جمعرات، 25 دسمبر، 2014

معاتبہ نفس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استفادہ از کلامِ امام غزالیؒ

حیف تجھ پر اے نفس؛ یومِ حساب پر گویا تیرا ایمان ہی نہیں! مر کر گویا تُو خدا کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یونہی چھٹکارا ہو جائے گا! کہاں بہکا پھرتا ہے!؟ یعنی تجھے پیدا کیا گیا، اتنا عرصہ تجھے پالا پوسا گیا اور تیری خدمت تواضع میں زمین آسمان کو لگا دیا گیا، اِس لئے کہ آخر میں تجھے چھوڑ دیا جائے!!!کیا تُو محض ایک گھٹیا بوند نہ تھی جو کہ بس ٹپکا دی گئی تھی؟ پھر اسی بوند سے پیدا کرلینے والی ذات نے تجھےلوتھڑانہیں بنایا؟ اور پھر اسی لوتھڑے سے ایک پورا انسان برآمد نہیں کر ڈالا؟ بس اب وہ اِس ایک بات سے عاجز ہے کہ وہ تجھے مردوں میں زندہ کھڑا کر لے!؟اگر تیرے دل کے کسی گوشے میں یہ گمان بیٹھ گیا ہے تو تیرے کفر اور تیری جہالت میں کیا شک ہے؟ پھر کیا یہ بھی کبھی غور کیا کہ تجھے اُس نے پیدا کس چیز سے کیا؟ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَه۔ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاء أَنشَرَهُ۔ (عبس 80: 19- 22) ایک پانی کی ٹپک سے اس نے تجھے پیدا کرلیا۔ پھر آگے کے کتنے مراحل تھے جو اُس نے تیرے لئے آسان کردیے۔

 پھر اُس نے تجھے موت دی اور قبر دی۔ پھر وہ جب چاہے تجھے اٹھا کر کھڑا کر لے گا۔ اب تُو ہے جسے اس بات پر یقین ہے کہ اُس نے تجھے غلیظ پانی کے ایک چھینٹے سے پیدا کر ڈالا۔ تجھے یہ قبول کہ اُس نے یہ سب مراحل طے کر لینا تیرے لئے ممکن بنایا۔ تجھے یہ تسلیم کہ تجھے وہ موت دے گا اور پھر ایک قبر فراہم کرے گا۔ تو کیا تجھے اُس کی اِسی ایک بات پر یقین کرنا دشوار ہے کہ وہ جب چاہے تجھے اس قبر سے اٹھا کھڑا کر لے؟ اور اگر تجھے یقین ہے تو پھر کیوں اس دن کی تیاری میں مصروف نظر نہیں آتا؟ کیا تجھے اندازہ ہے قبر سے زندہ کھڑے ہو اٹھنے کا کیا مطلب ہے اور اس منظر کی تاب لے آنے کی تیرے پاس کیا صورت ہے؟ ظالم انسان…!ایک یہودی طبیب اگر تجھ کو یقین دلائے کہ کوئی ایسا کھانا جو تجھے دنیا میں ہر چیز سے زیادہ مرغوب ہے، کسی خاص مرض کے باعث اب وہ تیرے لئے زہر قاتل ہے تو اسے چھوڑ دینے میں تُو ہرگز کوئی پس و پیش نہ کرے گا۔ اس سے پرہیز کرنے میں تجھے اپنے آپ سے کتنا بھی مجاہدہ کرنا پڑے، اپنی خواہش سے کتنی بھی جنگ کرنی پڑے، تُو ضرور کرے گا۔ تو کیا پھر اے ظالم نفس! وہ باتیں جو انبیاءتجھے بتا کر گئے اور اپنی صداقت پر لاتعداد معجزات کو تیری خرد کےلیے دلیل بنا کر گئے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کا اپنا قول جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیا، کیا اس یہودی طبیب کے قول برابر بھی نہیں جو محض اپنے ظن اور تخمین سے تجھے ایک خبر دیتا ہے اور جس کے غلط ہونے کا ہزار امکان ہے اور جوکہ مطلق حقیقت کا علم پانے پر ہرگز کوئی قدرت رکھتا ہے اورنہ طاقت؟!!

