جمعرات، 25 دسمبر، 2014

معاتبہ نفس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استفادہ از کلامِ امام غزالیؒ

حیف تجھ پر اے نفس؛ یومِ حساب پر گویا تیرا ایمان ہی نہیں! مر کر گویا تُو خدا کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یونہی چھٹکارا ہو جائے گا! کہاں بہکا پھرتا ہے!؟ یعنی تجھے پیدا کیا گیا، اتنا عرصہ تجھے پالا پوسا گیا اور تیری خدمت تواضع میں زمین آسمان کو لگا دیا گیا، اِس لئے کہ آخر میں تجھے چھوڑ دیا جائے!!!کیا تُو محض ایک گھٹیا بوند نہ تھی جو کہ بس ٹپکا دی گئی تھی؟ پھر اسی بوند سے پیدا کرلینے والی ذات نے تجھےلوتھڑانہیں بنایا؟ اور پھر اسی لوتھڑے سے ایک پورا انسان برآمد نہیں کر ڈالا؟ بس اب وہ اِس ایک بات سے عاجز ہے کہ وہ تجھے مردوں میں زندہ کھڑا کر لے!؟اگر تیرے دل کے کسی گوشے میں یہ گمان بیٹھ گیا ہے تو تیرے کفر اور تیری جہالت میں کیا شک ہے؟ پھر کیا یہ بھی کبھی غور کیا کہ تجھے اُس نے پیدا کس چیز سے کیا؟ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَه۔ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاء أَنشَرَهُ۔ (عبس 80: 19- 22) ایک پانی کی ٹپک سے اس نے تجھے پیدا کرلیا۔ پھر آگے کے کتنے مراحل تھے جو اُس نے تیرے لئے آسان کردیے۔

 پھر اُس نے تجھے موت دی اور قبر دی۔ پھر وہ جب چاہے تجھے اٹھا کر کھڑا کر لے گا۔ اب تُو ہے جسے اس بات پر یقین ہے کہ اُس نے تجھے غلیظ پانی کے ایک چھینٹے سے پیدا کر ڈالا۔ تجھے یہ قبول کہ اُس نے یہ سب مراحل طے کر لینا تیرے لئے ممکن بنایا۔ تجھے یہ تسلیم کہ تجھے وہ موت دے گا اور پھر ایک قبر فراہم کرے گا۔ تو کیا تجھے اُس کی اِسی ایک بات پر یقین کرنا دشوار ہے کہ وہ جب چاہے تجھے اس قبر سے اٹھا کھڑا کر لے؟ اور اگر تجھے یقین ہے تو پھر کیوں اس دن کی تیاری میں مصروف نظر نہیں آتا؟ کیا تجھے اندازہ ہے قبر سے زندہ کھڑے ہو اٹھنے کا کیا مطلب ہے اور اس منظر کی تاب لے آنے کی تیرے پاس کیا صورت ہے؟ ظالم انسان…!ایک یہودی طبیب اگر تجھ کو یقین دلائے کہ کوئی ایسا کھانا جو تجھے دنیا میں ہر چیز سے زیادہ مرغوب ہے، کسی خاص مرض کے باعث اب وہ تیرے لئے زہر قاتل ہے تو اسے چھوڑ دینے میں تُو ہرگز کوئی پس و پیش نہ کرے گا۔ اس سے پرہیز کرنے میں تجھے اپنے آپ سے کتنا بھی مجاہدہ کرنا پڑے، اپنی خواہش سے کتنی بھی جنگ کرنی پڑے، تُو ضرور کرے گا۔ تو کیا پھر اے ظالم نفس! وہ باتیں جو انبیاءتجھے بتا کر گئے اور اپنی صداقت پر لاتعداد معجزات کو تیری خرد کےلیے دلیل بنا کر گئے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کا اپنا قول جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیا، کیا اس یہودی طبیب کے قول برابر بھی نہیں جو محض اپنے ظن اور تخمین سے تجھے ایک خبر دیتا ہے اور جس کے غلط ہونے کا ہزار امکان ہے اور جوکہ مطلق حقیقت کا علم پانے پر ہرگز کوئی قدرت رکھتا ہے اورنہ طاقت؟!!

عجیب تو یہ ہے کہ ایک چھوٹا بچہ بھی اگر تجھے بتائے کہ تیرے کپڑوں میں کوئی بچھو چلا جارہا ہے… تو کبھی دیکھا ہے، وہ کپڑا تُو کس تیزی کے ساتھ دور پھینکتا ہے؟ کبھی اس بچے سے تُو نے بچھو کے چلنے کی ’دلیل‘ پوچھی؟ کبھی کوئی تاویل یا حجت یا بحث کی؟ کبھی کوئی ’نکتہ‘ چھوڑا یا ’خیال‘ ظاہر کیا؟ تو کیا پھر سب کے سب انبیاء، سب کے سب علماء، سب کے سب حکماءاور سب کے سب اولیاءکا ایک بات کہنا تیرے نزدیک اس چھوٹے بچے کی بات جتنا بھی وزن نہیں رکھتا جو خرد مندوں کی صنف میں بھی مشکل سےگِناجائے؟ یا پھر خدا کی دہکائی ہوئی وہ دوزخ اپنی تمام تر ہولناکیوں، اپنی ستر ستر ہاتھ لمبی زنجیروں، سر پھوڑنے والی گرزوں، اپنے تھور، اپنی پیپ اور کچ لہو، اپنی راکھ کردینے والی لو، اپنے ناگوں اور بچھوؤں سمیت تیری نظر میں دنیا کے اس بچھو جتنی بھی توجہ کے لائق نہیں… جو اگر تجھے لڑبھی گیا تو اس کا درد تجھے دو دن محسوس ہوگا، یا بڑی حد چار دن؟؟؟!!! کیا خرد مندی کی یہی باتیں ہیں؟ تجھ خرد مند کی یہ حالت تو چوپایوں سے کہی جائے تو اے نفس، وہ اس پر ہنس ہنس کر بےحال ہوں! تو پھر اے نفس! اگر تجھے یہ سب معلوم ہے اور اس پر تیر ایمان ہے تو عمل اور سعی میں ٹال مٹول کیوں؟ کیا جانتا نہیں، موت تیری گھات میں بیٹھی ہے اور کیا بعید کسی بھی وقت تُو خود کو اُس کی آہنی گرفت میں پائے جس کے بعد تجھے مانگے بھی مہلت نہ ملے۔ اور فرض کیا تجھے سو سال کی چھوٹ مل گئی، پھر بھی کیا خیال ہے جو آدمی عین گھاٹی چڑھنے کے وقت جاکر اپنی سواری کو چارہ ڈالنے کا روادار ہو، گھاٹی پار کر سکے گا؟ اور کسی دشت میں سائے میں دل لگا رکھنے والا کیا اس کی طویل مسافت طے کر لے گا؟ اگر تیرا یہ خیال ہے تو تیری نادانی میں کیا شک ہے؟

