جمعہ، 21 فروری، 2014

راشد:اپنی آگ میں جل اٹھا پرندہ




راشد کو لوگ " جنسی ناآسودہ" اور "جسم کا آدمی" کہتے ہیں اور اپنے ذہنی "تقوٰی" کی داد پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعرِ نو کو جنم دیتا راشد  ۔۔۔۔۔۔ انوکھے مضامین اور کھرےحرف برتنے  اور جمع  کرنے والاراشد۔۔۔۔۔۔فرد کے جسمانی و نفسانی تعلقات سے لے کر  انسانی نسلوں کو گدھوں کی مانند نوچتے ملوک کی کہانی کہتا راشد ۔۔۔۔اور خواہش کی تصویر بناتا اور مثالیے کی تڑپ کو مصور کرتا راشد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر کو  اپنی ہی آگ میں جل اٹھنے والا راشد ۔۔۔۔۔

1910ء میں راقم کے آبائی وطن علی پور چٹھہ، جسے تب اکال گڑھ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔۔۔پیدا ہوئے۔ والد  اور دادا دونوں ہی السنہ شرقیہ سے دلی لگاؤ رکھتے تھے اور انہی کی توجہ سے راشد کو ان دونو ںزبانوں  میں وہ درک حاصل ہوا کہ گورنمنٹ کالج جیسے نامی ادارے میں پہنچے اور اُس کے مؤقر مجلے  "راوی" کے مدیر بھی مقرر ہوئے ۔ بسلسلہ روزگار آل انڈیا ریڈیو سے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کی راہداریوں میں پہنچے اور پھر ریٹائر منٹ پا کر انگلستان میں ہی مقیم ہو گئے۔

راشد کی شاعری ایک مسلسل المیہ کا بیان ہے، گاہے جسے طربیہ سے مزین کر کے گوارا کیا جاتا ہے۔انسان ہمہ
 دم کتنے دائروں میں کس کس تلاش میں مگن رہتا ہے، اُسے رہنا ہوتا ہے۔۔۔۔کہ اُس کے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے۔۔۔۔ازل سے ابد تک جو رستے جاتے ہیں ، اُن رستوں کی دھول ہے انسان  یا اُن کا راہی ۔۔۔یا پھر رستے کی اطراف میں کھڑا اشجار کا استادہ دستہ۔۔۔اُسے دُسراتھ کی تلاش کیوں ہے۔۔۔۔۔اتنا عاجز کاہے کوہے۔۔۔۔یکسانیت کا مارا۔۔۔۔۔نسلیں اگاتا اور فصلیں چھانٹتا۔۔۔۔جیسے وقت کے سمندر کی لہروں پہ اٹھتی جھاگ ہو۔۔۔۔۔پھر اس زمین پر ڈھیر سارے خدا کیوں؟۔۔۔۔کچھ اس انسان کے اپنے ہاتھوں کیے تراشے۔۔۔۔مسندوں پہ بٹھائے ہوئے اور کچھ بزور شمشیر بیٹھے ہوئے۔۔۔۔۔۔روح کس کی طالب ہے اور جسم کس کا؟۔۔۔۔یہ اور دوسرے کتنے ہی بڑے سوال اُس کی شاعری میں ایک دوسرے کے گرد لپٹے ہوئے ہیں۔ محض قافیہ پیمائی نہیں۔۔۔۔۔۔جیسے کسی بڑے گویے کا کھلا گلا اُسے اونچے آکار میں گانے پہ مجبور کر دیتا ہے، ایسے ہی بڑے سوالات اٹھائے ادیب بھی الگ سانچوں اور نئی دریافتوں کا سفر کرتا ہے۔آزاد نظم کو جو راشد نے دیا اور   جو طرح رکھی ۔۔۔ اُس کا کم تذکرہ ہوا ہے، زیادہ ابھی ہوگا۔

افسانہ اور نظم۔۔۔داستاں اور داستاں گو اُس کی شاعری میں کئی جگہ گھل مل سے جاتے ہیں۔ تلمیحات گاہے اجنبی اور ترکیبات نامانوس لگتی ہیں۔۔۔اور پھر آج ، جب فارسی دان طبقہ بہت محدود ہو چکا ہے، راشد کا حلقہ قراءت اور بھی سمٹ جانا چاہیے تھا۔۔۔لیکن "مرگِ اسرافیل" ، "حسن کوزہ گر" اور "اظہار اور رسائی" جیسی نظمیں لکھنے والا راشد  تب تک اردو ادب کے حافظے اور لوح تحسین سے اتر نہ پائے گا ، جب تک وہ سوالات زندہ اور قائم ہیں، جو اوپر بیان کیے گئے ہیں ۔  راشد کی ایک نظم دیکھیے :

اظہار اور رسائی

مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرئے
بات جب حیلہء تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ھمیشہ سے ھے کوتاہ کمند
بات کی غایت غایات نہ ہو!

ایک ذرّہ کف خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ھوئے تنّور کی لو سے مجبور
ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ھے خود سے مہجور،
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو!