عجیب تو یہ ہے کہ ایک چھوٹا بچہ بھی اگر تجھے بتائے کہ تیرے کپڑوں میں کوئی بچھو چلا جارہا ہے… تو کبھی دیکھا ہے، وہ کپڑا تُو کس تیزی کے ساتھ دور پھینکتا ہے؟ کبھی اس بچے سے تُو نے بچھو کے چلنے کی ’دلیل‘ پوچھی؟ کبھی کوئی تاویل یا حجت یا بحث کی؟ کبھی کوئی ’نکتہ‘ چھوڑا یا ’خیال‘ ظاہر کیا؟ تو کیا پھر سب کے سب انبیاء، سب کے سب علماء، سب کے سب حکماءاور سب کے سب اولیاءکا ایک بات کہنا تیرے نزدیک اس چھوٹے بچے کی بات جتنا بھی وزن نہیں رکھتا جو خرد مندوں کی صنف میں بھی مشکل سےگِناجائے؟ یا پھر خدا کی دہکائی ہوئی وہ دوزخ اپنی تمام تر ہولناکیوں، اپنی ستر ستر ہاتھ لمبی زنجیروں، سر پھوڑنے والی گرزوں، اپنے تھور، اپنی پیپ اور کچ لہو، اپنی راکھ کردینے والی لو، اپنے ناگوں اور بچھوؤں سمیت تیری نظر میں دنیا کے اس بچھو جتنی بھی توجہ کے لائق نہیں… جو اگر تجھے لڑبھی گیا تو اس کا درد تجھے دو دن محسوس ہوگا، یا بڑی حد چار دن؟؟؟!!! کیا خرد مندی کی یہی باتیں ہیں؟ تجھ خرد مند کی یہ حالت تو چوپایوں سے کہی جائے تو اے نفس، وہ اس پر ہنس ہنس کر بےحال ہوں! تو پھر اے نفس! اگر تجھے یہ سب معلوم ہے اور اس پر تیر ایمان ہے تو عمل اور سعی میں ٹال مٹول کیوں؟ کیا جانتا نہیں، موت تیری گھات میں بیٹھی ہے اور کیا بعید کسی بھی وقت تُو خود کو اُس کی آہنی گرفت میں پائے جس کے بعد تجھے مانگے بھی مہلت نہ ملے۔ اور فرض کیا تجھے سو سال کی چھوٹ مل گئی، پھر بھی کیا خیال ہے جو آدمی عین گھاٹی چڑھنے کے وقت جاکر اپنی سواری کو چارہ ڈالنے کا روادار ہو، گھاٹی پار کر سکے گا؟ اور کسی دشت میں سائے میں دل لگا رکھنے والا کیا اس کی طویل مسافت طے کر لے گا؟ اگر تیرا یہ خیال ہے تو تیری نادانی میں کیا شک ہے؟

کیا خیال ہے کوئی شخص کہیں دور پردیس میں تعلیم حاصل کرنے جائے اور وہاں سالوں کے سال فارغ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اِس امید میں کہ اُس کے واپس جانے کو ابھی بہت سال پڑے ہیں!!! کیا تُو ایسے شخص کی عقل اور سمجھ کو استہزاءکے قابل نہ جانے گا؟ اور چلو فرض کرلیا کہ آخری عمر میں جاکر کی جانے والی تیری محنت ثمرآور ہوگی اور تجھے درجاتِ بلند بھی دلوا دے گی، مگر یہ بھی تو پتہ نہیں کہ ’آخری عمر‘ تجھے ملنے والی ہے یا نہیں۔ کیا پتہ یہ دن ہی تیرا آخری دن ہو اور وہ ’آخری عمر‘ جو تُو نے ’نیک‘ ہونے کےلیے اپنے ذہن میں پس انداز کر رکھی ہے، تیری قسمت میں لکھی ہی نہ ہو۔ اگر تجھ پر کوئی ایسی وحی نازل نہیں ہو چکی کہ تجھے ایک لمبی چھوٹ ہے، تو پھر عمل کی جلدی کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ’آج، کل‘ کرتے جانے کا پھر کیا سبب ہے؟ کیا اسکے علاوہ اسکا کوئی اور سبب بھی ہے کہ اپنی خواہشات کے خلاف مزاحمت کرنا تیری طبیعت کیلئے دوبھر ہے اور اپنی شہوات کو مات دینا تجھے ایک مشقت نظر آتی ہے؟ تو پھر کیا تجھے اُس دن کا انتظار ہے جب خواہشوں کو مات دینا مشکل نہ رہے گا؟؟؟ ارے اے نفس! ایسا تو کوئی دن خدا نے پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے والا ہے۔ ایسا تو کبھی ہونے والا نہیں کہ جنت، نفس پہ گراں گزرنے والے جن امور سے گھِری ہے، جنت کے ارد گرد سے وہ سب رکاوٹیں تیرے نخروں کے لحاظ میں ہٹا دی جائیں۔ اور نہ کبھی ایسا دن آنے والا ہے کہ نفس پر گراں گزرنے والی یہ چیزیں جن سے جنت گھیر دی گئی ہے، نفس پر گراں ہی نہ رہیں اور تیرا خیال کر کے ان سب چیزوں کی سرشت ہی بدل ڈالی جائے!

