منگل، 23 ستمبر، 2014

جوگی نامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشی محمد ناظر

جوگی نامہ​

کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا​
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا​
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی​
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا​
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی​
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا​
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے​
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا​
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی​
بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا​
تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ​
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ​
چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی​
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی​
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے​
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی​
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا​
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی​
تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر​
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی​
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ​
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی​
جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا​
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا​
کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟​
ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟​
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا​
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟​
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے​
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟​
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی​
ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟​
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے​
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟​
یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا​
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا​
ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی​
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی​
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟​
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی​
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا​
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی​
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے​
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی​
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے​
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی​
پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا​
پھر عشق کے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اِک جام دیا​
اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا​
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا​
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت​
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بن میں جا بابا​
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہ روحانی​
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا​
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں​
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا​
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے​
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا​
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں​
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا​
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں​
سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا​
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں اور یاد نہیں بھگوان تمھیں​
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا​
پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں​
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا​
تن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو​
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا​
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے​

یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا​

خوشی محمد ناظر


مجھے جینے دے!!!

مجھے جینے دے!!!


فصیلِ جاں سے ذرا اُدھر
خبرگاہ سے ذرا  اِدھر
ایک اور دنیا ہے
اعراف والوں کی
ہمہ دم طواف والوں کی
کم اطراف والوں کی
دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں
بجتا ہے  ایک ساتھ
  تمنا کا  نقارہ اور نفس کا ساز
بے چاری دنیا!!!


اے حُسنِ ازل!!
اس دنیا کے باسی
ہزار جاں سے تجھ پہ فدا بھی
 گھٹتی ہوئی  اک صدا بھی
تیرے ساتھ بھی، آس پاس بھی
اور
تجھ سے دور بھی۔۔۔
تیرے لشکر کے ہراول بھی
اُس کے رستے میں 
سرِ راہ بیٹھے مسافر بھی

وہ چاہیں۔۔۔اے حسنِ ازل!
کہ خود کو۔۔۔تجھ پہ
دان کریں
اپنے جسم و جاں سے
تیرے اسم گرامی کا اعلان کریں
جو کچھ ہے۔۔۔۔اُن کے پاس
سب۔۔۔سب تیرے نام کریں

ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔کبھی کبھی
ایک خیال کا آسیب انہیں آن لیتا ہے
کہ تو!
اے حسنِ ہرطرف۔۔۔۔تو!!!
اُنہیں اپنے سایوں سے بات کرنے دے
اُن کے ساتھ بھی کبھی
دن رات کرنے دے
خود اپنے ساتھ بھی کبھی
ملاقات کرنے دے
الگ جزیرے بسانے دے
اپنی دنیا آپ سجانے دے
جِن سے اُنہیں اُنس ہے
صرف انہی سے 
ایک ہو جانے دے
خداوند!۔۔۔۔بس کبھی کبھی


 فلک شیر