اسے اک ذرّے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسے اک ذرّہ لا فانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ھے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
آدمی کس سے مگر بات کرے

مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں

ہاتھ میں قلم تھامنے والا کوئی بھی اس موضوع کا حق کم ہی ایسے ادا کر پائے گا، جیسے راشد نے اس نظم میں ادا کیا ہے۔ یہ پڑھ کر احساس ہوتا ہے، کہ فی زمانہ دل کی بات کہنے کا فریضہ شاعر ہی کے بس کی بات ہے، کہ باقی سب تو "آپس کی بات " ہی کرتے ہیں۔

 فلک شیر 

ہفتہ، 15 فروری، 2014

دریا کے اُس پار کیا ہے

دریا کے اُس پار کیا ہے؟؟

آج دوست مجھ سے کہنے لگے
تم جو بہت چرب زباں ہو
اور روز تمہارے بستر پہ 
نئی کتاب کی زلفیں پریشاں ہوتی ہیں
تم بولو، تو لگتا ہے​ 
ادب،نقد،شعر،تصویر
سُر،رقص،خواب اور تعبیر
سب تمہارے لہجے میں ڈھلنے کو بے تاب ہوں
حرف اور عرفان گلے ملنے کو بے تاب ہوں
ہماری بھی ایک مشکل حل کرو
یہ تو بتاؤ
آخر اِس محبت کا اسرار کیا ہے؟
اِس دریا کے اُس پار کیا ہے؟
معمہ یا بجھارت؟
کرشمہ یا نعمت؟
خطا یا عبادت؟
اِس کی نمود کن زمینوں سے ہوتی ہے؟
اور اِس کی وحی کن سینوں پہ اترتی ہے؟
میں جو مشہور ہوں اتنا
سات زبانیں بولنے میں
دلائل کے انبار لگانے میں
اورلوگوں کو نیچا دکھانے میں
ایک لمحے کو تو مجھے چپ سی لگی
مگر.......پھر میں
اپنی ناک بچانے اور
جولانی طبع دکھانے
کے لیے گویا ہوا
اور خوش بیان واعظ کی طرح لفظوں کے محل اُسارنے لگا
میں نے کہا، دیکھو!
محبت ایک پرندہ ہے
ہزار رنگ، ہفت خواں
جس شاخ پہ بھی اترتا ہے
اُس سے کونپل نہیں، نغمہ پھوٹتا ہے
اور پھول نہیں، دھنک کھلتی ہے
میں نے اُنہیں بتایا، سنو!
محبت ایک کہانی ہے
جس کے کردار
تتلی، پھول اور ستارہ
دریا، کشتی اور کنارہ
جنگل، بیلے اور بنجارہ
کہا، یارو!
محبت ایسا طلسم ہے
جس کا توڑ خلق ہی نہیں کیا گیا
یہ تو ہر ذی روح کا حسنِ ازل کو سلام ہے
یہ تو ہر گونج کی
ندائے اول سے سعی کلام ہے
مجھ سے پوچھتے ہو، محبت کا اسرار کیا ہے
تو سنو!
اِس کے روپ کئی صد ہزار ہیں
فراق، وصل، نالہ، شہنائی؛
یہ تو صرف دو چار ہیں
ہر جہاں کی ہر کروٹ اِسی کے حضور سے
سب چہروں پہ سب شفق، اِسی کے طُور سے
نادِ اوّل سے اذانِ آخر تلک
محبّت ہی سب زمانوں کی فاتح
اور یہی سب قرنوں کی نقیب
آنے والے سب زمانوں میں بھی
روزوشب اسی سے تجلّی پائیں گے
اِسی کے دامن سے روشنی کا رزق جُڑا رہے گا
اور
اِسی کے بطن سے نئے سُر تخلیق ہوں گے
میرے دوست یہ سب سُن کر
میرے علم و فضل کا لوہا مانتے ہوئے
سر ہلاتے، دور اندھیرے میں جا گُم ہوئے
مگر..........
اِس کے بعدمجھے 
مریم ایسے پاک اس جذبہ کی 
اپنے ہاتھوں بے توقیری کا بے طرح قلق ہوا
پھر یوں ہوا کہ
مجھ سنگ دِل کی آنکھ نے چہرے کو وضو کرایا
توبہ کی نیت سے ڈرتے ڈرتے
میں نے آنکھ بند کی
اور چشم تخیل وا کی
اور عرض کیا...
اے ڈیلفی کے معبد کی معبود!
آخر تیرا اسرار کیا ہے؟
تیرے دریا کے اُس پار کیا ہے؟

(فلک شیر)

جمعرات، 6 فروری، 2014

حوا زادی (نثری نظم)


حوا زادی 


سرما کی یخ پھینکتی ہوا
اور
گرما کی قہر برساتی لُو
روزِ ازل شاید
اِن دونوں کا انتساب
لڑکیوں کے نام کیا گیا تھا
جنہیں
دونوں میں سے ایک کی
زندگی بھر مہمانی کرنا ہوتی ہے 

فلک شیر