کیا تُو سوچتا نہیں، کتنی بار تُو اپنے آپ سے وعدے کرتاہے اور کہتا ہے ’کل، کل‘۔ ہاں تو یہ ’کل‘ آگئی، تیری یہ ’کل‘ ’آج‘ میں بدل گئی، تو اب یہ ’آج‘ کیسی لگی؟ کیا تجھے معلوم ہوا کہ ’کل‘ جسے آنا تھا کتنی جلدی وہ ’آج‘ بن گئی ہے اور ’آج‘ بن جانے کے بعد اب یہ گزرا ہوا ’کل‘ بننے جارہی ہے بلکہ ’پار سال‘ اور اس سے بھی ’پار سال‘ بلکہ ایک بھولی بسری کہانی جو صرف ’لکھنے والوں‘ کو یاد رہے گی!؟! ارے اے نفس، جس نیک کام سے تُو آج عاجز ہے کل تُو اس سے کہیں بڑھ کر عاجز ہوگا! کیونکہ خواہش ایک مضبوط درخت کے مانند ہے جس کو دل کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنا فصلِ اخلاص کے کاشتکار کی اصل آزمائش ہے۔ بندہ اس درخت کو اکھاڑنے سے اگر آج عاجز ہے تو وہ اس شخص کے مانند ہے جو اپنے صحن کے ایک زہریلے درخت کو اپنے عنفوانِ شباب میں اکھاڑ پھینکنے سے قاصر ہے اور اپنی کمزوری کے باعث اس کو اور سے اور موخر کئے جاتا ہے۔ حالانکہ جانتا ہے، جوں جوں وقت گزرے گا درخت اور سے اور ہی جوان اور توانا ہوگا جبکہ خود وہ شخص اور سے اور ہی ضعیف اور ناتواں ہوگا۔ پس جوانی میں آدمی سے جو کام نہ ہوسکا بڑھاپے میں جاکر وہ کیا کرے گا۔ زور کے کام کیا بڑھاپا آنے پر اٹھا رکھے جاتے ہیں!؟ ایک سرسبز ٹہنی کو جیسے مرضی موڑ لو اور جیسا مرضی رخ دے لو مگر جب وہ سوکھ کر کاٹھ بن جائے پھر اس میں یہ خوبی کہاں!!؟ ارے اے نفس، اتنی واضح باتیں بھی سمجھنے پر تیار نہیں، اس پر مسلسل ٹال مٹول اور پھر تیرا دانائی کا یہ زعم؟ کسی کا نقصان تھوڑی ہے، اپنے آپ کو بربادی میں جھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ شاید تُو کہے ’کیا کروں خواہشوں کی لذت ہی کچھ ایسی ہے اور انکو چھوڑنے میں تکلیف اور مشقت ہی کچھ ایسی ہے‘۔ یہ بھی کیسی حماقت کی بات ہے اور کیسا بیہودہ عذر!