کیا خیال ہے کوئی شخص کہیں دور پردیس میں تعلیم حاصل کرنے جائے اور وہاں سالوں کے سال فارغ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اِس امید میں کہ اُس کے واپس جانے کو ابھی بہت سال پڑے ہیں!!! کیا تُو ایسے شخص کی عقل اور سمجھ کو استہزاءکے قابل نہ جانے گا؟ اور چلو فرض کرلیا کہ آخری عمر میں جاکر کی جانے والی تیری محنت ثمرآور ہوگی اور تجھے درجاتِ بلند بھی دلوا دے گی، مگر یہ بھی تو پتہ نہیں کہ ’آخری عمر‘ تجھے ملنے والی ہے یا نہیں۔ کیا پتہ یہ دن ہی تیرا آخری دن ہو اور وہ ’آخری عمر‘ جو تُو نے ’نیک‘ ہونے کےلیے اپنے ذہن میں پس انداز کر رکھی ہے، تیری قسمت میں لکھی ہی نہ ہو۔ اگر تجھ پر کوئی ایسی وحی نازل نہیں ہو چکی کہ تجھے ایک لمبی چھوٹ ہے، تو پھر عمل کی جلدی کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ ’آج، کل‘ کرتے جانے کا پھر کیا سبب ہے؟ کیا اسکے علاوہ اسکا کوئی اور سبب بھی ہے کہ اپنی خواہشات کے خلاف مزاحمت کرنا تیری طبیعت کیلئے دوبھر ہے اور اپنی شہوات کو مات دینا تجھے ایک مشقت نظر آتی ہے؟ تو پھر کیا تجھے اُس دن کا انتظار ہے جب خواہشوں کو مات دینا مشکل نہ رہے گا؟؟؟ ارے اے نفس! ایسا تو کوئی دن خدا نے پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے والا ہے۔ ایسا تو کبھی ہونے والا نہیں کہ جنت، نفس پہ گراں گزرنے والے جن امور سے گھِری ہے، جنت کے ارد گرد سے وہ سب رکاوٹیں تیرے نخروں کے لحاظ میں ہٹا دی جائیں۔ اور نہ کبھی ایسا دن آنے والا ہے کہ نفس پر گراں گزرنے والی یہ چیزیں جن سے جنت گھیر دی گئی ہے، نفس پر گراں ہی نہ رہیں اور تیرا خیال کر کے ان سب چیزوں کی سرشت ہی بدل ڈالی جائے!

کیا تُو سوچتا نہیں، کتنی بار تُو اپنے آپ سے وعدے کرتاہے اور کہتا ہے ’کل، کل‘۔ ہاں تو یہ ’کل‘ آگئی، تیری یہ ’کل‘ ’آج‘ میں بدل گئی، تو اب یہ ’آج‘ کیسی لگی؟ کیا تجھے معلوم ہوا کہ ’کل‘ جسے آنا تھا کتنی جلدی وہ ’آج‘ بن گئی ہے اور ’آج‘ بن جانے کے بعد اب یہ گزرا ہوا ’کل‘ بننے جارہی ہے بلکہ ’پار سال‘ اور اس سے بھی ’پار سال‘ بلکہ ایک بھولی بسری کہانی جو صرف ’لکھنے والوں‘ کو یاد رہے گی!؟! ارے اے نفس، جس نیک کام سے تُو آج عاجز ہے کل تُو اس سے کہیں بڑھ کر عاجز ہوگا! کیونکہ خواہش ایک مضبوط درخت کے مانند ہے جس کو دل کی سرزمین سے اکھاڑ پھینکنا فصلِ اخلاص کے کاشتکار کی اصل آزمائش ہے۔ بندہ اس درخت کو اکھاڑنے سے اگر آج عاجز ہے تو وہ اس شخص کے مانند ہے جو اپنے صحن کے ایک زہریلے درخت کو اپنے عنفوانِ شباب میں اکھاڑ پھینکنے سے قاصر ہے اور اپنی کمزوری کے باعث اس کو اور سے اور موخر کئے جاتا ہے۔ حالانکہ جانتا ہے، جوں جوں وقت گزرے گا درخت اور سے اور ہی جوان اور توانا ہوگا جبکہ خود وہ شخص اور سے اور ہی ضعیف اور ناتواں ہوگا۔ پس جوانی میں آدمی سے جو کام نہ ہوسکا بڑھاپے میں جاکر وہ کیا کرے گا۔ زور کے کام کیا بڑھاپا آنے پر اٹھا رکھے جاتے ہیں!؟ ایک سرسبز ٹہنی کو جیسے مرضی موڑ لو اور جیسا مرضی رخ دے لو مگر جب وہ سوکھ کر کاٹھ بن جائے پھر اس میں یہ خوبی کہاں!!؟ ارے اے نفس، اتنی واضح باتیں بھی سمجھنے پر تیار نہیں، اس پر مسلسل ٹال مٹول اور پھر تیرا دانائی کا یہ زعم؟ کسی کا نقصان تھوڑی ہے، اپنے آپ کو بربادی میں جھونکنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ شاید تُو کہے ’کیا کروں خواہشوں کی لذت ہی کچھ ایسی ہے اور انکو چھوڑنے میں تکلیف اور مشقت ہی کچھ ایسی ہے‘۔ یہ بھی کیسی حماقت کی بات ہے اور کیسا بیہودہ عذر!

