس کا مداوا آسمان اور زمین میں کسی سے نہ ہو گا ۔ایسے حضرات و خواتین اہل و عیال کے بعد اعزہ و اقارب ، اہل محلہ اور اپنی بساط کے مطابق اگلے بڑے دائروں میں کام کے رستے تلاش کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کے سوا اُن کو کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔
اب ایسے حالات میں ، کہ جب مسلم عوام بالعموم اور مسلم شباب بالخصوص اپنے "عبد"کے سٹیٹس اور "امت" کے تصور سے زیادہ مانوس نہیں ہیں ـــــــــــــکیا یہ اہل مسجد ـــــاور اُن تمام اربابِ حل و عقد (مقتدر علماء، زعمائے مدارس،جدید و قدیم پہ دسترس رکھنے والے اہل علم ، حکومتی عہدیداران، دینی جماعات ،طلباء تنظیمات)،جو مسجد اور اہل مسجد کے لیے آئیڈیل، شعوری لائحہ عمل اور لاشعوری رہنمائی ـــکا انتظام کرتے ہیں ــــــ کے ذمہ نہیں ہے، کہ اس سلسلہ میں اپنا کرنے کا کام پہچانیں ۔ اگر  کفر و عصیان سائنسی انداز میں آپ کی نئی نسل پہ حملہ آور ہے ـــــــــتو آپ بھی اس سلسلہ میں کچھ وقت سوچنے کے لیے نکالیں ـــــــــــخالی برا بھلا کہنے سے تو کچھ نہ ہو گا۔اور یہ کام آپ نہ کریں گے، تو کون کرے گا؟ـــــــــآسمان سے وحی کا سلسلہ منقطع ہوا ہے ، نصرت کا نہیں ــــــــــــــــشرط نیک نیتی ،علمی پختگی،داعیانہ بصیرت اور استقامت کے ساتھ اس میدان میں اترنا ہے ۔ (جاری ہے)



نیویں لوک نے جنے ـــــــــــــــــــــپنجابی غزل

پنجابی غزل


نیویں لوک نیں۔۔ جنے سارے
اُچے کوٹھے ۔۔۔۔ پائی جاندے


اندروں اندری ۔۔لُٹ کے حاکم
باہرو باہر ۔۔ ۔۔ گھلائی جاندے


کُھلیاں کرن نوں ۔۔محلاں اپنیاں
ساڈی ڈھاری۔۔ ڈھائی جاندے


کُرسی خاطر ۔۔مرگئے جیہڑے
اوہ وی شہید ۔۔کہوائی جاندے


آپ نے سُندے۔۔ آنند بھیرویں
سانوں بِین ۔۔۔۔ سُنائی جاندے


فلک شیر​


بدھ، 1 جولائی، 2015

قصہ حاجی محمد ڈوگر کا (قسط دوم)

قصہ حاجی محمد  ڈوگر کا (قسط  دوم)

 چوپالوں، بیٹھکوں، ڈیروں اور اوطاقوں کے رزق میں ازل سے "قصہ"لکھ دیا گیا تھا۔قصہ، جس میں بات سے بات نکلتی ہے اور انسانی زندگیوں کے ایسے ایسے گوشے سامنے آتے ہیں ،کہ کسی کتاب میں  کہاں لکھے ہوں گے۔فی زمانہ بدلتے حالات،مقامات اور وسائل نے قصہ خوانی کے رنگ ڈھنگ اور انداز بدل کر رکھ دیے ہیں ۔ یہ قصہ جو میں بطور راوی آپ کی خدمت میں پیش کرنے جا رہا ہوں، یہ ایک استاد  اور شاگرد کی کہانی ہے ، واقعہ پہلی قسط "قصہ حاجی محمد ڈوگر ـــــ قسط اول"میں مذکور سیکرٹری بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور،حاجی محمد ڈوگر سے متعلق ہے، آئیے اُنہی کی زبانی سنتے ہیں :