 ارے اے نادان، تجھے اگر پتہ چل گیا کہ خواہشوں کی لذت کیا چیز ہے تو پھر اُن خواہشوں کی طلب کر جن میں لذت ہی لذت ہے اور جن میں کوئی کچرا اور گدلاپن نہیں اور جو ابد الآباد تک قائم ہیں۔ ارے اے جاہل، تیری یہ خواہشیں پوری کرانے کو ہی تو جنت وجود میں آئی ہے! اگر خواہشیں ہی تیری مطمح نظر ہیں تو اُسکی صورت بھی تو اِسکے سوا کچھ نہیں کہ ذرا دیر اُن سے منہ موڑ رکھ۔ دیکھتا نہیں کتنے ہی کھانے ایسے ہیں جن کو کھا لینے سے آدمی کو پھر کبھی کھانا نصیب نہیں ہوتا! ذرا یہ تو بتا اُس مریض کےلیے تیرا کیا مشورہ ہے جسے کسی حاذق طبیب نے صرف تین دن کےلیے ٹھنڈا پانی منع کر دیا ہو تاکہ وہ تن درست ہولے اور پھر عمر بھر مزے سے جتنا چاہے ٹھنڈا پانی پئے، اور اُس کو یہ بھی بتادیا ہو کہ اگر ان تین دنوں میں وہ ٹھنڈے پانی کے قریب گیا تو اس کو بے حد مہلک عارضہ لگ جانے والا ہے جس کے باعث پوری عمر وہ ایک ٹھنڈا پانی تو کیا اپنی ہزاروں خواہشیں پوری کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ کیا فرماتی ہے تیری عقل اور دانائی بیچ اِس مسئلے کے؟ کیا وہ تین دن صبر اور برداشت سے کام لے لے تاکہ پھر ساری عمر موج کرے یا پھر وہ اپنی خواہش فی الفور پوری کر گزرے کیونکہ تین دن صبر کرنا بڑا مشکل ہے، اور پھر اسکے نتیجے میں وہ تین دن نہیں تین سو دن نہیں تین ہزار دن نہیں کبھی بھی اپنے اس پسندیدہ مشروب کی شکل نہ دیکھ پائے!!؟ اور یہ تو تجھے معلوم ہے کہ دنیا کی یہ تیری ساری کی ساری عمر ملا کر بھی، اُس ابد الآباد کے مقابلے میں کہ جب اہل جنت جنت میں موج کریں گے اور کرتے ہی رہیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں عذاب سہیں گے اور سہتے ہی رہیں گے…. تیری یہ ساری عمرخواہ وہ کتنی ہی دراز ہو جائے اُس ابد الآباد مدت کے مقابلے میں تین دن سے بھی کم ہے۔ صد افسوس تیری عقل اور بینائی پر! خواہشوں کے فراق کا درد تجھے زیادہ المناک اور زیادہ طویل دِکھتا ہے نہ کہ جہنم کے گڑھوں میں آگ پر پکنا اور لذتوں بھری بہشت سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے محروم ہو رہنا!!!

 ایسی نازک طبیعت پائی ہے کہ خواہشوں کے خلاف مزاحمت کرلینا تجھے ناقابل برداشت تکلیف نظر آتی ہے اور ایک نہایت ناگوار چیز، تو پھر تیری اس طبعِ نازک پر خدا کا عذاب سہنا ہی کیا آسان ہوگا؟؟؟ میں دیکھتا ہوں تُو اپنا ہی بھلا کرنے سے جو یوں کتراتا ہے اورراہِ فرار اختیار کر جانے پر یوں مصر ہے تو یا تو کوئی چھپاکفر تیرے اندر کہیں سما گیا ہے یا پھر کھلی حماقت۔ چھپا کفر یہ کہ: یوم حساب کی بابت تجھے یقین کا عارضہ ہے اور تجھے وثوق نہیں کہ خدا وہ ہستی ہے جس کے ثواب کی کوئی حد ہے اور نہ عذاب کی۔ کھلی حماقت یہ کہ: خدا کے عفو و مغفرت پر سہارا کرتا ہے اور اُس کی چال سے بے خبر اور اس کی پکڑ سے بےخوف۔ جبکہ خود دیکھتا ہے، یہاں دنیا میں روٹی کے ایک لقمے یا مال کے ایک دھیلے کےلیے تُو ’’خدا کے کرم‘‘ پر معاملہ چھوڑ دینے پر تیار نہیں ہوتا! یہاں کی روٹی یا مال کے مسئلہ پرکوئی تجھے ’’خدا کے کرم‘‘ کا جتنا مرضی یقین دلائے، تُو اس کی کوئی ایک بات سننے کا روادار نہیں ہوتا؛ بلکہ اپنی ہی محنت کرتا ہے! اپنے مقصود کو پانے کےلیے یہاں ہر ممکن حیلہ اختیار کرتا اور ہر عملی تدبیر اور ہر ممکن چارہ کرتا ہے! حیف تجھ پر اے نفس! تیرے پاس گنے چنے چند سانس ہی تو ہیں۔ ایک سانس چلا جائے تو سمجھ تیرا کچھ حصہ جھڑ چکا۔ اس سے پہلے کہ تجھے کوئی روگ لگ جائے اس تندرستی کو غنیمت سمجھ۔ قبل اسکے کہ تجھے کوئی بپتا پڑ جائے یہ فراغت جو تجھے بےحدوحساب حاصل ہے اسے غنیمت جان۔ قبل اسکے کہ غربت اور فاقہ دیکھنا پڑے اس آسودہ حالی سے فائدہ اٹھا لے۔

بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کی اس بےمثال نعمت کو بڑی کام کی چیز جان اور اس میں جو ہو سکتا ہے کر لے۔ آخرت کےلیے اسی حساب سے تیاری کر جس قدر طویل زندگی تجھے وہاں بسنا ہے۔ اے نفس! جاڑے کا موسم تجھے جب قریب نظر آتا ہے تو تُو اُسکےلیے کس طرح تیار ہوتا ہے؟ جتنا طویل جاڑا ہو کیا اسی حساب سے تُو اس کےلیے اپنا بندوبست نہیں کرتا؟ اسی حساب سے گرم کپڑے، کھانے پینے کاسامان اور ایندھن کا انتظام کیا تیرے ہاں نہیں ہوتا؟ کبھی ایسا ہوا ہے کہ جاڑا آیا ہو اور تُونے گرم کپڑوں اور ایندھن وغیرہ کا بندوبست کرنے کی بجائے معاملہ خدا کے فضل وکرم پر چھوڑ دیا ہو کہ وہ خود ہی اپنی مہربانی سے سردی کو تجھ سے دور کر دے گا اور تجھے گرمائش پہنچاتارہے گا؟! حالانکہ وہ تو بلاشبہہ اس پر قادر ہے! تو پھر کیا اے نفس !تیرا خیال ہے کہ جہنم کی زمہریر (کپکپی طاری کردینے والی سردی) تیری دنیا کی اِس سردی سے شدت میں کم ہے یا مدت میں؟ یا پھر تجھے خیال ہوا ہے کہ اور پھنسیں تو پھنسیں مگر تُو تو بغیر کوئی بھی سعی کئے جہنم سے نجات پا جائے گا؟ اف! کہاں! دنیا کی یہ سردی گرم کپڑے حاصل کئے بغیر اور آگ تپائے بغیر دور ہونے کی نہیں، اور تُو خوب جانتا ہے دنیا کی یہ گرمی اور سردی تجھے بھی اتنی ہی لگتی ہے جتنی اوروں کو…

تو پھر آخرت کی تلخی سے تحفظ توحید کے قلعہ میں پناہ لئے اور فرماں برداری کی فصیل اٹھائے بغیر کیسے ممکن ہے؟ ارے نادان! خدا کا فضل اور کرم یہی تو ہے کہ اُس نے تجھے وہ طریقہ بتا دیا جس سے کام لے کر تُو آخرت کے ان خطروں کے مقابلے پر قلعہ بند ہوسکے! اُسکی مہربانی یہی تو ہے کہ تیری ہدایت کےلیے اُس نے رسول بھیج دیے اور آخرت کی خواری سے بچاؤ کے اسباب میسر کردیے۔ پر تُو نے سمجھا کہ اُسکا مہربان ہونا یہ ہے کہ تُو اُسکے بتائے ہوئے طریقے پر قلعہ بند بھی نہ ہو اور اُسکے ہدایت کردہ اسباب بھی اختیار نہ کرے، پھر بھی آخرت کی وہ سب کی سب سختی اور عذاب آپ سے آپ ہی تیرے راستے سے ہٹ جائے! تجھ سے دنیا کی یہ سردی ہٹا دینے کے معاملہ میں خدا کا فضل اور کرم یہی تو تھا کہ اُس نے آگ پیدا کردی اور تجھے وہ سب طریقے سجھا دیے اور وہ سب اسباب تیرے لئے میسر کردیے جن سے کام لے کر تُو اپنے گھر میں آگ روشن کر لینے کے قابل ہو اور یوں سردی سے اپنا تحفظ کرلے۔ یہ ایندھن، یہ گرم کپڑے، یہ سردی سے تحفظ کا سب سامان خدا کی اپنی ضرورت تھوڑی ہے! جب تُو ان چیزوں کو حاصل کرنے کےلیے دوڑ دھوپ کرتا ہے تو یہ تیری اپنی ہی ضرورت ہوتا ہے۔ جب ایسا ہے تو آخرت کا بندوبست کرنے کےلیے تیری نیکی وفرماں برداری اور نفس کے خلاف تیرا مجاہدہ، یہ بھی تو خدا کی ضرورت نہیں! یہ بھی تو تیری ہی ضرورت ہے اور تیری ہی جان بخشی کا سامان! یہاں بھی جو بھلا کرے گا وہ اپنی ہی جان کا بھلا کرے گا اور جو برا کرے گا وہ اپنی جان پر بنائے گا….