 ارے اے نادان، تجھے اگر پتہ چل گیا کہ خواہشوں کی لذت کیا چیز ہے تو پھر اُن خواہشوں کی طلب کر جن میں لذت ہی لذت ہے اور جن میں کوئی کچرا اور گدلاپن نہیں اور جو ابد الآباد تک قائم ہیں۔ ارے اے جاہل، تیری یہ خواہشیں پوری کرانے کو ہی تو جنت وجود میں آئی ہے! اگر خواہشیں ہی تیری مطمح نظر ہیں تو اُسکی صورت بھی تو اِسکے سوا کچھ نہیں کہ ذرا دیر اُن سے منہ موڑ رکھ۔ دیکھتا نہیں کتنے ہی کھانے ایسے ہیں جن کو کھا لینے سے آدمی کو پھر کبھی کھانا نصیب نہیں ہوتا! ذرا یہ تو بتا اُس مریض کےلیے تیرا کیا مشورہ ہے جسے کسی حاذق طبیب نے صرف تین دن کےلیے ٹھنڈا پانی منع کر دیا ہو تاکہ وہ تن درست ہولے اور پھر عمر بھر مزے سے جتنا چاہے ٹھنڈا پانی پئے، اور اُس کو یہ بھی بتادیا ہو کہ اگر ان تین دنوں میں وہ ٹھنڈے پانی کے قریب گیا تو اس کو بے حد مہلک عارضہ لگ جانے والا ہے جس کے باعث پوری عمر وہ ایک ٹھنڈا پانی تو کیا اپنی ہزاروں خواہشیں پوری کرنے سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ کیا فرماتی ہے تیری عقل اور دانائی بیچ اِس مسئلے کے؟ کیا وہ تین دن صبر اور برداشت سے کام لے لے تاکہ پھر ساری عمر موج کرے یا پھر وہ اپنی خواہش فی الفور پوری کر گزرے کیونکہ تین دن صبر کرنا بڑا مشکل ہے، اور پھر اسکے نتیجے میں وہ تین دن نہیں تین سو دن نہیں تین ہزار دن نہیں کبھی بھی اپنے اس پسندیدہ مشروب کی شکل نہ دیکھ پائے!!؟ اور یہ تو تجھے معلوم ہے کہ دنیا کی یہ تیری ساری کی ساری عمر ملا کر بھی، اُس ابد الآباد کے مقابلے میں کہ جب اہل جنت جنت میں موج کریں گے اور کرتے ہی رہیں گے اور اہل دوزخ دوزخ میں عذاب سہیں گے اور سہتے ہی رہیں گے…. تیری یہ ساری عمرخواہ وہ کتنی ہی دراز ہو جائے اُس ابد الآباد مدت کے مقابلے میں تین دن سے بھی کم ہے۔ صد افسوس تیری عقل اور بینائی پر! خواہشوں کے فراق کا درد تجھے زیادہ المناک اور زیادہ طویل دِکھتا ہے نہ کہ جہنم کے گڑھوں میں آگ پر پکنا اور لذتوں بھری بہشت سے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے محروم ہو رہنا!!!

 ایسی نازک طبیعت پائی ہے کہ خواہشوں کے خلاف مزاحمت کرلینا تجھے ناقابل برداشت تکلیف نظر آتی ہے اور ایک نہایت ناگوار چیز، تو پھر تیری اس طبعِ نازک پر خدا کا عذاب سہنا ہی کیا آسان ہوگا؟؟؟ میں دیکھتا ہوں تُو اپنا ہی بھلا کرنے سے جو یوں کتراتا ہے اورراہِ فرار اختیار کر جانے پر یوں مصر ہے تو یا تو کوئی چھپاکفر تیرے اندر کہیں سما گیا ہے یا پھر کھلی حماقت۔ چھپا کفر یہ کہ: یوم حساب کی بابت تجھے یقین کا عارضہ ہے اور تجھے وثوق نہیں کہ خدا وہ ہستی ہے جس کے ثواب کی کوئی حد ہے اور نہ عذاب کی۔ کھلی حماقت یہ کہ: خدا کے عفو و مغفرت پر سہارا کرتا ہے اور اُس کی چال سے بے خبر اور اس کی پکڑ سے بےخوف۔ جبکہ خود دیکھتا ہے، یہاں دنیا میں روٹی کے ایک لقمے یا مال کے ایک دھیلے کےلیے تُو ’’خدا کے کرم‘‘ پر معاملہ چھوڑ دینے پر تیار نہیں ہوتا! یہاں کی روٹی یا مال کے مسئلہ پرکوئی تجھے ’’خدا کے کرم‘‘ کا جتنا مرضی یقین دلائے، تُو اس کی کوئی ایک بات سننے کا روادار نہیں ہوتا؛ بلکہ اپنی ہی محنت کرتا ہے! اپنے مقصود کو پانے کےلیے یہاں ہر ممکن حیلہ اختیار کرتا اور ہر عملی تدبیر اور ہر ممکن چارہ کرتا ہے! حیف تجھ پر اے نفس! تیرے پاس گنے چنے چند سانس ہی تو ہیں۔ ایک سانس چلا جائے تو سمجھ تیرا کچھ حصہ جھڑ چکا۔ اس سے پہلے کہ تجھے کوئی روگ لگ جائے اس تندرستی کو غنیمت سمجھ۔ قبل اسکے کہ تجھے کوئی بپتا پڑ جائے یہ فراغت جو تجھے بےحدوحساب حاصل ہے اسے غنیمت جان۔ قبل اسکے کہ غربت اور فاقہ دیکھنا پڑے اس آسودہ حالی سے فائدہ اٹھا لے۔

بڑھاپے سے پہلے جوانی کو اور موت سے پہلے زندگی کی اس بےمثال نعمت کو بڑی کام کی چیز جان اور اس میں جو ہو سکتا ہے کر لے۔ آخرت کےلیے اسی حساب سے تیاری کر جس قدر طویل زندگی تجھے وہاں بسنا ہے۔ اے نفس! جاڑے کا موسم تجھے جب قریب نظر آتا ہے تو تُو اُسکےلیے کس طرح تیار ہوتا ہے؟ جتنا طویل جاڑا ہو کیا اسی حساب سے تُو اس کےلیے اپنا بندوبست نہیں کرتا؟ اسی حساب سے گرم کپڑے، کھانے پینے کاسامان اور ایندھن کا انتظام کیا تیرے ہاں نہیں ہوتا؟ کبھی ایسا ہوا ہے کہ جاڑا آیا ہو اور تُونے گرم کپڑوں اور ایندھن وغیرہ کا بندوبست کرنے کی بجائے معاملہ خدا کے فضل وکرم پر چھوڑ دیا ہو کہ وہ خود ہی اپنی مہربانی سے سردی کو تجھ سے دور کر دے گا اور تجھے گرمائش پہنچاتارہے گا؟! حالانکہ وہ تو بلاشبہہ اس پر قادر ہے! تو پھر کیا اے نفس !تیرا خیال ہے کہ جہنم کی زمہریر (کپکپی طاری کردینے والی سردی) تیری دنیا کی اِس سردی سے شدت میں کم ہے یا مدت میں؟ یا پھر تجھے خیال ہوا ہے کہ اور پھنسیں تو پھنسیں مگر تُو تو بغیر کوئی بھی سعی کئے جہنم سے نجات پا جائے گا؟ اف! کہاں! دنیا کی یہ سردی گرم کپڑے حاصل کئے بغیر اور آگ تپائے بغیر دور ہونے کی نہیں، اور تُو خوب جانتا ہے دنیا کی یہ گرمی اور سردی تجھے بھی اتنی ہی لگتی ہے جتنی اوروں کو…