"یہ آج سے کتنے ہی برس پہلے کی بات ہے، میں بھر پور زندگی گزار رہا تھا اور کسی قسم کی پریشانی مجھے لاحق نہ تھی۔ میٹھے پھلوں کے طباق کی طرح زندگی نے اپنی تمام مٹھاس میرے سامنے لا ڈھیر کی تھی۔ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ میں سوشل سرکلز میں ایک باہمت، توانا اور مستعد آدمی کے طور پر  بھی جانا جاتا تھا۔

ایک دن میں سو کر اٹھا، تو مجھے محسوس ہوا ، کہ میری آواز ٹھیک سے نہیں نکل رہی اور گلے میں کوئی مسئلہ ہے ۔ معمولی دوا دارُو کے بعد جب فرق نہ پڑا، تو مجھے پریشانی  لاحق ہوئی ۔ویسے ہی بیماری سے بندہ پریشان ہوتا ہےاور استاذ کے لیے تو اُس کا گلا خاص طور پر اہم ترین چیزوں میں سے ایک ہوتا ہے۔بہرحال میں ایک اچھے ہسپتال میں چلا گیا اور اپنا چیک اپ کروایا۔ڈاکٹروں نے تفصیلی معائنے کے بعد کچھ ٹیسٹ تجویز کیے، جو میں نے اچھی لیبارٹری سے کروا لیے۔ آواز تھی، کہ بیٹھتی ہی چلی جارہی تھی۔ اگلے دن جب ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، تو میری تو دنیا ایک دم اندھیر ہو گئی ۔ مجھےبتایا گیا، کہ مجھے گلے کا کینسر ہو گیا ہے۔ اس موذی مرض کا تو نام ہی مریض کو ختم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ مجھے لگا، اب میرا کچھ نہیں ہونے والا اور میرا معاملہ ختم ہونے والا ہے۔

ڈاکٹروں نے مجھے ہسپتال میں داخل کر لیا اور یوں میں اپنی بھری پری دنیا سے اٹھ کر اسپتال کے بستر پہ ہمہ دم کم ہوتی آواز اور گلے کے کینسر کے ساتھ آن پڑا تھا۔ جیسے کوئی فوجی اباؤٹ ٹرن ہو لے اچانک، ایسے ہی ایک ایک سو اسی درجے کا موڑ آ گیا تھا میری زندگی میں ۔ چند دن ایسے ہی اسپتال میں پڑا رہا ، میرے اعصاب آہستہ آہستہ جواب دیتے جا رہے تھے۔دوسری یا تیسری رات میں بستر میں پڑا سوچ رہا تھا، کہ یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ۔ آخرکس گناہ کی سزا مل رہی ہے مجھے!

جونہی یہ سوچ میرے ذہن میں آئی، میں سنجیدگی سے اس طرف سوچنے لگا، کہ زندگی میں مجھ سے آخر کون سی ایسی بڑی غلطی سرزد ہو ئی ہے، جس کا بدلہ مجھے اس ناگہانی آفت کی صورت میں دیکھنا پڑ  رہا ہے۔سوچتے سوچتے میرے ذہن میں ایک بجلی سی کوندی  اور میں نے خود کو لگی ڈرپس وغیرہ اتار کر ایک طرف کر دیں اور باہر کی سمت لپکا۔ تھوڑی ہی دیر میں ، میں اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا اور میری گاڑی شہر کے ایک معروف رہائشی علاقے کی سمت رواں دواں تھی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے، کہ اسپتال سے فرار کا یہ واقعہ کسی فلم میں تو ہو سکتا ہے، حقیقت میں نہیں ۔ لیکن یہ حقیقت تھی، کہ بستر پہ لیٹے لیٹے مجھے اپنے  دورِ طالبعلمی کے ایام یاد آ گئے تھے ، جب میں پاکستان کی مشہور ترین جامعہ میں زیرِ تعلیم اور ایک طلباء تنظیم سے منسلک تھا۔ جوانی دیوانی کا دور دورہ  تھا اور رستے میں آنےوالی ہر چیز کوروند کر رکھ دینے کا جذبہ عروج پہ۔ ایسے میں طرہ یہ کہ جس طلباء تنظیم سے میں نے تعلق جوڑا تھا، اس کے متعلقین اپنے جوش و جذبے اور ولولہ انگیز مہما ت کے لیے معرف و مقبول تھے اور کسی حد تک اب بھی ہیں ۔