 رہی خدا کی ذات تو وہ تو جہانوں سے بے نیاز ہے!!! افسوس اے نفس تجھ پر! اپنی اس نادانی سے نکل آ۔ آخرت کی وسعت کے ساتھ اپنی اس پِدّی سی دنیاکا ذرا موازنہ تو کر۔ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ”نہیں ہے پیدا کرنا تم سب کا (اے انسانو) اور نہ دوبارہ اٹھانا تم سب کا مگر ایسا ہی جیسے ایک شخص کا“۔ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ”جس طرح پیدا کیا اُس نے تم کو (اب) – (اسی طرح) تم پھر پیدا کئے جاؤ گے“ خدا کی سنت اور اُس کا کہا کبھی بدلتا تھوڑی ہے۔ پر کیسا تُونے اس دنیا کے ساتھ دل لگایا ہے اور کیونکر تُو بس اسی کے اندر کھُب گیا ہے!؟ یہ دل جب اسی دنیا میں ہوگا اور دل میں یہی دنیا، تو اس کو چھوڑنے کا لمحہ تیرے لئے کس قدر جان لیوا ہوگا!؟ تیرا سب کچھ اسی دنیا میں؛ اور یہ دنیا ہے کہ تیزی سے جارہی ہے! جب یہ دنیا ہی تیرے لئے سب کچھ ہے تو وہ ’بڑے پیمانے‘ جو جہانِ آخر میں پائے جانے والے ہیں تجھے کب سمجھ آئیں گے؟! تب خدا کے عذاب کی تیرے ہاں کیا وقعت اور خدا کی دین اور بخشیش کی تیرے ہاں کیا اہمیت اور قیامت کی ہوش بھلا دینے والی ہولناک ساعتوں کی تیری نظر میں کیا حیثیت؟! یہ چھوٹی حقیر سی دنیاپل دو پل کی چیز! جبکہ آخرت کے ابدی جہان میں دل لگانے یا وہاں گھر بنانے کا تجھے کبھی خیال ہی نہ آیا! تیری ساری خواہشیں اسی دنیا کی؛ تو پھر تیری اِس دنیا کا جانا تو ہر چیز کا چلا جانا ہوا!!! ہائے رے نفس تیری موت بھی کیسا بڑا سانحہ ہوگا!!! یہاں جن کے ساتھ تیرا دل لگا ہے یہ تو سب سمٹتے سائے ہیں!اور تُو جو ایک طویل سفر پر ہے، اور تیرے آگے دشت ہی دشت ہیں، تُونادان اِنہی روپوش ہوتے سایوں پہ ریجھ بیٹھا! راستے کی چیزوں کو کیسے مڑ مڑ دیکھتا ہے! کم بخت آگے دیکھ! جن سے تیری سب دل لگی ہے، اور ان کے سوا تُونے کوئی محبت پالی ہی نہیں، ان سے تیرا بچھڑنا پل دو پل کی ہی تو بات ہے! ارے اے نفس کوئی ایسا ساتھ بھی تو ہو جو آگے کی ہولناک گھڑیوں میں تیرے لئے باعث اُنس ہو!
 استفادہ از کلامِ غزالیؒ
بشکریہ ایقاظ ڈاٹ کام

0 comments:

ایک تبصرہ شائع کریں