تو پھر آخرت کی تلخی سے تحفظ توحید کے قلعہ میں پناہ لئے اور فرماں برداری کی فصیل اٹھائے بغیر کیسے ممکن ہے؟ ارے نادان! خدا کا فضل اور کرم یہی تو ہے کہ اُس نے تجھے وہ طریقہ بتا دیا جس سے کام لے کر تُو آخرت کے ان خطروں کے مقابلے پر قلعہ بند ہوسکے! اُسکی مہربانی یہی تو ہے کہ تیری ہدایت کےلیے اُس نے رسول بھیج دیے اور آخرت کی خواری سے بچاؤ کے اسباب میسر کردیے۔ پر تُو نے سمجھا کہ اُسکا مہربان ہونا یہ ہے کہ تُو اُسکے بتائے ہوئے طریقے پر قلعہ بند بھی نہ ہو اور اُسکے ہدایت کردہ اسباب بھی اختیار نہ کرے، پھر بھی آخرت کی وہ سب کی سب سختی اور عذاب آپ سے آپ ہی تیرے راستے سے ہٹ جائے! تجھ سے دنیا کی یہ سردی ہٹا دینے کے معاملہ میں خدا کا فضل اور کرم یہی تو تھا کہ اُس نے آگ پیدا کردی اور تجھے وہ سب طریقے سجھا دیے اور وہ سب اسباب تیرے لئے میسر کردیے جن سے کام لے کر تُو اپنے گھر میں آگ روشن کر لینے کے قابل ہو اور یوں سردی سے اپنا تحفظ کرلے۔ یہ ایندھن، یہ گرم کپڑے، یہ سردی سے تحفظ کا سب سامان خدا کی اپنی ضرورت تھوڑی ہے! جب تُو ان چیزوں کو حاصل کرنے کےلیے دوڑ دھوپ کرتا ہے تو یہ تیری اپنی ہی ضرورت ہوتا ہے۔ جب ایسا ہے تو آخرت کا بندوبست کرنے کےلیے تیری نیکی وفرماں برداری اور نفس کے خلاف تیرا مجاہدہ، یہ بھی تو خدا کی ضرورت نہیں! یہ بھی تو تیری ہی ضرورت ہے اور تیری ہی جان بخشی کا سامان! یہاں بھی جو بھلا کرے گا وہ اپنی ہی جان کا بھلا کرے گا اور جو برا کرے گا وہ اپنی جان پر بنائے گا….

 رہی خدا کی ذات تو وہ تو جہانوں سے بے نیاز ہے!!! افسوس اے نفس تجھ پر! اپنی اس نادانی سے نکل آ۔ آخرت کی وسعت کے ساتھ اپنی اس پِدّی سی دنیاکا ذرا موازنہ تو کر۔ مَّا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ ”نہیں ہے پیدا کرنا تم سب کا (اے انسانو) اور نہ دوبارہ اٹھانا تم سب کا مگر ایسا ہی جیسے ایک شخص کا“۔ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ ”جس طرح پیدا کیا اُس نے تم کو (اب) – (اسی طرح) تم پھر پیدا کئے جاؤ گے“ خدا کی سنت اور اُس کا کہا کبھی بدلتا تھوڑی ہے۔ پر کیسا تُونے اس دنیا کے ساتھ دل لگایا ہے اور کیونکر تُو بس اسی کے اندر کھُب گیا ہے!؟ یہ دل جب اسی دنیا میں ہوگا اور دل میں یہی دنیا، تو اس کو چھوڑنے کا لمحہ تیرے لئے کس قدر جان لیوا ہوگا!؟ تیرا سب کچھ اسی دنیا میں؛ اور یہ دنیا ہے کہ تیزی سے جارہی ہے! جب یہ دنیا ہی تیرے لئے سب کچھ ہے تو وہ ’بڑے پیمانے‘ جو جہانِ آخر میں پائے جانے والے ہیں تجھے کب سمجھ آئیں گے؟! تب خدا کے عذاب کی تیرے ہاں کیا وقعت اور خدا کی دین اور بخشیش کی تیرے ہاں کیا اہمیت اور قیامت کی ہوش بھلا دینے والی ہولناک ساعتوں کی تیری نظر میں کیا حیثیت؟! یہ چھوٹی حقیر سی دنیاپل دو پل کی چیز! جبکہ آخرت کے ابدی جہان میں دل لگانے یا وہاں گھر بنانے کا تجھے کبھی خیال ہی نہ آیا! تیری ساری خواہشیں اسی دنیا کی؛ تو پھر تیری اِس دنیا کا جانا تو ہر چیز کا چلا جانا ہوا!!! ہائے رے نفس تیری موت بھی کیسا بڑا سانحہ ہوگا!!! یہاں جن کے ساتھ تیرا دل لگا ہے یہ تو سب سمٹتے سائے ہیں!اور تُو جو ایک طویل سفر پر ہے، اور تیرے آگے دشت ہی دشت ہیں، تُونادان اِنہی روپوش ہوتے سایوں پہ ریجھ بیٹھا! راستے کی چیزوں کو کیسے مڑ مڑ دیکھتا ہے! کم بخت آگے دیکھ! جن سے تیری سب دل لگی ہے، اور ان کے سوا تُونے کوئی محبت پالی ہی نہیں، ان سے تیرا بچھڑنا پل دو پل کی ہی تو بات ہے! ارے اے نفس کوئی ایسا ساتھ بھی تو ہو جو آگے کی ہولناک گھڑیوں میں تیرے لئے باعث اُنس ہو!
 استفادہ از کلامِ غزالیؒ
بشکریہ ایقاظ ڈاٹ کام

ہفتہ، 18 اکتوبر، 2014

غزل : جتھے تیرے پَیر او بیلی

 غزل

جتھے تیرے پیر او بیلی
اوتھے شالا خیر او بیلی


لیڈر کردے مِٹھیاں گلّاں
مینوں لگن زہر او بیلی


ہووے گا کدی راوی دریا
ہُن وچارا ۔۔۔ نہر او بیلی


لمّے سوکے ۔۔ مارُو پانی
وَنّ سَوَ نّے ۔۔ قہر او بیلی


راہ میری وِچ وِچھے پینڈا
نالے آکھے ۔۔۔ ٹھہر او بیلی


وِچ چَناں جنے سوہنی روڑھی
دل وچ اُٹھی ، لہر او بیلی


شیراں دے ہُن ہرن شکاری
جنگل ہویا ۔۔ شہر او بیلی


فلک شیر

منگل، 23 ستمبر، 2014

جوگی نامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوشی محمد ناظر

جوگی نامہ​

کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا​
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا​
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی​
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا​
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی​
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا​
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے​
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا​
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی​
بن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا​
تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ​
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ​
چیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی​
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی​
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے​
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی​
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا​
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی​
تھا راکھ کا جوگی کا بستر اور راکھ کا پیراہن تن پر​
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی​
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ​
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی​
جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا​
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا​
کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟​
ہیں پنکھ پکھیرو بن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟​
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا​
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟​
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے​
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟​
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی​
ہم جوت لگاتے ہیں من کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟​
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، من میں ساجن کا ڈیرا ہے​
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟​
یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا​
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا​
ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی​
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی​
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟​
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی​
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا​
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی​
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے​
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی​
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے​
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی​
پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا​
پھر عشق کے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اِک جام دیا​
اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا​
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا​
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت​
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بن میں جا بابا​
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہ روحانی​
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بن وحدت کا دریا بابا​
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں​
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا​
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے​
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا​
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں​
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا​
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں​
سب بن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا​
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں اور یاد نہیں بھگوان تمھیں​
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا​
پرماتما کی وہ چاہ نہیں اور روح کو دل میں راہ نہیں​
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا​
تن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو​
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا​
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے​

یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا​

خوشی محمد ناظر


مجھے جینے دے!!!