انہی ایام کے دوران ایک دن میں یونیورسٹی آیا، تو مجھے پتہ چلا، کہ میری تنظیم کے لوگوں کی کچھ اساتذہ سے تلخ کلامی ہوئی ہے اور ایک استاذ ،قریشی صاحب(فرضی نام) نے ہماری تنظیم کے مقامی ذمہ دار کو برا بھلا بھی کہا ہے اور شاید ایک آدھ گالی وغیرہ بھی دی ہے۔ یہ سُن کر میرا خون کھولنے لگا اور میں نے دیوانگی میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور  قریشی صاحب کو ڈھونڈنے لگا ـــــــــــــ کہ  انہوں نے میری تنظیم کے ذمہ دار کو برا بھلا کیسے کہہ ڈالا ۔ میرے ساتھیوں نے مجھے روکنے اور ٹھنڈا کرنے کی بھر پور کوشش کی ، لیکن مجھ پہ تو تنظیمی بھوت سوار تھا، میں کہاں رکنے والا تھا ۔ آخر جب قریشی صاحب مجھے مل گئے، تو میں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر انہیں ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ قریشی صاحب تو جیسے زمین میں گڑ گئے ، کہ ایک طالب علم نے ان پہ ہاتھ ہی اٹھا دیا تھا، وہ بھی سب کے سامنے ۔اُن کا سارا مان، وقار اور عزت خاک ہی میں تو مل گئی تھی۔ قریشی صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، اور مجھے انہوں نے صرف ایک جملہ ہی کہنے پہ اکتفا کیا:
میرا کوئی بیٹا نہیں ہے ـــــــــــــــــــــــ اگر ہوتا، تو تم سے بدلہ لیتا

یاد رہے، کہ پروفیسر موصوف کی کوئی نرینہ اولاد نہٰن تھی، صرف بیٹیا ں ہی بیٹیاں تھیں۔ یہ واقعہ ہوا، وقت گزرا اور میرے سمیت دیگر لوگ بھی بھول بھال گئے ۔ لیکن آج بستر پہ لیٹے جب میں نے اپنی زندگی کی پچھلی  فلم چلائی، تاکہ اپنی غلطیاں ڈھونڈ سکوں، تو مجھے قریشی صاحب اور ان کے ساتھ کی گئی اپنی زیادتی یاد آ گئی۔ اور یہ تو اب آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں، کہ میری گاڑی کا رُخ انہی کی رہائش کی طرف تھا، کہ اُن سے تہِ دل سے معافی مانگ سکوں، شاید اسی سے میں کینسر جیسے موذی  مرض کے چنگل سے چھوٹ پاؤں۔ کیونکہ مسلمان یونے کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے، کہ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ہماری پکڑ کر لیتا ہے اور مقصد ہمارے لیے آخرت میں آسانی کرنا ہوتا ہے اور حقوق العباد تو اس سلسلہ میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

خیر ، میں  پروفیسر صاحب کی اس رہائش پہ پہنچا، جس کا مجھے آج سے کئی برس قبل تک پتہ تھا۔ سامنے وہ گھر آ یا، میں نے دروازے کی گھنٹی بجائی اور ایک صاحب باہر نکلے ۔ میں نے اُن سے قریشی صاحب سے متعلق پوچھا، انہوں نے مجھے جو جواب دیا، وہ جواب ایسا تھا، کہ میں بس گرنے ہی والا تھا ۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ، کہ اس  نے مجھے کئی برس قبل قریشی صاحب کے اس دنیا سے چلے جانے کا بتایا تھا۔ میرا دل میرے بس میں نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا، کہ یہی سہارا تھا، اب قریشی صاحب کو کہاں سے ڈھونڈوں ، کہاں جاؤں، کیا کروں۔

تب مجھے ایک خیال آیا اور میں نے ان صاحب سے پوچھا، کہ ان کی بیٹیا ں بھی تو تھیں ، وہ کیا ہوئیں؟