مجھے جینے دے!!!


فصیلِ جاں سے ذرا اُدھر
خبرگاہ سے ذرا  اِدھر
ایک اور دنیا ہے
اعراف والوں کی
ہمہ دم طواف والوں کی
کم اطراف والوں کی
دنیا۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں
بجتا ہے  ایک ساتھ
  تمنا کا  نقارہ اور نفس کا ساز
بے چاری دنیا!!!


اے حُسنِ ازل!!
اس دنیا کے باسی
ہزار جاں سے تجھ پہ فدا بھی
 گھٹتی ہوئی  اک صدا بھی
تیرے ساتھ بھی، آس پاس بھی
اور
تجھ سے دور بھی۔۔۔
تیرے لشکر کے ہراول بھی
اُس کے رستے میں 
سرِ راہ بیٹھے مسافر بھی

وہ چاہیں۔۔۔اے حسنِ ازل!
کہ خود کو۔۔۔تجھ پہ
دان کریں
اپنے جسم و جاں سے
تیرے اسم گرامی کا اعلان کریں
جو کچھ ہے۔۔۔۔اُن کے پاس
سب۔۔۔سب تیرے نام کریں

ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔کبھی کبھی
ایک خیال کا آسیب انہیں آن لیتا ہے
کہ تو!
اے حسنِ ہرطرف۔۔۔۔تو!!!
اُنہیں اپنے سایوں سے بات کرنے دے
اُن کے ساتھ بھی کبھی
دن رات کرنے دے
خود اپنے ساتھ بھی کبھی
ملاقات کرنے دے
الگ جزیرے بسانے دے
اپنی دنیا آپ سجانے دے
جِن سے اُنہیں اُنس ہے
صرف انہی سے 
ایک ہو جانے دے
خداوند!۔۔۔۔بس کبھی کبھی


 فلک شیر










بدھ، 16 جولائی، 2014

قصہ ہشت درویش

آٹھویں درویش نے پہلے درویش سے کہا........اتنی طول طویل خرافات سُن کر سر میں درد سا ہونے لگا ہے...... پہلے مجھے اونٹ مارکہ بیڑی پلا ،کہ حواس قائم ہوں.......تاکہ پھر اپنی دلدوز داستاں سنا کر تیرے بھی سر میں درد لگا سکوں......پہلے درویش نے دوسرے درویش کی جیب سے بیڑی نکال کے پیش کی.....دو کش لگانے کے بعد یہ بزرگ یوں گویا ہوا...........
بچپن تھا.......نیرنگی زمانہ دیکھیے کہ خبر ہی نہ ہوئی اور جوانی آن ٹپکی......ایک عفیفہ کہ نام اُس کا اب ذہن میں نہیں........البتہ اس کے والد گرامی شہرکے سب بڑے کھمبوں پہ رات کو لالٹین باندھ کر ثواب دارین کمایا کرتے تھے، تاکہ اللہ کے وہ بندے جو رات کو دوسروں کے گھروں میں روزی روٹی کے سلسلہ میں نقب لگاتے ہیں ، اُن کو مشکل نہ ہو(لوگ ایویں بکواس کرتے ہیں، کہ ڈاکو ان کو باقاعدہ حصہ دیا کرتے تھے)........اور دن میں سود پہ پیسہ دے کر خدمت خلق کیا کرتے تھے.......ایسے لوگ اب جہاں میں کہاں ملیں گے.........
تو ایک روز اس عفیفہ نے مجھے رستہ میں گزرتے ہوئے کہا، اے بھلے آدمی! مدت سے تو مجھے روزن دیوار سے دیکھا کرتا ہے..........کیوں نہ تو مستقل ہمارے گھر میں ہی منتقل ہو جائے.......والد گرامی ایک عدد ملازم کی تلاش میں ہیں ، جو اُن کے ساتھ مل کر دن رات اللہ کی مخلوق کی خدمت بجا لائے..........میں نے باقاعدہ بغلیں بجائیں......اور ساڑھے تین درم کے بتاشے لے کر وہیں غربا میں تقسیم کی........اتفاق سے اس وقت ہم دونوں ہی وہیں تھے................
گھر تو اپنا نام کا تھا........سو ہمسایے کا ہی ایک جوڑا چھت سے اٹھایا...اور اُس عفیفہ کے گھر جا وارد ہوئے..........پہنچتے ہی اُس خضر صورت بزرگ نے میرا ماتھا چوما اور لالٹینوں میں تیل ڈالنے پر مامور کیا..............
چند ہی روز میں ہمیں یقین ہو گیا، کہ یہ عفیفہ ہم سے محض فلرٹ کر رہی ہے..........سو اُس شب ہم نے اُس بزرگ کے گھر کو خیر باد کہہ دیا.......دل دنیا سے اوب سا گیا تھا.....دنیا کے مال سے نفرت ہو چلی تھی........اسی لیے سوچا ، کیوں نہ اس بزرگ کو بھی اس آزار سے نکالتے چلیں......سو چلتے چلتے اُس کی تجوری کا بوجھ ہلکا کیا اور شہر سے باہر نکل پڑا..........دیکھا تو صحرا میں ایک جگہ کچھ لوگ الاؤ کے گرد رقص کرتے تھے اور نامانوس زبان میں عجب نغمے گاتے تھے.......اُن کے ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پیالے تھے.......جن میں نجانے کوئی مشروب تھا...........صحرا، رات، رقص،الاؤ، مشروب...........میں نے بزرگ کی دولت کو کمر سے کس کے باندھا اور اُس حلقہ میں شامل ہوا..........تھوڑی دیر میں ان میں سے ایک نے میرے ہاتھ میں وہی جام پکڑایا.......خمار میں تھا......ایک ہی لمحہ میں سارا جام چڑھا گیا........رقص کرتے کرتے مجھے لگا، کہ آسماں کے تارے میرے قریب ہی کہیں آ گئے ہوں......بلکہ ایک دو کو تو ہاتھ بڑھا کر میں نے پکڑنا چاہا......اسی دوران میں معرفت کی دنیا میں اتر گیا........اور پھر میری آنکھ اگلی صبح ہی کھلی..........فوراً کمر کی طرف ہاتھ بڑھایا، تو خبر ہوئی کہ وہ بھی میرے درویش بھائی تھے......اور مجھے دنیا کے علائق سے ہٹا دینے پہ مامور تھے...........حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھے...............
تیسرا درویش: اے پیر جواں سال........ابھی سے سر دو اسپرین والی درد سے بھر گیا ہے.......اپنی داستان کو کل رات تک اٹھا.........کہ آج رات مجھے کل رات کی تھکن اتارنا ہے........وہ والی تھکن جو پرسوں رات چوتھے درویش کے چوتھے عشق کا قصہ سنتے سنتے ہوئی تھی.........
پانچواں درویش: بھلے لوگو! مدت ہوئی ملائی کا برف کھائے........تم میں سے کوئی شہر جائے اور کسی نیک دل تاجر کو سفوفِ دلپذیر سنگھا کرصبح تک کے لیے میٹھی نیند سلا کر اس کی دعائیں لے.........اور ملائی کا برف اُس کے برفاب خانے سے لائے.........کیا کہا تھا گنجوی خراسانی نے
اک آگ لگی میری سینے میں
ہائے ظالم نے کیا مصرعہ کہا..........تیر ہی تو مار ڈالا سینے میں...........
چھٹا درویش: تیر سے یاد آیا .........درویش بھائیو! تمہیں بھی کچھ یاد آیا.........؟؟
ایک تھا تیر انداز ، ایک تھی کمان اور ایک ہی تھا تیر.............
اُس مردِ نیک نہاد نے کمان کا چلہ کھینچا........تیر چڑھایا...........اور پھر.........
ساتواں درویش: پھر کیا ہوا؟
آٹھواں درویش:پھر خاک ہونا تھا...........دن چڑھنے کو آ گیا ہے اور ابھی ملائی کا برف نہیں آیا......تف ہے ایسی درویشی پہ.....................