انہوں نے  کہا، کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان میں سے ایک اسی گھر میں مقیم ہیں اور وہ اس خاتون کے خاوند ہیں۔ اس پر میری کچھ ڈھارس بندھی اور میں نے اُن صاحب سے درخواست کی، مجھے اُس محتر م خاتون سے ملوا دیں، کہ کچھ ضروری بات کرنا ہے ۔ وہ تھوڑے ہچکچائے، لیکن پھر تیار ہو گئے ۔ کچھ ہی لمحوں بعد ہم اندرونی نشست گاہ میں تھے ۔ وہ خاتون تشریف لائیں ، ان کے خاوند بھی وہیں بیٹھ گئے ۔ میں نے انہیں ساری کہانی سنائی ، اس واقعے سے لے کر آج رات تک کی ساری کہانی۔ اور پھر اُن سے کہا،کہ قریشی صاحب تو اس دنیا سے چلے گئے ، اب آپ ہی ان کی وارث ہیں۔ میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں ۔وہ خاتون اس عظیم آدمی کی بیٹی تھی، اُس نے کہا:

جو ہونا تھا، وہ تو ہو گیا، ابو بھی چلے گئے ، آپ اب بیمار ہیں ، میں آپ کو اُن کی طرف سے معاف کرتی ہوں

یہ سُن کر مجھے لگا، کہ میرے سینے کا بوجھ اتر گیا ہے، کچھ دیر میں وہاں رہا اور پھر اپنی گاڑی میں واپس اسپتال چلا آیا۔ ڈاکٹر اور نرسیں حیران تھیں ، کہ میں کہاں چلا گیا تھا ور خود ہی واپس بھی آ گیا ہوں ۔ میں نے انہیں کسی طرح مطمئن کر دیا۔میں خود کو روحانی طور پر بہتر محسوس کر رہا تھا۔

اگلا دن چڑھا، ڈاکٹروں نے دوپہر کو میرے کچھ اور ٹیسٹ لیے ۔ دوست احباب آئے اور دن یونہی گزر گیا ۔ رات گزری اور اگلا دن آن پہنچا۔ اس دوپہر کو ان ٹیسٹوں کی رپورٹ آئی، ڈاکٹر تقریباً دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا، کہ آپ کی تو رپورٹس بالکل کلئیر آئی ہیں ۔ میری آواز بھی اس دن پہلے سے کچھ بہتر تھی۔ یہ سُن کر مجھے لگا، میں دنیا میں واپس آ گیا ہوں ۔ بہر حال اگلے چند دنوں  میں مزید ٹیسٹ ہوئے ، جو بالکل کلئیر تھے ۔ میری آواز معجزانہ طور پہ بالکل ٹھیک ہو گئی، پہلے کی طرح کڑک دار۔

اس واقعے نے میرا ایمان اُستاد اور شاگرد کے رشتے پہ ایسا قائم کیا ہے، کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں، یہ بات سُنا کر بچوں اور بچیوں  کو بتاتا  ہوں  کہ ماں باپ اور اساتذہ کے سامنے ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے ، آنکھ  اور خیال بھی بلند نہیں کرنا۔ ان کی اطاعت و عزت اور مان کر چلنے میں دنیا آخرت کی کامیابیاں تمہارے پاؤں چومیں گی۔اُن کے دامن سے چمٹے رہنے میں خیر ہی خیر ہے ۔اُن کے جوتے سیدھے کرنے والے بادشاہی کرتے ہیں ۔ہماری اسلامی روایات ہمیں یہی درس دیتی ہیں "

قصے کی روایت میری (فلک شیر) ہے ۔ دس ایک برس پہلے سنا تھا، شاید حافظہ کی کمزوری کے سبب کہیں کہیں واقعات تھوڑے بہت آگے پیچھے ہو گئے ہوں،لیکن سپرٹ  اور کردار وہی ہیں ، بعینہ ۔

حاجی صاحب کا قصہ آپ نے پڑھ لیا ، امید ہے آپ اسے آگے شئیر بھی کریں گے اور بچوں بچیوں کو خاص طور پہ پڑھوائیں گے ، شاید کسی دل میں یہ بھولا ہوا قصہ تازہ ہو جائے ۔