پہلا درویش: بھائیو! دنیا فانی ہے اور آنی جانی ہے............کیوں خواہشات دنیا میں اتنا مگن ہوتے ہو.........عبرت سرائے دہر میں ہر منظر سے عبرت پکڑو................ہمارے ہمسائے ہی میں ایک خوبرو ، فرشتہ صفت عطار کا لونڈا دوائیں بیچتا تھا.......کل میں اس سے دوا لینے گیا تو بھلا چنگا تھا......حیرت ہے کہ آج شام میں اس کوچے میں گیا تو اسے دیکھ کر میری سٹی گم ہو گئی........کچھ دیر میں اپنی سٹی ڈھونڈتا رہا........جب مل گئی تو کیا دیکھتا ہوں........کہ وہ بدستور بھلا چنگا ہی تھا.........کیا زمانہ آ گیا ......کیا زمانہ آ گیا............

آٹھواں درویش: رات تمام ہوئی...........مگر نہ میری داستانِ درد تم نے سماعت کی اور نہ خس خانہ برفاب کا وہ جگر پارہ آیا......جسے کہیں تو شہنشاہِ اثمارکے رس میں ملا کے پیش کرتے ہیں تو کہیں مرکب اسود یعنی موسوم بہ چکلیت میں ملا کے نوش جاں کرتے ہیں .........کہیں رس بھری کارس اس میں ملاتے ہیں تو کہیں میوہ ہائے خشک کا انبار اس کے تودہ پہ استادہ کرتے ہیں...........ہائے نواب اجہل الزماں کے دیوان خانہ کی رونق !
وائے ملک یسارالدولہ کے زنان خانہ کی رونق!!..........استغفراللہ! یہ کیا ہفوات بک گئے ہم............
ہم کہنا چاہ رہے تھے ملک یسارالدولہ کے نعمت خانہ کی رونق یہی ملائی کا برف ہی تو ہوتی تھی.......قسما قسم ذائقوں اور فواکہات میں ملوث و ملفف کر کے نقرئی طشتریوں میں ادھ کھلے چاند کی رات ...............
اے چشم فلک! دہائی ہے............دہائی

ساتواں درویش: صاحبو! دیکھتا ہوں کہ لذائذ جسمانی و نفسانی کے بہت دلدادہ ہوتے جاتے ہو......نفس کا غلام اور تربوز کا بیج ایک ہی خاصیت رکھتے ہیں.....کچھ عرصہ قبل تک تو یہ خاصیت مجھے یاد تھی....اب بھولنے لگا ہوں......ایک تجویز ہے کہ ہم آٹھوں بھائی آج رات نکلیں اور گلیوں کوچوں میں آوارگی کریں......نئے لوگ، نئی کہانیاں،نئی خوشبوئیں، نیا کوتوال اور نئے سپاہی.......کوتوالی کے سابقہ ملازم تو ہم آٹھوں بھائیوں کی جان کے درپے ہی ہو گئے تھے.........
قرارداد منظور ہوتی ہے.......
آدھی رات کے قریب کا وقت ہے، چاند ڈیڑھ نیزے پہ اور سورج بستر میں پڑا ہے........تارے دون کی لے رہے ہیں اور ستارے خرگوش کی نیند سے حظ اٹھاتے ہیں.....ایسے میں یہ قلندر صفت مردان باصفا شہر کی سیر کو نکلتے ہیں........

اگلی شب: تکیے پہ آٹھوں درویش ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈال کے حال کھیل رہے ہیں........تزکیہ نفس اور اسرار معرفت کی یہ مجلس.......اللہ اللہ.......
پہلا دریش کہ عمر اور قفس کے تجربے میں سب سے فائق تھا.....یوں گویا ہوا.....اے چمنستان معرفت کی بلبلو! کل رات کی داستاں جلد سناؤ، کہ عقل جلا مانگتی ہے ......
ذرا یہ نمدہ تو ادھر کھسکانا.......

آٹھواں درویش: صاحبو! کل رات جو میں تکیے سے نکل شہر میں وارد و صادر ہوا.....تو بیڑی جلانے کو لمحہ بھر ایک گلی کی نکڑ پہ رکا........ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک گدھا ایک پختہ عمر کو کان سے پکڑ کے کھینچے جا رہا تھا......دم بخود، انگشت بدنداں.....فہم نماند.....یا خدا یہ کیا ہو رہا اس شہر میں......
تھوڑا آگے چلا تو ایک درویش کو شرطوں کی وردی میں دیوار پھلانگ کر ایک تاجر کے گھر جاتے دیکھا........پوچھا ، اے درویش بھائی تم تو بندی خانے میں تھے......کہنے لگا، چپ کر.......
میں چپ ہو رہا.......آگے چلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑھیا غازہ و خم کاکل لگائے سجائے بیچ رستے کے تخت بچھائے بیٹھی ہے اور ہر آنے جانے والے کو آخرت سے ڈرا رہی ہے.......
صاحبو! یہ دیکھ کر میری تابِ مجال جواب دی گئی.......اور شہر سے صحرا کو نکل آیا......البتہ اتنا ضرور ہوا کہ نکلتے نکلتے ایک بھاگتے ہوئے چور کی لنگوٹی ضرور لے آیا......شکر ہے وہ درویش بھائیوں میں سے نہیں تھا...................اللہ بس باقی ہوس

ساتواں درویش: صاحبو! میں جب شہر پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ امیر شہر کی سواری جاتی ہے.......خدام حشم جلو میں قطار اندر قطار چلتے تھے......یہ دیکھ کرحصول خلعت شاہی کی پرانی خواہش میرے اندر عود کر آئی اور میں نے آوازہ ہوس بلند کر دیا.......افسوس ہے اس نفس پہ........میں نے صدا دی! اے امیر شہرتیری توصیف کو تملق بھی کمتر صنعت ہے اور تیری صورت کی مدح کو خود نظیفی و اباابائی قصیدہ لکھ کر لائیں تو حق ادا نہ کر سکیں گے........شجاعت کا تذکرہ کروں یا سخاوت کا...............ابھی یہ سب کہہ رہاتھا کہ امیر نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روک دیا ور کہا .........درویش لگتے ہو..........میں بھی کبھی درویش تھا........یہ بتاؤ بستہ الف کے درویش ہو یا بستہ ی کے........میں حیران ہی تو رہ گیا........امیر شہر نےمیری تلاشی کا حکم دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پچھلے ہفتے جو ہار ہم نے شربت روح افزا پلا کر فارس کے تاجر سے ہدیتاً وصول کیا تھا...........اُس کو دیکھ کر کہنے لگا........ایسی رعایا مالک دوجہاں ہر ایک کوعنایت فرمائے.........کہ بادشاہ کی زیارت کو آویں تو ایسے خوبصورت تحفے لے کر آویں.............ہم تیرا یہ ہدیہ قبول کرتے ہیں...........
سر پیٹنے کا مقام تھا........سو خوب پیٹا.........جانب صحرا آئے اور سر میں مٹی ڈال کر رقص درویش کیا...........اور اس شعر کی قوالی کیا کیے
درویشی بھی ہے عیاری، سلطانی بھی ہے عیاری

چھٹا درویش: تکیے کے بھائیو! مدت ہوئی میں بادیہ گردی کا اسیر ہوا.........اور شہروں کی بود و باش سے تائب......اور صرف صحراؤں میں بھٹکے قافلوں کو مزید بھٹکا کر نان شبینہ کا انتظام کیا کرتا تھا......کل جب آپ کی تجویز و قرارداد پہ شہر میں جا موجود ہوا.......تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مانوس شکل سرائے کی انتظارگاہ میں قہوے کے فنجان کے فنجان لنڈھا رہی ہے.......غور کیا تو یہ اعلیٰ حضرت نادرکلوروی ثم بغدادی تھے...........ان کے ایک قافلے کو ایک دفعہ بیچ صحرا کے اس فقیر نے دنیاوی مال و دولت کے دلدر سے چھرایا تھا..........
حضرت کی نظر مجھ پہ پڑی تو اپنے چار ہٹے کٹے مریدوں سمیت فوراً آن ملے........انتہائی محبت سے ملے.......ان چاروں نے بھی باری باری معانقہ کیا.......اس عمل میں ہماری تین پسلیاں مجروح ہوئیں اور باقی مضروب........اسس کے بعد وہ مجھے باصرار اپنے حجرے میں لے گئے اور ان چاروں احباب کو میرے ساتھ حال بے حال کھیلنے کا حکم دیا........انہوں نے تعجیل سے تعمیل کی............اس سے آگے بیان میرے بس میں نہیں...........
بس یہی کہہ رہا ہوں تب سے ............
درویش کی موت آئے تو شہر کا رخ کرتا ہے.............

پانچواں درویش: بھائیو! اب تم سے کیا چھپاؤں، جب رات میں نے شہر کا قصد کیا تو مجھ پہ نیند کا غلبہ ہوا............اتنا غلبہ اتنا غلبہ ہوا.......کہ میں چلتے چلتے رستے میں موجود ایک کٹیا میں پڑ کے سو رہا.......دن چڑھے ہوش آئی.........تو واپس آ گیا........نادم ہوں .......معافی کا خواستگار ہوں........
ہاں اتنا ضرور ہے کہ رستے میں ایک پان فروش کو چونا لگاتے دیکھا تو خود اس کو چونا لگا کر سکھایا کہ اصل میں چونا کیسے لگاتے ہیں.........یہ جو ہندوستان کے خوشبو دار پتوں میں خوشبو کی لپٹیں مارتا قوام آپ چبا رہے ہین...........یہ اسی مرد حق پرست کا ہی آپ بھائیوں کے لیےتحفہ تو تھا............

چوتھا درویش: یہ شہر بھی عجیب ہوتے ہیں............ایسے ایسے لوگ ان میں جا بستے ہیں .............جن کی جیبیں بھری اور دل و دماغ خالی ہوتے ہیں............مدت سے میں استاذ الاساتذہ حضرت مولانا احقر العباد قدس سرہ العزیز کے دروس ہائے فلسفہ سے اپنے علمی پیاس بجھایا کرتا ہوں..........آج جو شہر کا رخ کیا تو ان کا مدرسہ سامنے آ گیا.....دل کی ضد کہ شیخ کی قدم بوسی کی جائے اور ادھر سے آپ بھائیوں کے حکم کی بجا آوری.........سو میں نے ایک درمیانی راہ نکالی اور سنیما میں لگی تازہ نمائشِ متحرک تصاویر(فلموں) کے اشتہار دیکھنے لگا........ان میں سے ایک مجھے بہت بھایا.........نام کچھ یوں تھا ’’اندلس کے باغات میں لختئی رقص‘‘ بمعہ چہار ہزلیات از نواب مسؤل امبیٹھوی.......... :):):)

نصف درم خرچ کر میں وسطی طبقے میں جا بیٹھا.........پردہ سیمیں پہ عجب مناظر تھے.....عجب .......
ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی ، کہ برق خود مختار بعد از تبسم رخصت ہوئی........ہمیں وطن مالوف کی بہت یاد آئی.........جہاں ایسی ہی برکات و فیوض رئیس سلطنت کے دم قدم سے جاری تھیں ..........صاحبو! اُن کانام نامی تو آپ بخوبی جانتے ہوں گے..............میں نے نعرہ مستانہ بلند کیا ......... تمام ناظرین وجد میں آ گئے اور رقص بسمل شروع کیا........موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے ٹکٹیں ان کی جیبوں میں اور نقدی و ماکولات اپنے جبہ میں منتقل کرنا شروع کیں........پھر اسی ہاؤ ہو میں سے نکلے........شہروالوں کی عاقبت ناندیشی پہ سخت تاسف کرتے کرتے آپ بھائیوں کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا................
شک نہیں کہ کبوتر با کبوتر.........باز بہ باز

باری تھی تیسرے درویش کی............لیکن اس نے ہوشیار ریل مسافر کی طرح عین وقت پہ ایک ہزار رکعت نفل کی نیت کی.........تاکہ مالِ مسروقہ شریفہ میں درویش بھائیوں کو شامل کرنے کی نوبت نہ آئے........
کیا وقت آ گیا.......کیسے لوگ چہرہ زمین پہ آن بسے........اتنی حرص.........اتنا لالچ........الحفیظ و الامان......

دوسرے درویش کی ڈھنڈیا پڑی................تو پتہ چلا کہ وہ پہلے درویش کی معیت میں پچھلی رات کا تمام مال غنیمت سمیٹ کر کب کے یاد خدا میں مصروف ہونے کو پہاڑ کی کھوہ کا رخ کر چکے............
نفل پڑھتے درویش نے کمر کے پٹکے کو اور زور سے باندھا اور سلام پھیرے بغیر ہی جانب مشرق برہنہ پا دوڑ لگا دی................
بقیہ پانچ درویشوں نے ایک دوسرے کی داڑھیاں اور جبے ہاتھوں میں لیے اور حال کھیلنے لگے...........
وہ دن اور آج کادن ..............................سب درویش ویرانوں میں بستے ہیں.........ہاں کبھی کبھار شہروں کا رخ کرتے ہیں تو براہ راست ایوانوں میں پہنچائے جاتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں...........
چلتے ہو تو صحرا کو چلیے................
والسلام مع الاکرام



جمعہ، 11 جولائی، 2014

ساز و مغنٌی ........ایک مکالمہ

مغنی نے گود میں لیے ساز کے تاروں کو سرسری چھیڑا ....... منہ بسورتے طفل کی سی صدا اُن میں سے برآمد ہوئی ........گویا ناراض ہوں.....اور رخصت کے طلب گار ہوں......مغنی مسکرایا اور سوال کیا .......
م:خفا کیوں ہو......تمہارا اور میرا کیا پردہ......کیا ہوا............بولو!
س:گاہے تمہاری انگلی مجھ پہ یوں پڑتی ہے.......جیسے ہجر کے بعد وصال میسر آنے والےباہم ملیں......اور گاہے یہی انگلیاں اجنبی لگتی ہیں.....کیوں؟
م: ارے بھئی تمہارا وہم ہے؟
س:تمہارے لیے تو میں محض تار کے چند ٹکڑوں کا مجموعہ ہوں.........آواز جس کے پہاڑ پچھم سے نکلتی اور تمہارے اُتر دکھن کو آسودہ کرتی ہے........ایک آلہ، جو بولتا ہے......ہنساتا ، رُلاتا اور رقص پہ آمادہ کرتا ہے........اوربس.......
م :ارے ارے نہیں.............تم تو سچ میں خفا ہونے لگے..........تم !............تو وہ ہو............دور والوں کوجو پاس بلاتا اور......پاس والوں کو دور لے جاتا ہے ........وادیوں، چراگاہوں، جھیلوں اور اونچی نیچی چھتوں والے مکانوں سے بہت دور ......آگے ، جہاں صرف خیال پہنچتا ہے........اُس سے بھی آگے، اُس چشمے تک......جہاں خود خیال جنم لیتا ہے .........تمنا کی وسعت کی خبر گاہے تم ہی دے پاتے ہو......کہ آفاق تک تمہاری رسائی ہے اور انفس کو آفاق کے رنگ میں تُم رنگ دیتے ہو.........ہمیشہ نہ سہی.........گاہ گاہ سہی........
س: تو پھر اکثریہ اجنبیت کیوں ..........لمس میں سچائی کیوں نہیں ؟.........کیوں؟..........باتیں تم بہت بناتے ہو .......اور گلا تمہارا بہت کھُلا ہے.........باتوں میں تم سے کون جیت پایاہے......مغنی جو ہوئے........
م:تمہارے بغیر مغنی ادھورا ہے........راگ کی شکل ابھارنا اُس اکیلے کے بس کی بات نہیں .........صرف گلے میں سوزنہیں ہوتا ......تمہاری تاروں سے بھی پھوٹتا ہے ، وہ مثل پھوار کے.....اور سنو، جادو ہاتھ میں نہیں .........تیرے وجود میں ہے ........تیرے وجود میں
س:میرے وجود میں؟ِ
م:تو اور کیا!.........تیرے وجود میں .........تمہارے اندر جو چھپا ہے.......اسے کون ڈھونڈ پایا ہے..........کن کن زمانوں کے راز .......کون کون سے مقامات کی سیر کی ہے تمہاری نواؤں نے........اور تیرے طفیل میں نے ایسے لمحے پائے ہیں .........کہ بولا جانے والا کوئی حرف بھی جن کا اظہار نہ کر پائے گا ..........خود کو سات سُروں تک محدود جانتے ہو تم .......اور نہیں جانتے کہ تم ہی تو ہو .........تم ہی !!
س: میں جانتا ہوں ........میں کیا ہوں .......کیا تھا .......اور آنے والے وقتوں میں کیا ہو کے رہوں گا ........جب میری آنکھیں بند ہوتی ہیں .......اور تمہاری انگلیوں میرے تاروں کو جھنجھوڑتی ہیں .......ایک ایسے سفر پہ میں نکلتا ہوں .........جہاں منزل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ........رستہ کہاں سے ہو گا ........کائنات کے وہ گوشے ، جہاں کسی مخلوق کی نگاہ کبھی نہ پڑی ہو گی .....اُن میں سے کتنے ہی میں نے ان اسفار میں دیکھے ہیں ......تم میرے پاس بیٹھتے ہو......لیکن کم ہی میرے خیال کی رو کے راہی بن پاتے ہو .........کم ہی ......قلق ہے........قلق رہے گا
م:ایک بات تو بتاؤ ........یہ محرومی میرے مقدر میں کیوں ہے.........پاس ہو تے ہوئے دور ہونے کی .........اور.............دور ہو کے پاس نہ ہوپانے کی ..........
س:یہ سوال تم اُس سے کرنا
م:کس سے؟
س:جس کا شعر تم اکثر الاپتے ہو
ج:ابو معین؟
س: ہاں ہاں وہی
م:ہاں ، شاید وہ مجھے بتا سکے .......کہ لفظ اُسے اپنی باگ پکڑاتے ہیں ، کہ جدھر چاہے اُن کے قافلے کو موڑے ............اور جب چاہے اُن سے دان لے .........
س: اور کیا !
م: تمہیں یقین ہے، وہ دے پائے گا ان سوالوں کے جواب؟؟
س: شاید ...............لیکن ..............مجھے لگتا ہے ............شہر سے دوری اور صحرا سے قربت .........نامعلوم کے سفر اور اَن سُنے راگوں کی تلاش............ان سب سے آگے ہے کہیں میرے اور تیرے سوال کا جواب .........شاید ...........شاید ابو معین نے اس سے آگے سفر کیا ہو .........
م:شاید..............شاید